خوچہ، ناک کٹوا دی

پاکستان بننے سے پہلے میانوالی صوبہ پختونخواہ کا حصہ تھا ۔خان ولی خان صاحب کبھی کبھی اسٹبلشمنٹ کو ڈراتے تھے تو کالا باغ ڈیم کو بم سے اڑانے کے علاوہ میانوالی پر بھی حق جتا دیا کرتے تھے۔چھوٹی ولی نے ان باتوں میں پڑنا چھوڑ دیا ۔ پختون قوم بڑی جفاکش،محنتی،سادہ،زبان کی پکی،دھرتی سے جڑی،روایات کی دھنی،غیرت مند اور بہادر قوم ہے ۔ مگر ایک خصوصیت ایسی ہے جسے عام طور پر زیر بحث نہیں لایا جاتا کہ یہ ایک جمہوری اور جذباتی قوم بھی ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی حدود میں بسنے والی دیگر اقوام کی طرح یہاں کے انتخابی نتائج ہر مرتبہ تبدیلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ملک میں مینار پاکستان سے 2012 میں جو تبدیلی کی لہر چلی تھی اسے سب سے پہلے اسی قوم نے قبول کیا۔اور اس طرح 2013 کے انتخابات میں انصاف کی حکومت قائم ہونے کا پورا موقع دیا ۔صرف خیبر پختونخواہ ہی نہیں بلکہ عمومی طور پر پاکستان کے مختلف صوبوں میں بسنے والے پختونوں نے انصاف کی سیاست کو سینے سے لگا لیا۔گر چہ باقی پاکستان حیران تھا کہ ماضی کا پلے بوائے،کرکٹ کا ہیرو جس نے سیاست میں جلسہ کم کنسرٹ کو متعارف کروایا کیسے پختونوں کا لیڈر بن گیا ۔

باچا خاں پختونوں کے سیاسی باپ کا درجہ رکھتے ہیں ۔انگریزوں کے دور میں سامراج کے خلاف سیاسی جدوجہد سے انہوں نے ہی پختون قوم کو روشناس کروایا تھا ۔انکی سیاسی دانش مندی کا کمال یہ تھا کہ انہوں نے سامراج مخالف تحریک کو پُر امن اور پختون روایات سے جوڑے رکھا ۔عدم تشدد کی انکی پالیسی کو پختون آج بھی فخر سے استعمال کرتے ہیں گو کہ پختون سماج میں چلنے والی دشمنیاں،غیرت کے نام پر قائم کی جانے والی دشمنیاں اور اسلحہ کی ہر گھر میں موجودگی باچاخان کی عدم تشدد کی پالیسی کے برعکس نظر آتی ہے لیکن افغانستان میں ثور انقلاب کے خلاف بننے والے عالمی اتحادسے پہلے پختون قوم کی یہ تصویر موجود نہیں تھی جیسا کہ اسکے بعد اور خاص طور پر طالبان کے قیام کے بعد نظر آتی ہے ۔مذہب سے انتہائی قریبی تعلق کے باوجود پختون معاشرہ تنگ نظری سے کوسوں دور تھا ۔خاندانی نظام پر سختی سے قائم رہنے کے باوجود اظہار رائے کی مکمل آزادی موجود تھی ۔1979 سے پہلے پختون معاشرے میں مذہبی منافرت کے مظاہر نہیں ملتے ۔پاکستان کی انقلابی اور ترقی پسند سیاست میں پختونوں کا بہت بڑا حصہ رہا ہے۔پختونخواہ کی مذہبی سیاسی پارٹیاں بھی سیاسی طور پر ترقی پسند اور سامراج مخالف رہی ہیں۔پاکستان کی آمرانہ حکومتوں کے خلاف پختون لیڈر شپ نے ہمیشہ ہراول کردار ادا کیا۔حتیٰ کہ پاکستانی اسٹبلشمنٹ کی قبائلی علاقوں کو اپنی سول آرمی بنانے کی خواہش نے پختون ثقافت کو شدید متاثر کیا۔لیکن اسکے باوجود پختون قوم آج بھی اپنی اعلیٰ روایات اور جمہوری ترقی پسند کلچر کی بقاء کی امین ہے۔انکی اپنے ہیروز سے جذباتی وابستگی انکی سادہ دلی اور کمٹمنٹ کا اظہار ہے۔عمران خان کے سیاسی ہیرو بننے کو سمجھنے کیلئے کہ شاہد آفریدی کو گذشتہ 15 سال سے پختونوں میں پسندیدگی صرف جارحانہ کرکٹ تک محدود نہیں بلکہ انکا دو ٹوک انداز بھی ہے۔انکی کارکردگی اس دوران کچھ بھی رہی ہو یہ ممکن نہیں کہ وہ کھیل رہے ہوں اور پختون رک کر انہیں نہ دیکھے۔جبکہ کرکٹ اور پختون چند سال پہلے تک دو متضاد چیزیں تھیں۔ہمیں یہ لگتا ہے کہ عمران کے ساتھ لگا ،خان انہیں بھا گیا۔اس پر عمران کی تو ،ٹکاڑ ۔ دو ٹوک انداز مخالفوں کو چیلنج ،بھلے سیاسی لغت میں اسے غلط ہی قرار دیا جائے پختونوں کے دل کو لگا۔

مسلم لیگ،پیپلز پارٹی اور دیگر عرصہ دراز سے کام کرنے والی سیاسی پارٹیوں کو جمہوری نظام مملکت سمجھ میں آچکا ہے۔ دوگر قوتوں کا آلہ کار بن کر اقتدار حاصل کرنے کے بعد بے قدری کی بجائے سیاسی مستقل کردار نبھانے کی اہمیت کو سمجھنے کے بعد ہی ایک دوسرے کیلئے انکے لب و لہجہ میں وہ تلخی اور تندو تیزی نہیں رہی ۔جس کی وجہ سے عمران خان یہ تاثر دینے میں بڑی حد تک کامیاب رہے کہ جیسے وہ واحد لیڈر ہیں جو اس ملی بھگت کے کرپٹ نظام کو بدلنے کی جرات رکھتے ہیں۔لیکن یہ واضح تھا کہ یہ سلسلہ دیرپا نہیں ہوگا۔عوام کی توقعات اس دوران اتنی بڑھ چکی تھیں کہ انکے تصور میں بھی نہ تھا کہ 2012 سے نومبر کی لاک ڈاؤن کی کال تک کا دورانیہ جس طرح کے سیاسی ہنی مون کا سا رہا ہے ۔یہ کال ان سے بالکل برعکس رویہ کا تقاضہ کرے گی۔تحریک انصاف عمران خان کی قیادت میں اب تک طے شدہ سرگرمی کی حد تک محدود تھی جس میں پوری سیاسی سرگرمی نیشنل الیکٹرونک میڈیا کی توجہ حاصل کرتی تھی اور اپنے لیڈر کی ایک تقریر سے پہلے جو سماں جلسے میں باندھا جاتا تھا وہ سیاسی کارکنوں سے زیادہ پکنک پارٹی ثابت ہوتا تھا ۔تنظیمی کام ختم ہوکر رہ گیا تھا اب سب کچھ کا دارو مدار اس بات پر تھا کہ عمران خان نے کہا تو وہ کر دکھائے گا۔ان توقعات کے سہارے 2 نومبر کی کال نے ملک میں ہیجان برپا کردیا لیکن پختونخواہ کی حکومتی وسائل سے لیس تحریک انصاف اور ملک بھر میں تنظیم متاثر کن سیاسی جدوجہد کرنے میں ناکام رہی اور انکی ناکامی تک عمران خان کے تُرپ کے پتوں میں سے کوئی بھی شو نہ ہوسکا ۔سپریم کورٹ میں کمیشن بنانے کی یقین دہانی پر ہی دھرنے کے خاتمے کے اعلان نے عمومی طور پر پورے پاکستان میں اور خصوصیت کے ساتھ پختونوں میں شدید مایوسی کو جنم دیا ہے۔اتحادیوں سمیت اب تمام سیاسی پارٹیوں کی توپوں کا رُخ عمران خان کی جانب ہے۔ گو کہ اسکے باوجود انکی ڈھٹائی میں کوئی فرق نہیں آیا حتیٰ کہ وہ اپنے اس حالیہ فیصلے کو بھی کوئی سیاسی نقطہ نظر میں بیان کرنے سے محروم رہے۔اس لیے اب اسکے علاوہ کچھ نہیں کہ بے اختیار کہا جائے کہ ’’خوچہ ،ناک کٹوا دیا‘‘
Abu Sanwal
About the Author: Abu Sanwal Read More Articles by Abu Sanwal: 15 Articles with 10186 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.