کالاباغ ڈیم کی اہمیت

ملک میں سیلاب کی تباہ کاریاں دیکھتے ہوئے کالا باغ ڈیم کی اہمیت ایک بار پھر اجاگر ہو گئی ہے،اور وزیر اعظم سمیت کئی رہنماؤں نے اس اہم اور قیمتی منصوبے کا اتفاق رائے سے آغاز کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ یاد رہے کہ ربع صدی سے کالا باغ کو مسئلہ کشمیر بنا دیا گیا، اور ملک و قوم کے لئے زندگی اور موت کی حیثیت رکھنے والے اس منصوبے کو سیاست دانوں نے ایک کھیل بنا کر اسے ہٹ دھرمی، جھوٹ، سیاسی شعبدہ بازی، فضول جذباتیت، ذاتی مفادات اور ذاتی انا کی نذر کر دیا تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج اگر یہ تعمیر ہو چکا ہوتا تو ہمیں لوڈ شیڈنگ، پانی کی کمی اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا نہ ہوتا۔

ہمارے حکمرانوں کی یہ پرانی عادت ہے کہ جب پانی سر سے گزر جائے تو بھاگ دوڑ شروع کر دیتے ہیں۔ ہم گزشتہ تین سالوں سے توانائی کے شدید بحران کا شکار ہیں، اور اگر کالا باغ ڈیم تعمیر ہوتا تو موجودہ شارٹ فال کے برابر ہمیں نہ صرف وہاں سے بجلی مل رہی ہوتی، بلکہ زراعت کے لئے اضافی پانی دستیاب ہوتا اور سیلاب کی تباہ کاریاں بھی کم کی جا سکتی تھیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے 26.1ملین ایکڑ فٹ بارش کا پانی ہر سال سمندر میں بہہ کر ضائع ہو جاتا ہے، مگر اس منصوبے کو سیاسی بنیادوں پر الجھانے سے ہر سال پاکستان کو 500 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ آج سیلاب کی صورت میں ہمیں ایک نئی آفت نے آ دبوچا ہے تو اس ڈیم کے مخالفین بھی اب اس کی اہمیت کا ذکر کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ یاد رہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی کہا تھا کہ کالا باغ ڈیم کو بھول جائیں۔ آج وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا کہنا کہ اگر کالا باغ ڈیم ہوتا تو سیلاب سے ہونے والے جانی و مالی نقصان سے بچا جا سکتا تھا، دراصل اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ ہم نے ایک انتہائی اہم ایشو کو غیر ملکی آقاؤں کے ایما پر اور اپنی ضد کی وجہ سے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا تھا۔

پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر بھی رائل نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ کالا باغ ڈیم بدقسمتی سے سیاست کی نذر ہوچکا ہے، آئندہ نسلوں کا مستقبل بچانے کے لئے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں کالا باغ ڈیم پر متفقہ فیصلہ کریں۔ گورنر نے یہاں تک کہہ دیا کہ اس کے مخالفین کے مطالبات مان لیں مگر اسے تعمیر ضرور کریں۔

کالا باغ ڈیم کے حوالے سے اطلاعات ہیں کہ کالا باغ ڈیم اور ایسے ہی کئی دیگر قابل عمل پراجیکٹس کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے ایما پر ختم کرنے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے تاکہ آئی پی پیز کو زیادہ سے زیادہ متحر ک کیا جائے، اور عوام کو مہنگی بجلی فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رہے۔ حالانکہ پاکستانی ماہرین کا کہنا ہے کہ کالا باغ ڈیم اس وقت سب سے زیادہ قابل عمل منصوبہ ہے جس کی تعمیر فوری طور پر شروع کی جاسکتی ہے، اور اس میں بجلی کی لاگت 50پیسے فی یونٹ ہے۔لیکن عوام کو کوئی ریلیف مل جائے یہ تو حکمرانوں کا کبھی ایجنڈہ ہی نہیں رہا، پھر بھلا کون چاہے گا کہ کالا باغ ڈیم کا منصوبہ مکمل کر کے عوام کو سستی بجلی فراہم کر دی جائے۔ ہمارے ملک پر شیروانیوں، واسکٹوں، وردی، پتلون کوٹ، عمامے اور پگڑیوں والی کئی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں، لیکن سب نے گا گے گی کا راگ ہی الاپا، کسی نے نہ کہا کہ فلاں منصوبہ مکمل ہو چکا۔ اب اگر وزیر اعظم نے کالا باغ ڈیم کی شدید ضرورت کا احساس کرتے ہوئے کہا ہے کہ اتفاق رائے ہو جائے تو حکومت اس ڈیم کو تعمیر کرنے کا کام شروع کر دے گی، تو اس کے مخالفین کو بھی چاہیے کہ وہ ان کی آواز پر لبیک کہیں اور علاقائی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیں۔ وزیراعظم نے بتایا کہ کالا باغ ڈیم کو 1985ء میں اس وقت سیاسی ایشو بنا دیا گیا جب پہلی مرتبہ خیبر پی کے کے ایک وزیر نے کہا کہ کالا باغ ڈیم ان کی لاش پر ہی بنے گا۔ اس وقت سے لے کر اب تک یہ مسئلہ سیاسی ہے۔ پاکستان میں تعینات امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن نے حکومت پاکستان کی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی لانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو حالیہ سیلاب سے سبق سیکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ڈیم تعمیر کرنے چاہئیں۔ وزیر اعظم کے بیان کا عوامی اور سیاسی حلقوں نے بھی خیر مقدم کیا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ کالاباغ ڈیم فنی نہیں سیاسی ایشو ہے، اس لئے وزیراعظم اس معاملہ کو تکنیکی ماہرین پر معاملہ ڈال کر راہ فرار اختیار مت کریں، بلکہ اب تمام سیاسی جماعتوں کی قومی کانفرنس بلا کر اس میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لئے عملی مظاہرہ کریں۔ اگر آزمائش کی اس گھڑی میں بھی ہم نے کالا باغ ڈیم اور اس طرح کے دیگر منصوبوں کو جلد شروع نہ کیا تو پانی ہونے کے باوجود ہم پانی اور بجلی کو ترستے رہیں گے۔
Abid Hussain burewala
About the Author: Abid Hussain burewala Read More Articles by Abid Hussain burewala: 64 Articles with 85076 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.