نادان لڑکیاں (قسط ١)

وہ لان چیئر پر افسردہ انداز میں نیم وا آنکھوں سے سامنے درختوں کی شاخوں پر بیٹھی چڑیوں کو دیکھ رہی تھی جو ہر چیز سے بے نیاز ایک دوسرے سے اٹکھیلیاں کرنے میں مگن تھیں سارے لان میں رنگ رنگ کے پرندوں نے طوفان بدتمیزی پھیلا رکھا تھا- پریشے کو اس وقت یہ شور بہت ناگوار لگ رہاتھا - اس نے ایک پتھر اٹھایا اور سامنے درخت پر بیٹھے چڑیوں کا نشانہ لیا جس کے نتیجے میں سارا غول وہاں سے اجتجاجاً واک آؤٹ کر گیا- اب وہاں خاموشی کا راج تھا اور یہ خاموشی پریشے کو بہت اچھی لگ رہی تھی- یہ محبت بھی نہ انسان کو کیا سے کیا بنا دیتے ہیں حلانکہ پہلے تو وہ لان میں آتی ہی ان چڑیوں کے لیے تھی- اور پتا نہیں کیا ہوا تھا اب اسے دن با دن چڑ چڑی ہوتی جا رہی تھی- پریشے خان بہت ہی خوبصورت اور خوب سیرت لڑکی تھی اور خوب قسمت والی بھی- دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی اور بھائیوں کو پیاری بھی بہت تھی- امی بابا کی جان تھی وہ- اور اس کی جان بھی امی بابا ، اور دونوں بھائیوں میں ہی تھا - گھر میں صرف وہ امی اور بابا ہی تھیں بڑا بھائی شہرام انگلینڈ میں بزنس کرتا تھا اور سال میں دو بار پاکستان آتا تھا- جبکہ چھوٹا بھائی شہیر سٹڈی کے لیے کوریا گیا تھا اسے کوریا کے یونی کی طرف سے اسکالر شب ملا تھا شہیر چھٹیوں میں پاکستان آتا تھا خود پریشے تھرڈ ائیر میں تھی وہ بہت پیاری اور بڑی معصوم سی لڑکی تھی صبح سویرے اٹھ کر نماز پڑھتی تلاوت کرتی اور پھر کالج کے لیے تیار ہونے کے بعد امی اور بابا کے ساتھ ناشتہ کرتی ناشتہ امی بناتی تھی باقی صفائی وغیرہ کے کاموں کے لیے کام والی آتی تھی جبکہ امی اور بابا کے سارے کام وہ خود کرتی تھی امی لاکھ منع کرتی مگر وہ کرتی اسے اچھا لگتا تھا امی ، بابا کے کام کرنا- کالج سے آنے کے بعد وہ زیادہ وقت بابا کی لائبریری میں گزارتی تھی یا پھر لان میں رنگ رنگ کے پھولوں کو دیکھتی ، چڑیوں کو سنتی کبھی کبھی بابا بھی آجاتا لان میں اور دونوں لان میں بیٹھ کر اپنے پسندیدہ کتابوں پر تبصرے کرتے یہ سارے اس کے پسندیدہ مشغلے تھیں- رات کو دونوں بھائی باری باری آن لائن ہوجاتے تھیں شہرام تو بہت بزی ہوتا تھا وہ کبھی کبھی آن لائں ہوتا تھا جبکہ شہیر روز رات کو آن لائن ہوتا- پریشے کو اپنے یونی کے بارے میں بتاتا ، کیا کھایا ، کیا پیا، کب سویا، کب جاگا، وہ اسے دیر تک بتاتا ساتھ میں پری سے بھی ڈھیروں سوال کرتا وہ بہت زیادہ باتونی تھا پریشے بھی شہیر سے ہر بات شیئر کرتی تھی- وہ بچوں کی طرح لیپ ٹاپ کے سامنے اپنی ایک ایک چیز لا لا کر اسے دیکھاتی- ماہا آپی کی شادی کے لیے یہ وائٹ میکسی فراک لیا ہے ساتھ میں وائٹ ٹاپس ، وائٹ سینڈل ، حنا کے برتھ ڈے کے لیے یہ کارڈ خود ہاتھ سے بنایا ہے- اور یہ ڈیجیٹل فریم جس میں اس کے امی ، بابا اور دونوں بھائیوں کے تصویرے آتے جاتے تھے یہ شہرام بھائی نے گفٹ کیا ہے- شہیر اس سے چار سال بڑا تھا جبکہ وہ اس سے بات اسی کرتی تھی جیسے وہ اس کا ہم عمر ہوں دوسرے لڑکیوں کی طرح اس کی زیادہ سہیلیاں نہیں تھی کالج کے ہی دو تین لڑکیوں کے ساتھ اس کی ہائے ہیلو تھی بس کزنوں کے گھر دور تھے سو وہ ہر بات بھائیوں سے ہی شیئر کرتی تھی اس کی زندگی ٹھیک ٹھاک اور خوشگوار گزر رہی تھی اور پھر اس کے ٹیھک ٹھاک زندگی میں حماد نامی بلا کا اضافہ ہوا------ وہ لاؤنج میں بیٹھی اپنی کورس کے کتابیں کھولے پڑھ رہی تھی موبائیل اس کے پاس ہی رکھا تھا- بجا تو اس نے اٹھا لیا اور کان سے لگایا- احمد ہے اس سے میری بات کروائے- وہ تو نہیں ہے- وہ اجنبی مردانہ آواز سن کر از حد گھبر گئی تھی- کیوں نہیں ہے اس کو تو ہونا چائیے تھا کیونکہ یہ اس کا نمبر ہے دبی دبی ہنسی سے کہا گیا- نہیں یہ تو احمد کا نمبر نہیں ہے یہ میرا نمبر ہے- وہ اور بھی گھبرا گئی اپنے بابا اور بھائیوں کے علاوہ اس نے کبھی بھی کسی غیر مرد سے بات نہیں کی تھی۔ جاری ہے)
umama khan
About the Author: umama khan Read More Articles by umama khan: 22 Articles with 52312 views My name is umama khan, I love to read and writing... View More