کیا یہ رینجرز کا کام ہے؟

ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبر نے ہفتہ کو کراچی کے نوجوانوں اور عوام کے لئے تین اہم اقدامات کرنے کا اعلان کیا۔ اس سلسلے میں ان کا کہنا تھا کہ سندھ رینجرز صوبائی اور وفاقی حکومت کے اداروں کے تعاون سے اسکل ڈیویلپمنٹ سینٹرز، وکٹم سپورٹ پروگرام اوراصلاحی مراکز قائم کر ے گی۔انھوں نے کہا کہ اسکل ڈیولپمنٹ سینٹرز میں کراچی کے ہزاروں لڑکوں اور لڑکیوں کوہنر مند بنایا جائے گا اور بعد میں روز گار کے مواقع ملیں گے۔ ان سینٹرز میں داخلے اور ٹرینگ کے لئے دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کاشکار ہونے والے افراد کے رشتہ داروں کو ترجیح دی جائے گی۔کراچی کے حوالے سے دوسرے اہم اقدام کی تفصیل بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سندھ رینجرز وکٹم سپورٹ پروگرام بھی شروع کرے گی جس میں دہشتگردی کا شکار ہونے والے افراد کا ڈیٹا اکھٹا کر کے ان کے ورثاء کی مدد کی جائے گی ۔ رینجرزکی طرف سے اٹھائے جانے والے تیسرے اہم اقدام کا ذکر کرتے ہوئے میجر جنرل بلال اکبر نے کہا کہ وہ نوجوان جو کسی بڑے کرائم میں ملوث نہیں ہیں انھیں بہتری کی طرف آنے کا موقع فراہم کیا جائے گا اور ایسے نوجوانوں کے لئے اصلاحی مراکز قائم کئے جائیں گے جو اپنی زندگی کو مثبت انداز میں گزارنا چاہتے ہوں جبکہ دوسری طرف ڈی جی رینجرز نے اعلان کیا کہ شہر میں دہشتگردوں اور ٹارگٹ کلرزکے خلاف آپریشن جاری رہے گا اور کسی کو کراچی کا امن تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ڈی جی رینجرز کی طرف سے اعلان کئے گئے تینوں پروگرام نہایت اہمیت کے حامل ہیں ۔ کراچی کے نوجوانوں اور خاص طور پر دہشتگردی کے شکار خاندانوں کو اس قسم کی مدد اور سپورٹ کی بہت زیادہ ضرورت تھی کہ جس کا اعلان ڈی جی رینجرز نے کیا ہے۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ کراچی کے نوجوانوں کو ہر سطح پر نظر انداز کیا جا رہا ہے اور ان کے پاس روزگار کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کی تین وجوہات ہیں ۔ سب سے پہلی اور بڑی وجہ تو یہ ہے کہ کراچی کے نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد علم و ہنر سے عاری ہو چکی ہے جس کی وجہ سے وہ کراچی میں باہر سے آئے ہوئے لوگوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہے لہذا ہر کام میں باہر سے آئے ہوئے نوجوانوں کی ترجیح دی جاتی ہے تاہم اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ کراچی کے ان نوجوانوں کے ساتھ اقراباء پروری ، عصبیت اور شہری دہی کوٹہ سسٹم کی وجہ سے امتیازی سلوک کیا جاتا ہے کہ جومیرٹ پر پورے اترتے ہیں ۔ ماضی میں ایم کیو ایم نے کراچی کے نوجوانوں کو استعمال کیا اور ایک خاص منصوبے کے تحت امتحانوں میں نقل کرنے کا رحجان بڑھا کر رفتہ رفتہ ان سے قلم لیکر انھیں عجیب و غریب نعرے لگانے اور پابندی سے قائد کے خطابات سننے پر لگا دیا۔ علم و ہنر سے عاری یہ نوجوان اب ’’جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے، ہم نہیں ہمارے بعدالطاف الطاف، منزل نہیں رہنما چاہیے‘‘ جیسے خطرناک و شرمناک اور عقل و خرد سے عاری نعرے لگاتے دکھائے دیتے ہیں۔ الطاف حسین نے ایک شہر کو نعروں، لاشوں، جلاؤ گھراؤ اور نان ایشوز پر ہڑتالوں کے سوا کچھ نہیں دیا اور ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت نوجوانوں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو بالکل مفلوج کر دیا گیا ہے۔ لہذا اب ان نوجوانوں کو نہ صرف علم و ہنر کی طر ف راغب کرنا کی ضروری ہے بلکہ انھیں روزگار فراہم کرنے اور ایک اچھا شہری بننے کے لئے بہتر ماحول اور حوصلہ فراہم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ان خاندانوں کا بھی خیال رکھا جانا لازم ہے کہ جن کے چشم و چراغ دہشتگردی ، ٹاگٹ کلنگ اور ماورائے قانون و عدالت قتل کر دیئے گئے یا جنھیں پہلے لا پتہ قرار دیا گیا اور بعد میں ان کی لاشیں شہر میں کسی بھی مقام یا شہر سے باہر سے برآمد ہوئیں۔ ان نوجوانوں کے ورثاء کی بھی مدد کی ضرورت ہے کہ جن کے پیاروں کی حراست میں دوران تفتیش موت کی ننید سلا دیا گیا جبکہ ان کے ورثاء پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ جنھیں جعلی پولیس مقابلوں میں مار دیا گیا۔لیکن یہ تمام کام اور اقدامات اٹھانا حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ دنیا میں قانون نافذ کرنے والا کوئی ادارہ اس قسم کا کوئی کام نہیں کرتا۔ اس کے باوجوداگر سندھ رینجرز یہ احسن اقدام اٹھا رہی تو اس سے کراچی میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مکمل نا کامی اور نا اہلی قرار دیا جانا شاید غلط نہ ہو۔سندھ ررینجرز نے اپنے اعلان کردہ ان تینوں اقدامات کے ذریعے کراچی کے عوام ،خاص طور پر متاثرہ خاندانوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس سے قبل بھی ایپکس کمیٹی کے ایک اجلاس کے دوراہم فوجی افسر کی طرف سے سندھ میں برسوں سے نافذ شہری اور دیہی کوٹہ سسٹم ختم کرنے کی بات کی گئی جس کی سندھ کے حکمرانوں اور نام نہاد دانشوروں نے سختی سے مخالفت کی اور پھر اس کے بعد کسی ادارے یا افسر کی طرف سے یہ بات نہیں دہرائی گئی اور نہ ہی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں کسی نے سندھ کے شہری اور دیہی کوٹہ ختم کرنے کی بات کسی کو یاد دلانے کی کوشش کی۔ گویا رات گئی بات گئی۔ڈی ریجرز کی طرف سے کئے گئے اعلانات احسن ہیں اور شہر میں بہتری لانے کا اہم ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں لیکن اس عمل سے بہت سے اہم سوالات جڑے ہوئے ہیں۔ سب سے پہلا سوال تو یہی ہے کہ اگر رینجرز اس قسم کے کام شروع کرنے جارہی ہے تو کیا وہ اپنے دائرہ اختیار سے تجاوکر رہے یا پھر انھیں کراچی کے لئے دیئے گئے اختیارات میں اضافہ کر دیا گیا ہے؟ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ یہ منصوبے طویل المدت ہیں ظاہر ہے کہ ایک دن میں نہ کوئی اسکل ڈیولپمنٹ سینٹر قائم ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔ اس کے لئے برسوں کی محنت اور کوششیں ہوتی ہیں پھر کہیں جا کر اس قسم کے اقدامات سے کوئی ثمر لیاجا سکتا ہے۔ ڈی رینجرز کے اعلان کے بعدکیایہ مان لیا جائے کہ سندھ میں رینجرز مزید پندرہ بیس برس اسی طرح قیام کرنے جا رہی ہے؟ اسی حوالے سے تیسرا اور اہم ترین سوال یہ ہے کہ جس طرح سندھ میں شہری اور دیہی کوٹہ کے خاتمے کی بات کی گئی اور پھر اس ایک سیاسی بات یا ’’سلپ آف ٹنگ‘‘ کے طور پر اس بات کو فراموش کر دیا گیا ، تو پھر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اس طرح کے اقدامات کے اعلانات کے ذریعے کراچی کے نوجوانوں کے ایک نیا ’’لولی پوپ‘‘ دیا جارہاہے؟
 
Riaz Aajiz
About the Author: Riaz Aajiz Read More Articles by Riaz Aajiz: 95 Articles with 61564 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.