بوئے غُس سے کٹوکل کا منظر

میرے والدین نے مجھے میری تاریخ پیدائش کے بارے میں ضرور بتایا تھا لیکن کچھ اس انداز سے۔۔۔ "تم سردیوں کے آخری مہینے کے تیسرے جمعہ کو رات گئے پیدا ہوئے" لیکن جب میں نے استفسار کیا کہ کیسے؟ تو والدہ کا جواب تھا کہ درحقیقت ایک خوبصورت پری مجھے میرے گھر چھوڑ گئی تھی۔ یہ بات میں اس لئے چھیڑ رہا ہوں کہ جب چالیس دن بعد کتبہ لگانا پڑے تو میرے پوتوں کو یہ دقت پیش آئے گی کہ کونسی تاریخ لکھی جائے۔ چونکہ کوئی بھی درست طور پر نہیں جانتا تو "سرکاری" کاغذات پر تکیہ کیا جائے گا جو میرے بھرتی اور پنشن کے بارے میں ہیں۔

بچپن میں پری والی بات جب میں نے اپنے ہمجولیوں کو دوران کھیل بتائی تو ہنسی سے ان کے آنکھوں میں آنسو آئے کہ تمہارے آبرو جو ہیں وہ انتہائی گھنے ہیں جبکہ سنا ہے پریوں کے ہاں نازک نقوش کے لوگ ہوتے ہیں۔ یہ بات مجھے اب تقریباً ایک صدی عمر کے خاتمے پر اس لئے یاد آ رہی ہے کہ جن لوگوں نے میرا مذاق اڑایا تھا وہ تمام شرارتی لوگ پہلے سے یہاں موجود تھے، سوائے ایک دو افراد کے۔ بہرحال، اس وقت مجھے اپنی ظاہری خدوخال کی کوئی ضرورت نہ محسوس ہو رہی ہے نہ اہمیت۔ مجھ سے پہلے جو لوگ یہاں آئے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہاں ان کاموں کی اہمیت ہے جو میں نے آخری سانس سے پہلے کئے ہیں۔ خصوصاً آُس وقت جب میں کسی نہ کسی اختیار میں تھا -

صرف دو دن پہلےمیری آدھی عمر کا ایک محلے دار بھی یہاں آیا تھا- میرا آنا کوئی ایسی بڑی بات تو نہیں تھی کہ میں تقریباً ایک صدی وہاں گزار آیا تھا جبکہ وہ جوان محلے دار میرے دو جوان بیٹوں اور ایک بہو کی جدائی کا زخم ہرا کر کے آیا تھا۔

جب میں وہاں تھا تو میرے پیاروں نے اپنے تیئں اس جوان کے جانے کا شائبہ بھی مجھے نہیں ہونے دیا تھا، لیکن ان کو کیا معلوم کی جو شخص تیس سال سے تین جوانمرگ زخموں کو دنیا سے اپنی ظاہری ہمت اور مصنوعی شادیانوں کے آڑ میں پوشیدہ رکھتاہو اُسے ہر جوانمرگی کا احساس اپنے گھر کی تین جوانمرگیوں سے کہیں ذیادہ شدت کے ساتھ روح میں محسوس ہوتا ہے۔ میں نے میری روح پر لگے اپنے زخم چھپائے اس لئے تھے کہ میرے تین پوتے اور ایک پوتی کو یہ محسوس نہ ہو کہ وہ بے یارو مددگار ہو گئے ہیں۔ اس ظاہری ہمت کے کھیل میں میری شریک حیات نے مجھ سے بڑھ کر ہمت کا مظاہرہ کیا اور جہاں میں کمزور پڑا اس نے مجھے سنبھالا۔

جیسا میں نے سوچا تھا ویسا ہی ہوا۔ میرے تینوں پوتوں اور ایک پوتی نے ہمت اور بہادری کا وہ مظاہرہ کیا جس نے مجھے اور میری شریک حیات کو وہ ہمت دی جسے تنہائی میں ہم ہمیشہ کھو بیٹھتے تھے۔

اب جبکہ میں اپنی ابدی گھر میں قیام پذیرہو گیا ہوں تو وہ تمام افراد مجھے ملنےآ رہے ہیں جن کی جدائی کی کسک میں ہمیشہ محسوس کرتا رہا تھا۔ خصوصا اُن لوگوں کی یاد مجھے ہمیشہ آتی تھی جو اس سرزمین کو حاصل کرنے اور حصول کو برقرار رکنھے میں کبھی دریا کنارے، کبھی خطرناک پہاڑوں، کبھی برف زار میدانوں اور کبھی جنگلوں میں میرے ساتھ بھوک و پیاس، اشیائے ضرورت، جو کسی بھی مہم کو کامیاب بنانے کے لئے ضروری ہوتی ہیں کی شدید کمی، حکام بالا کی سرد مہرلاتعلقی اور پہاڑی علاقوں کی سختیوں کو جوانمردی سے برداشت کرتے تھے۔ اس دور میں صرف ایک جذبہ ہم سب کو بے سروسامانی کے عالم میں آگے بڑھاتی تھی کہ اپنے علاقے کو ان افراد کے ہاتھوں میں دوبارہ جانے نہیں دینا ہے جنہوں نے بڑا عرصہ سادہ لوح عوام کا استحصال کیا ہے۔ ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے۔

میرے اس ابدی گھر اور اُس دور کے درمیان جیسے صدیوں کا فاصلہ ہو۔ لیکن مجھے ہربات تفصیلا یاد ہے کہ اس دوران میں ہم نے بڑے بڑے مقاصد کی خاطر اپنے چھوٹے چھوٹے خواہشات کا گلہ گھونٹا ہے۔ کبھی ایک بڑے اور طاقتور دوست اور ہمسائے کی خاطر اپنے جانوں کی اور کبھی اپنی زمینوں کی قربانی دی ہے۔ میں آس پاس نظر دوڑاتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے سکول کے بچوں نے جشن آزادی منانے کے لئے ہر تیسرے چوتھے ابدی گھر پر سبز ہلالی پرچم سجا رکھے ہوں، حالانکہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ اس پرچم کے نیچے ماں کی ممتا، بہن کا مان، بھائی کا فخر دلہن کی جسم کی خوشبو، اور ہاں اس کے چوبی تابوت کے باہر لپٹے سبز ہلالی پرچم کی جوشبو بھی، محسوس کرتا کوئی نوجوان ہونٹوں پر ابدی مسکراہٹ سجائے لیٹا ہے۔ مجھے یہ مسکراہٹ اس لئے بھی اپنی تمام تر تفصیلات کے ساتھ یاد ہے کہ میں نے اور میرے ساتھیوں نے، جب بے سروسامانی کے عالم میں وطن کی دفاع کی قسم کھائی تھی، ان تمام ساتھیوں کے ہونٹوں پریہی مسکراہٹ دیکھی تھی جن کو ہم نے کبھی کسی چیتھڑے میں کبھی کسی سفید کپڑے میں اور کبھی، لیکن بہت ہی کم دفعہ، سبز ہلالی پرچم میں لپیٹ کر زمین میں اتارا تھا تو یہی مسکراہٹ اُن کے ہونٹوں پر تھی، لیکن یہ مسکراہٹ صرف اُس وقت نظرآتی جب ان کے سر سالم حالت میں ہمیں ملتے، کیونکہ کئی بار ایسا ہوتا کہ ہم کسی لوتھڑے کو سر سمجھ کر گردن کے ساتھ کسی نہ کسی طرح جوڑ دیتے تو اصل سر کوئی کھائی پھلانگتے وقت ہمیں نظرآتا جسے ہم نظر انداز کرتے کی اب نہ ہم میں ہمت ہوتی اور نہ وقت کہ ایک سر کی خاطر ہم اپنے اگلے ہدف کو بھول جاتے۔
آس پاس کے تقریبا سارے لوگ میرے جانے پہچانے تھے سوائے دو لوگوں کے۔ اُن میں سے ایک تو ادھیڑ عمر تھا جبکہ دوسرا نوجوان۔ دونوں کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ وقت سے بہت پہلے یہاں بھیجے گئے ہیں خصوصا نوجوان کو۔ پھر مجھے یاد آیا کہ یہ تو وہی ہیں جن کو حق مانگنے کی سزا دی گئی تھی۔ نہیں بلکہ نوجوان کو تو حق مانگنے کی اور ادھیڑ عمر کو اپنے نوجوان بیٹے کی گولی لگے تڑپتے جسم کو سہارا دینے کی سزا دی گئی تھی۔ مجھے ہمیشہ اس بات پر حیرت ہے کہ جب ہم بے سروسامانی کے حالت میں اپنی قسم نبھانے چلے تھے تو ہماری قسم توڑنے کے درپے لوگوں نے کبھی ہمیں اپنے ساتھیوں کے تڑپتے جسموں کو سہارے دینے سے نہیں روکا تھا۔ بلکہ اس دوران خاموشی سے اس انتظار میں بیٹھے رہے تھے کہ ہم اپنے ساتھیوں کو زمین کے حوالے کریں تو وہ ہمیں بھی زمیں کے حوالے کرنے کا بندوبست کریں جس میں وہ ذیادہ تر بہرحال کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ شائد اب حالات بہت بدل گئے ہیں اور اقتدار لاشیں گرا کر اور لوگوں کو مسلسل حالت خوف میں رکھ کر ہی قائم رہ سکتا ہے۔

مجھے یہ بھی یاد آیا کہ ان دو افراد اور ان جیسے دوسرے جو حق مانگنے نکلے تھے، ان کو حق مانگنے سے آگ اور خون کے زور پر روکے جانے پردوسرے لوگوں نے بھی ان کا ساتھ دیا اور شائد کسی موقع پرست کے اشارے پر، کہ موقع پرست تو ایسے موقعوں کی نہ صرف تلاش میں ہوتے ہیں بلکہ اس طرح کے مواقع پیدا کرنے کے ماہرین بھی، ساتھ دینے والوں نے اندھی تقلید میں شنید ہے کچھ بےضرر جگہوں کو آگ میں جونکا۔ اور کچھ اور جذباتی افراد نے وہ چیزیں شائد اُٹھائیں جو ان کے خیال میں ان دو افراد کو خون سے رنگین کرنے کا سبب بنی تھیں۔ لیکن شائد جذبات میں اندھے ہونے کا مطلب ایسے موقعوں کے لئے استعمال ہوتا ہے کہ ان کو یہ سمجھ نہیں آئی کہ ایسی چیزوں سے کسی بے گناہ کا خون تو بہایا جا سکتا ہے لیکن گنہگار اپنے کسی نہ کسی طاقت کے بل پر صاف بچ نکلتا ہے ۔

میں نے یہاں سے اپنے محلے کٹوکل کا منظر بیان کرنا تھا لیکن کہیں سے کہیں نکل گیا۔

اس کی ایک وجہ شائد یہ ہو کہ میں اُدھر بہت ساری باتیں کرنا چاہ رہا تھا۔ لیکن بہت ساری چیزیں آڑی آتی رہیں۔ پہلے تو غم روزگار نے موقع نہیں دیا پھر ان تین زخموں نے کچھ اور سوچنے اور بولنے سے روکا جو وقتا فوقتا ہرے ہوتے رہے۔ پھر اس بے گناہ خون کی مہک نے بھی کہ جس کا ذکر اوپر کیا ہے، تھوڑا سا کردار ادا کیا کہ اس میں بہت سوں کے ساتھ اقتدار کا ہاتھ اُس پر بھی پڑا جس پر مجھے فخر ہے کہ مجھ سے ذیادہ اُن تین زخموں کو سہار گیا ہے اور نہ صرف اپنے پاؤں پر کھڑا ہے بلکہ دوسروں کو بھی سہارا دے رہا ہے۔ اُس بیگناہ خون نے جہاں بہت سوں کو جذباتی کردیا وہاں اُسے بھی فطری طور پر جذبات کی رو میں دھکیل دیا جس کا خمیازہ وہ آج بھی اس حد تک بُھگت رہا ہے کہ اُسے اس بات کی بھی اجازت نہیں کہ وہ اپنوں کے درمیان بیٹھ کر میرے یہاں آنے کا سوگ منا سکے میں یہ بتانا چاہ رہا ہوں کہ وہ جہاں کہیں بھی رہے میرے دل کے پاس ہے، شاید آس گھبرو سے بھی زیادہ قریب جو آسے اس جہاں میں لایا تھا۔ تو اُسے اپنوں میں میرے دن پورے ہونے تک نہ ہونے گا دکھ نہیں ہونا چاہئے۔

میں اُس سے کہنا چاہ رہا ہوں کہ جرم وہ ہے جو انسان کے ضمیر پر عمر بھرکچوکے لگاتا رہے۔ مجرم وہ نہیں جسے قربانی کا بکرا بنا کر سادہ لوح عوام کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ میں اُس سے یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ وہ جہاں بھی رہے اپنی اُن خصلتوں کو نہیں چھوڑے جو اُسے میرے نذدیک ایک اچھا انسان بناتے ہیں۔
بہرحال، میں موجودہ منظر بیان کرتا ہوں:
لیکن یہ کیا؟؟؟


میں دیکھ رہا ہوں کہ میرا بچپن اور جوانی جہاں گزری تھی وہاں اب کچھ ذیادہ دور تک نظر نہیں آتا کہ کنکریٹ کی ایک دیوارہے جو منظر کو خراب کر رہا ہے۔ شائد کچھ دن بعد جب میں اس ماحول کا عادی ہو جاؤںگا تو آُپ لوگوں کو کچھ بتا پاؤنگا۔۔۔۔۔
Sher Baz Khan
About the Author: Sher Baz Khan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.