کیا بھارت جنگ کا متحمل ہوسکتا ہے

مودی نے پاکستان کے خلاف جارحانہ رویہ اپنا کر دراصل اپنی بہت سی اندرونی کمزوریوں کا پردہ چاک کردیا ہے۔ اُڑی واقعے کو بہانہ بنا کر پاکستان پر حملے کی دھمکیاں، دنیا میں پاکستان کو تنہا کرنے کی گیڈر بھبکیاں اور پھر معصوم شہریوں پر گولہ باری اور سفارتی آداب کو بالائے رکھ کر پاکستانی سفارتکار کار کو واپس بھیجنے جیسے اقدامات سے بھارت کی تنگ نظری کھل کر سامنے آئی ہے۔ کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری کی مسلسل خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں۔ایسے ہتھکنڈوں سے بھارت دنیا کی توجہ کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی سے توجہ ہٹا کر پاک بھارت سرحدی کشیدگی کی طرف مبذول کرانے کی ناکام کوشش کررہا ہے۔تاہم حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے خلاف مودی کی دھمکیاں خود بھارت کے لیے دردسر بن چکی ہیں کیونکہ اس نے بھارتی افواج کی نااہلیت قلعی بھی کھول دی اور بھارتی عوام کو معلوم ہوا کہ اربوں روپے کابجٹ ہڑپ کرنے والی افواج کی حیثیت محض ایک سفید ہاتھی کے سوا کچھ نہیں۔

بھارتی فوج کی نفری 25لاکھ ہے ۔بھارتی دفاعی بجٹ کا بڑا حصہ ٹروپس سے متعلقہ امور پر ہی خرچ ہو جاتا ہے۔ اس طرح بھارتی قیادت کا زور معیار کی بجائے عددی قوت میں اضافے پر ہے۔ اس کے افسروں اور جوانوں کی مقصد سے عدم دلچسپی‘ کم تر درجے کی تربیت اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا فقدان تمام امور پر غالب ہیں۔ آرمی میں کرپشن کی جڑیں بہت گہری ہو چکی ہیں۔ بالخصوص سینئر آفیسرز میں یہ لعنت بدرجہ اتم سرایت کر چکی ہے۔ افسروں اور سپاہیوں میں پائی جانے والی یہ خلیج روز بروز گہری ہوتی جا رہی ہے۔ علاوہ ازیں مایوسی اور ناامیدی کے جذبات نے بھارتی فوج کو جکڑ کر رکھ دیا ہے۔ دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق ترقی کا شفاف سسٹم نہ ہونے، اعلیٰ افسروں کا ماتحت افسروں اور جوانوں کے ساتھ ناروا اور غیر انسانی سلوک اور قلیل تنخواہوں بھارتی فوج کے افسروں اور جوانوں کے مورال میں کمی کا سب سے بڑا سبب ہے۔بعض تجزیہ نگار وں نے تو یہ تک کہہ دیا ہے کہ ان منفی جذبات کی وجہ سے بھارتی افسر اور جوان اپنے معمول کے فرائض تک ادا کرنے میں چشم پوشی برت رہے ہیں۔ بھارتی فوج میں قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے رجحان کی ایک وجہ بھارتی حکومت کا اپنی افواج کو پڑوسی ممالک کے خلاف سازشوں، سرحدی جھڑپوں اور متعدد ریاستوں میں علیحدگی پسند تحریکوں کو کچلنے میں الجھائے رکھنا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں دس لاکھ سے زائد فوج طویل عرصے سے مشکل حالات میں کشمیری حریت پسندوں سے پنجہ آزمائی کررہی ہے۔ ہماچل پردیش ، سیاچن گلیشیر اور اسی طرح کے کٹھن مقامات پر بھارتی حکومت نے بھارتی فوج کو بے دریغ جھونک رکھا ہے۔ جہاں انہیں حاصل تو کچھ نہیں ہورہا، البتہ ان کے مورال میں کمی اور ان کے جذبات مانند ضرور پڑتے دکھائی دیتے ہیں۔دوردراز تعیناتی اور چھٹی نہ ملنے کی وجہ فوج کی بڑی تعداد ڈپریشن جیسی کیفیات میں مبتلا ہے۔جن کی وجہ سے بھارتی فوج کے افسروں اور جوانوں میں خود کشی کی شرح میں خوفناک حدتک اضافہ ہوگیا ہے جبکہ متعدد اپنے ہی ساتھیوں کے ہاتھوں قتل ہوگئے۔ خودکشی اور قتل کے ایسے واقعات زیادہ ترمقبوضہ جموں کشمیر اور شمال مشرقی علاقوں میں تعینات بھارتی یونٹوں میں پیش آئے۔بھارت کے ہی دفاعی تجزیہ نگاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر حکومت نے افسروں اور جوانوں فوج کے گرتے مورال ،نوجوانوں کا فوج میں جانے سے انکار اور اخلاقی باختی کی وجوہات تلاش کرکے ان کے حل کے لئے عملی اور فوری اقدامات نہ اٹھائے گئے توعددی واسلحی لحاظ سے دنیا کی تیسری بڑی فوج محض کباڑ کا ایک ڈھیر بن جائے گی۔

اسی طرح بھارت دنیا کے سامنے شائنگ انڈیا کا چہرہ لانا چاہتا ہے مگر یہاں پائی جانے والی غربت، افلاس، کرپشن کے دبیز تاریکیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ بھارت کی ایک ارب آبادی میں سے دوتہائی لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں اور ایک چوتھائی آبادی کو رات کا کھانا نصیب نہیں ہوتا اور انہیں بھوکے پیٹ سونا پڑتا ہے ۔ غریب لوگ بھوک ننگ کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔ ان کے آگے کوئی امید، کوئی منزل نہیں۔ آزادی‘ جس کی آئین ضمانت دیتا ہے، اکثر اوقات سلب کرلی جاتی ہے۔ کمزوروں کو ناجائز طور پر دبانے والے قوانین کی موجودگی میں جو بھارت میں بھی بے شمار ہیں۔ جب کوئی ریاست ناکام ہوتی ہے تو سب سے زیادہ نقصان اجتماعیت کی سوچ کا ہوتا ہے۔ مسلمان اجتماعی دھارے میں شامل ہونا چاہتے ہیں مگرانہیں دور رکھا جاتا ہے۔ اس ضمن میں ہندو برادری کی تنگ نظری کا قصور ہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی بھارت میں ہوتی ہیں۔ ہندو مسلم فسادات وہاں کا ایک معمول ہیں۔ حکومت اور امن قائم کرنے والے ادارے نہ صرف ان واقعات میں ملوث ہوتے ہیں بلکہ انہیں معمولی کی کارروائی قرار دے کر چپ سادھ لیتے ہیں۔اس وقت بھارت میں مسلمانوں کی کل آبادی 25ارب سے زائد ہے۔ لیکن ’’سیکولر ‘‘حکمران انہیں اقلیت ثابت کرنے کے لئے مردم شماری میں بہت بڑا گھپلا کرتے ہیں جبکہ اس کا سیکولر ’’میڈیا‘‘ بھی اس ’’مقدس مشن ‘‘ میں حکمرانوں کی زبان بولتا نظر آتا ہے۔بھارت کے صوبے اتر پردیش، اڑیسہ، گجرات اور حیدرآباد دکن میں تو آئے دن ہندومسلم فسادات ہوتے ہیں۔ بھارت کی مختلف سیاسی پارٹیاں اپنے ووٹ بینک میں اضافے کے لئے ایسے فسادات کرانے کی سازشوں میں ملوث بھی پائی گئیں جن کے ثبوت منظر عام پر آنے کے باوجود ذمہ دار افراد کو کیفرکردار تک پہنچانے کی بجائے انہیں تحفظ فراہم کیا گیا۔

مقبوضہ کشمیرکے عوام توگزشتہ کئی دہائیوں سے بھارتی حکمرانوں اور فوج کا سب سے بڑا نشانہ ہیں۔وہاں مقامی آبادی پر بھارتی فوجیوں کے ظلم وتشدد کی کارروائیاں معمول بن چکی ہیں۔ انسانی خون کی ارزانی کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ بھارتی فوج گزشتہ ایک دہائی سے ہزاروں معصوم غیر مسلح سویلین، مرد، عورتیں ، بچے کوموت کی نیند سلا چکی ہے۔ ہزاروں خواتین بھارتی فوجیوں کی درندگی کا نشانہ بن چکی ہیں۔کشمیری نوجوانوں پر ٹارچر سیلوں میں خوب مظالم ڈھائے گئے۔ خاندانوں کو ہجرت پر مجبور کردیا گیا۔عالمی حقوق کے علمبردار ممالک اور ادارے اس حقیقت کا ادراک ہونے کے باوجود خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔کشمیر کی تحریک آزادی چھوڑیئے بھارت کی دیگر ریاستوں میں بھی علیحدگی پسند تحریکیں بڑی سرگرم ہیں۔

اس پس منظر میں یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ بھارت اندرونی طور پراتنا کمزور اور کھوکھلا ہوچکا ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک پر جارحیت کا متحمل ہی نہیں ہوسکتا۔ گو کہ اس نے دفاعی سازو سامان کی اندھا دھند خرید شروع کررکھی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ یہ سب اپنی اندرونی شورشوں اورعلیحدگی پسند تنظیموں کے لئے استعمال کررہا ہے۔اگر اس نے پاکستان جیسے ایٹمی ملک سے پنجہ آزمائی کی تو اسے یہ معلوم ہے کہ اس کی فوج اپنی اسلحی و عددی برتری کے باوجود میدان کارزار میں سفید ہاتھی سے کم ثابت نہ ہوگی۔
ibn-e-shamsi
About the Author: ibn-e-shamsi Read More Articles by ibn-e-shamsi: 55 Articles with 35001 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.