اقتصادی راہداری، بیرون ممالک کی دلچسپی اور اندرون ملک خلفشار

سی پیک منصوبے میں ایک طرف تو برطانیہ، روس، انڈیا شامل ہونا چاہتے ہیں، وزیراعظم پاکستان نے بھارت ، امریکہ دفاعی گٹھ جوڑ کا توڑ نکالنے کیلئے روس کو بھی سی پیک میں شامل کرنے کا فیصلہ کرلیاہے۔ خطے میں نئی دفاعی حکمت عملی و اقتصادی صف بندی کے پیش نظرروس کو گوادر کے راستے تجارت کی اجازت دی جانے کا امکان ہے جس کے بعد روس کو باقاعدہ طورپر پاکستان کے گرم پانیوں تک رسائی مل جائے گی۔ (جس کے لئے اس نے افغانستان پر حملہ کیا اس پر قبضہ کیا اپنی معیشت کو تباہ کیا اور لاکھوں انسانوں کو افغان روس جنگ کے باعث دنیا سے کوچ کرنا پڑا) اس سلسلے میں روس کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ الیگزینڈر یورٹنی کو وکی پاکستان کے دورے کے دوران بات چیت ہوئی۔ روس جسے سیکورٹی خدشات لاحق تھے کو اب گوادر سے 400کنٹینر کے قافلے کے بحفاظت مشرقی وسطی او رافریقی ممالک پہنچنے کے بعد ختم ہوگئے ہیں اب روس کے تجارتی قافلے سی پیک کے راستے گوادر تک لائے جاسکیں گے۔ جس سے نہ صرف روس کے ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں کمی ہوگی جبکہ پاکستان کو بھی اضافی کروڑوں ڈالر کی آمدنی ہوگی۔ وزیراعظم پاکستان نے حالیہ دورہ اشک آباد کے دوران ، اومان، ترکی ، ایران، ازبکستان، ترکستان تک رسائی کیلئے اشک آباد اور لیز لازولی راہداری منصوبے میں بھی شامل ہونے کا اعلان کردیاہے جس کے بعد پاکستان کو یورپ تک بذریعہ سڑک رسائی حاصل ہوجائے گی۔ جبکہ پاکستان کے سی پیک منصوبے کی افادیت اور اہمیت کو سمجھتے ہوئے مذکورہ ملکوں کے علاوہ ایران، ترکستان اور ایک یورپی ملک بھی اس منصوبے میں شامل ہوناچاہتاہے۔ سی پیک منصوبہ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے ساتھ دیگر ہمسایہ پڑوسی اور دوست ملکوں کی ترقی و خوشحالی کا منصوبہ ہے جسے بجا طورپر دنیا کے عظیم منصوبوں میں شامل کیاجاسکتاہے۔ یہ منصوبہ جو اپنے ابتدائی مراحل میں پاکستان کے لاکھوں لوگوں کو روزگار ملے گا بین الاقوامی روابط میں اضافہ ہوگا۔ پسماندہ ملکوں سے غربت، بھوک و افلاس ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ پاکستان کے کئی شہروں میں اکنامک زون بنائے جائیں گے جن میں خاص کر صوبہ کے پی کے او ربلوچستان کے کئی پسماندہ شہر شامل ہیں۔ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوگا اور بنجر اراضیات کو آباد کرنے کے وسائل مہیاہوں گے ۔ خاص کر ڈیرہ اسماعیل خان کا ضلع جو کہ مغربی روٹ کا دل ہے اور تین صوبوں کے سنگم پر واقع ہے کی تقریبا 4لاکھ ایکڑ بنجر اراضی کو سیراب کرنے کے وسائل پیدا ہوں گے۔ ڈیرہ میں پہلے ہی چار شوگر ملیں کام کررہی ہیں جبکہ چار مزید شوگر ملوں کی منظوری دے دی گئی ہے۔ یہاں کی اراضی کے سیراب ہونے سے گندم، چنا، چاول، سرسوں، کپاس، گنا، جوار، باجرہ و دیگر اجناس کی اتنی مقدار پیدا ہوگی جو پورے ملک کی غذائی ضرورت کو پور اکرسکتی ہے لیکن سی پیک منصوبے کے ساتھ ساتھ لفٹ کینال کا منصوبہ بھی اسکے لئے لازم ہے جس کی تعمیر کا اعلان نواز شریف نے چندماہ قبل دورہ ڈی آئی خان کے دوران کیا تھا ۔ ایک طرف مذکورہ مصنوبے کی اہمیت و افادیت ہے جو دیگرممالک کی شمولیت اور خواہش سے مزید ابھر کر سامنے آتی ہے لیکن دوسری طرف ملک میں اس منصوبے کے سلسلے میں موجود تنازعات اور خدشات ہیں جن کا رونا بلوچستان اور کے پی کے کی عوام اور حکومتیں رو رہی ہیں۔ حال ہی میں بلوچستان میں آل پاکستان تاجر کنونشن میں ایک مشترکہ قرارداد کے ذریعے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ واقعی اگر وہ مغربی روٹ کو فوقیت دیتی ہے اور وعدے کے مطابق اس کو سب سے پہلے مکمل کرنا چاہتی ہے تو وہ کوئٹہ سے قلعہ سیف اﷲ ، ژوب، ڈیرہ اسماعیل خان کے راستے پر بھی ویسے ہی تیزی سے کام شروع کرے جیسا کہ مشرقی روٹ پر ہورہاہے۔ اکنامک زون، ریل کی پٹری اور دیگر لوازمات پر کہیں کوئی کام ہوتا نظر نہیں آرہا ۔ 2018ء تک حسب وعدہ مغربی روٹ کیسے مکمل ہوگا ؟اسی طرح کے پی کے کی حکومت نے تو عدالت سے رجوع کرلیا۔ ان کے خدشات قائم و دائم ہیں۔ وزیراعلی پرویز خٹک کے حالیہ بیان کے مطابق وفاقی حکومت نے منصوبہ کو متنازعہ بنایاہے ان کی پالیسی اس سلسلے میں واضح نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ منصوبہ سے ملک کا مستقبل وابسطہ ہے اس کی سب شرائط اوپن ہوں چپکے چپکے کام سے شکوک پیدا ہوتے ہیں۔ وہ یورپی یونین کے ایک وفد سے بات کررہے تھے ۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں اس سلسلے میں گذشتہ دنوں ڈیرہ ترقی محاذ کے فورم سے ایک آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا اس میں بھی مطالبہ کیا گیا کہ مغربی روٹ کے جن منصوبوں کا وعدہ نواز شریف نے آل پارٹیز کانفرنس کے شرکاء سے ایک سال قبل کیا تھا ان پر جد اور تیزی سے کام شروع کیاجائے تاکہ عوام اور سیاسی جماعتوں کا ابہام اور شک دور ہو۔ کانفرنس میں فاٹا کو صوبہ کے پی کے میں ضم کرنے کی مذمت کرتے ہوئے اسے سی پیک منصوبے کو خراب کرنے کے مترادف قرار دیاگیا اور مطالبہ کیا گیاکہ فاٹا کے علاقوں پر مشتمل لوگوں کا الگ صوبہ بنایاجائے۔ پاکستان میں سی پیک منصوبے کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہے ہر محب وطن پاکستانی اور سیاسی جماعت اسکی بروقت تکمیل چاہتی ہے لیکن حکومت کو چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں موجود خدشات اور زیادتیوں کا فوری ازالہ کرے اور مغربی روٹ کو ویسے ہی فوقیت دے جیسے وہ دیگر راستوں کو دے رہی ہے۔ مغربی روٹ کے تمام راستوں پر جب تک کام شروع نہیں ہوتا اور بجٹ مختص نہیں کیاجاتا رسہ کشی جاری رہے گی۔ موجودہ حالات میں جب دہشت گرد، را، موساد، سی آئی اے کی مدد سے اس عظیم منصوبے کو سبوتاژ کرنے میں مصروف ہیں انتہائی خطرناک ہے اور قومی ہم آہنگی بہت ضروری ہے۔ لیکن موجودہ حکومت کا یہ وطیرہ رہاہے کہ وہ ہر نازک اور اہم مسئلے کو غیر ضروری طوالت دے کر معاملے کو مزید ابھاردیتی ہے۔ اس اہم مسئلے پر سنجیدگی نہ دکھانا اور ٹھوس اور بروقت اقدامات کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ جسے فوری طورپر پایہ تکمیل تک پہنچانا ضروری ہے۔
Sohail Aazmi
About the Author: Sohail Aazmi Read More Articles by Sohail Aazmi: 181 Articles with 138079 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.