ملک عزیز میں فوجی سربراہ کی تقرری اور تبدیلی -

پاکستان کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ہمارے ملک میں فوجی سربراہان کی تقرری و تبدیلی کے مواقعوں پر جس طرح ملک کے طول و عرض میں افواہوں، خواہشات، خدشات اور پیشن گوئیوں کے بازار گرم ہوتے ہیں اس طرح دنیا کے کسی ملک میں کہیں اگر ایسا ہوتا ہو تو ضرور بتائیے۔
کل جھلو میاں سے اتفاقیہ بازار میں ملاقات ہوئی تو دیکھا کہ جھلو میاں جو عام حالات میں بغلے بجاتے یہاں سے وہاں ٹہلتے نظر آتے تھے وہ نہایت سنجیدہ شکل بنائے تین چار افراد کے ساتھ کالو پان والے کی دکان پر زور و شور سے بحث و تکرار میں مصروف ہوئے۔ سوچا کہ جھلو میاں جو عام طور پر اپنی کھال میں مست رہنے والے انسان آج کیسے مصروف گفتگو ہیں اور وہ بھی ایک سے زائد افراد کے ساتھ، چنانچہ اپنے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر ہم نے ان کی گفتگو میں مخل ہونے کی ٹھانی چنانچہ رسمی دعا و خیریت کے کلمات کے بعد جب موضوع گفتگو پر غور کیا تو یہ حقیقت واشگاف انداز میں ہم پر آشکار ہوئی کہ ملک کے طول و عرض میں آج کل آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے جو گفتگو زد عام ہے، اسی انتہائی نازک اور سنگین مسئلے پر جھلو میاں اور حاضرین گفتگو، کمال کی مہارت اور مشاقی کے ساتھ تبادلہ خیال (جسے میڈیا کی زبان میں تجزیہ نگاری کہتے ہیں) میں مصروف ہیں۔ ہماری تو گویا “کاٹو تو لہو نہیں“ والی کیفیت ہوگئی، ہماری نازک حالت سے محضوظ ہوتے ہوئے جھلو میاں نے ، جو کہ دراصل اپنے وزنی دلائل کے ساتھ اس وقت شریک گفتگو افراد پر اپنی مہارت اور تجزیہ نگاری کی دھاک بٹھانے میں کامیاب رہے تھے ۔ جھلو میاں کے بدلے ہوئے انداز اور تیور دیکھ کر ہمیں وہ تجزیہ نگار یاد آگئے جو الیکٹرانک میڈیا پر تفریح کے لئے مختص وقت میں رنگ برنگی ٹائیاں اور یہاں وہاں کے سوٹ کوٹ پہن کر بلکہ سوٹ میں پھنس کر لوگ اپنے آپ کو بہت کمال کے تجزیہ نگار اور ملک و قوم کے حقیقی ہمدرد اور عوام کے تمام مسائل کے حل کی واحد کرن سمجھتے ہوئے پہلے پہل تو سنبھل کر اور پھر دوسروں کو نیچا دکھانے اور اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے کے لئے آداب گفتگو بھول کر اچھل کود کرکے اور بے وزنی دلائل دے کر عوام کا وقت برباد کرتے ہیں۔ اپنے وقت کے مزید ضیاع کو بھانپتے ہوئے ہم نے بلاتکلف اور بغیر کسی کی اجازت کے اس محفل سے رخصت لیتے ہوئے کالو پان والے کی طرف دیکھا تو وہ بھی بے چارگی کے انداز سے مسکرادیا کہ گویا کہہ رہا ہے کہ میرا کیا جاتا ہے دکان پر رونق لگ جاتی ہے تو دکان داری کچھ چل جاتی ہے۔

حالات و واقعات ہمارے ملک میں یکے باد دیگرے کچھ اس تواتر سے رونما ہوتے جارہے ہیں گزشتہ کئی دہائیوں سے کہ اگر کچھ وقت کسی طور اس ملک و قوم پر بنا کسی بحران کے بفضل تعالی ساتھ خیریت سے گزرجائے تومعلوم ایسا ہوتا ہے کہ جیسے ہم ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن ہونے کے بجائے القوام عالم میں کہیں پیچھے رہ گئے ہیں۔

اب ہمارے ملک میں اگر ایک آرمی چیف بنا ہے تو ظاہر ہے کہ اسے ریٹائر بھی ہونا ہے اس قسم کی ردو بدل پر ملک و قوم جس بحرانی کیفیت میں گرفتار ہے اس کا اندازہ ہم سب کو الیکٹرانک میڈیا پر نشر ہونے والے پروگرامز کو دیکھ کر بخوبی ہوجاتا ہے۔

ہم من الحیث القوم اپنے فرائض منصبی کو ایک طرف رکھتے ہوئے دوسرے مسائل میں اس قدر منہمک ہوجاتے ہیں کہ جیسے دوسرے مسائل حل کرکے اور اپنے حصے کا کام دوسرے کے لئے چھوڑ کر ہم بہت ترقی و خوشحالی حاصل کرسکیں گے۔

کاش ہم معاشرتی و سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے میرٹ پر چیزوں کو دیکھیں اور کریں تو کوئ وجہ نہیں کہ ہم اپنے آنے والی نسلوں کی بہتر مستقبل دے سکیں اور اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا میں ہم ایک ذمہ دار اور فرض شناس قوم کے طور پر ابھر سکیں مگر اس کے لئے انتہک محنت اور جانفشانی کی ضرورت ہے کہ دنیا میں کوئی ایسی قابل ریاست نہیں کہ جس کو بہتر مقام بغیر کسی محنت اور جدوجہد کے مل گیا ہو۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 495446 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.