ہم اب فرض کرتے ہیں عمران خان کا دھرنا کامیاب نہیں ہوتا

ہم اب فرض کرتے ہیں عمران خان کا دھرنا کامیاب نہیں ہوتا‘ یہ عوام کا سمندر اسلام آباد لانے میں ناکام ہوجاتے ہیں‘ شہر بند نہیں ہوتا‘ سکول‘ کالج‘ یونیورسٹیاں‘ سرکاری دفتر‘ پرائیویٹ آفسز‘ مارکیٹیں‘ شاپنگ سنٹرز اور دکانیں کھلی رہتی ہیں‘ میڈیا دھرنے کو سپورٹ نہیں کرتا اور ایم کیو ایم میئر وسیم اختر کی رہائی کے بدلے سینٹ اور اسمبلیوں سے مستعفی نہیں ہوتی‘ پاکستان تحریک انصاف خیبر پختونخواہ میں تقسیم ہو جاتی ہے‘ وزیراعلیٰ پرویزخٹک گورنر اقبال ظفر جھگڑا کو اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس دیتے ہیں اور یہ پی ٹی آئی کے فارورڈ بلاک کے ساتھ پریس کانفرنس بلا لیتے ہیں اور فارورڈ بلاک میڈیا کے سامنے چیف منسٹر کی ایڈوائس واپس بھجوانے کی درخواست کر دیتا ہے‘ مسئلہ آئینی اور قانونی بن کر عدالتوں میں پہنچ جاتا ہے‘ مولانا فضل الرحمن آگے بڑھتے ہیں‘ اپوزیشن جماعتوں‘ جماعت اسلامی‘ شیرپاﺅ گروپ اور پی ٹی آئی کے فارورڈ بلاک کو ساتھ ملاتے ہیں اور وزیراعلیٰ بدل دیتے ہیں‘ یہ سپیکر اسد قیصر کو وزیراعلیٰ بنا دیتے ہیں یاپھر جماعت اسلامی کو وزارت اعلیٰ دے دیتے ہیں اور یوں صوبائی اسمبلی بھی بچ جاتی ہے‘ کے پی کے بھی عمران خان کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور ان کی توجہ اسلام آباد سے بھی ہٹ جاتی ہے‘ سپریم کورٹ بھی روزانہ کی بنیاد پر کیس نہیں سنتی‘ یہ پٹیشنز کو قانونی رفتار سے چلنے دیتی ہے ‘ سپریم کورٹ عمران خان کو دھرنا ختم کرنے کا حکم دے دیتی ہے یا پھر حکومت کریک ڈاﺅن کے ذریعے کارکنوں کو گرفتار کر لیتی ہے‘ یہ قائدین کو نظر بند کر دیتی ہے اور وہ بلاول بھٹو ‘ خورشید شاہ اور چودھری اعتزاز احسن ان کی رہائی کےلئے پریس کانفرنسیں شروع کر دیتے ہیں جنہیں یہ چور‘ ڈاکو اور مک مکا قرار دیتے رہے تھے اور سردی بھی بڑھ جاتی ہے اور بارشیں بھی شروع ہو جاتی ہیں اور یہ سارے معاملات آگے چل کر دھرنے کی ناکامی کا باعث بن جاتے ہیں تو کیا ہو گا؟ فائنل شٹ ڈاﺅن اور لاک ڈاﺅن کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ یہ سوال دلدل ہے اور ملک‘ عمران خان اور جمہوریت تینوں اس دلدل کی خشک سطح پر کھڑے ہیں‘ بس ایک کروٹ لینے کی دیر ہے اور یہ تینوں دلدل کا رزق بن جائیں گے۔عمران خان کے دھرنے کی ناکامی کا پہلا نقصان جمہوریت کو ہوگا‘ ملک کی دونوں بڑی پارٹیاں سلطنتیں ہیں اور ان کے قائدین بادشاہ ہیں‘ ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کے 37سال بعد بھی زندہ ہیں‘ زندہ بھٹو کی روح کبھی آصف علی زرداری میں حلول کر جاتی ہے اور یہ کبھی بلاول زرداری کو بلاول بھٹو بنا دیتی ہے‘ یہ پارٹی سیاسی جماعت کم اور تخت زیادہ ہے اور اس تخت کا وارث بہرحال کوئی نہ کوئی بھٹو ہی ہو گاجبکہ پاکستان مسلم لیگ ن بنی ہی میاں نواز شریف کے نام پر تھی لہٰذا پارٹی کے تمام جملہ حقوق ان کے پاس ہیں‘ پارٹی کے تمام فیصلے صرف اور صرف یہ کرتے ہیں اور یہ میاں صاحب کا فیصلہ ہے ملک اور پارٹی کے تمام کلیدی عہدے شریف فیملی‘ خواجگان‘ بٹ صاحبان‘ کشمیریوں اور پنجابیوں کے پاس ہوں گے‘ یہ کیونکہ پنجاب کو اپنا سیاسی کعبہ سمجھتے ہیں چنانچہ کعبے کی کنجی شریف فیملی کے پاس رہے گی‘ پارٹی ان کی جاگیر ہے چنانچہ یہ جاگیر حمزہ شہباز چلائیں گے اور پیچھے رہ گئے ملک کے اعلیٰ عہدے تو ان کے فیصلے بھی میاں نواز شریف کریں گے‘ یہ بادشاہ کی طرح جس سے خوش ہوں گے یہ اسے کسی بڑے شہر کا میئر بنا کر کوئی نہ کوئی ریاست سونپ دیں گے‘ پارٹی کے ایم پی اےز‘ ایم این اےز‘ سینیٹرز‘ وزرائ‘گورنرز‘ وزراءاعلیٰ اور صدر کھمبے ہیں‘ میاں صاحب جس کھمبے پر جو پرچم باندھ دیں گے وہ کھمبا وہ بن جائے گا-
ABDUL SAMI KHAN SAMI
About the Author: ABDUL SAMI KHAN SAMI Read More Articles by ABDUL SAMI KHAN SAMI: 99 Articles with 105124 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.