ممتا - حصہ دوم

۔بچہ گھٹنوں کے بل چلتا اس کے قریب آگیا اور گڑھے میں گیلی مٹی میں ہاتھ مار کے چاٹنے لگا وہ مٹی بہت شوق سے کھاتا تھا اس نے اچھنبے سے ماں کو دیکھا وہ زمین پہ لیٹی ہوئی تھی۔اسے حیرانی ہوئی آج مٹی کھانے پہ اسے ماں نے ڈانٹا بھی نہیں۔اسے مزا نہیں آیا ۔لگتا ماں خفا ہے وہ اسے منانا چاہتا تھا اس کے سینے سے لپٹ گیا۔۔ اس نے ناتوانی سے بچے کو گلے لگا لیا آنکھوں میں آنسو تھے۔بچے نے ماں کا لمس محسوس کیا کھلکھلا کے ہنسا ماں خفا نہیں تھی ۔پھر وہ گھٹنوں کے بل ادھر ادھر بھگتا رہا اور بار بار شرارت سے مڑ کے ماں کو دیکھتا کہ آکر اسے پکڑے ۔ماں کو تعاقب میں نہ پا کر بدمزہ ہوا اور ایک کونے میں روٹھ کے بیٹھ گیا۔اندھیرا ہو رہا تھا ماں منانے نہیں آئی بھوک بھی لگ رہی تھی وہ خود ہی منبع خوراک تک جا پہنچا ماں کے سرد جسم نے اس کو عجیب کیفیت سے دوچار کر دیا بھوک غالب تھی مگر اتنی کم خوراک وہ روز کی طرح سیر بھی نہ ہو پایا ۔اف ماں اتنی خفا ہو گئی۔ میں اب مٹی نہیں کھاؤں گا ۔مان جاؤ مجھے بھوک لگی ہے جاگو روتے روتے سو گیا ۔صبح کی ہلکی سی کرن پتھر کی درزوں سے اندر آرہی تھی وہ اٹھ بیٹھا بھوک اس کی جان نکال رہی تھی ماں کا جسم سخت ہو گیا تھا خوراک کے سوتے خشک ہو گئے تھے اس نے غصے سے انہیں نوچا اور دانتوں سے کاٹ کھایا نمکینی اور گوشت اس کے منھ میں آگیا اس نے بیتابی سے اسے چبایا اور نگل گیا۔ایک بار پھر ۔پھر آخر وہ سیر ہو گیا ۔۔

ارے یہ دیکھو یہاں بہترین مچان بن سکتی اپنے آدمی بلاؤ یہ پتھر ہٹائیں۔انور خان نے شکار کے شوقین احمد خان کو کہا۔پتھر ہٹتے ہی بدبو کابھبھکا آیا ایک ادھ کھائی لاش اور ایک بچے کی لاش ان کی منتظر تھی -