بے بسی

بے بسی ایک ایسی عجیب کیفیت کا نام ہے جو انسان کو بالکل بے بس مجبور و لاچار کر دیتی ہے انسان بہت کچھ کرنا چاہتے ہوئے بھی خود کو کچھ کرنے کے قابل نہیں پاتا ایسی بے بسی ہوتی ہے کہ کچھ کر ہی نہیں سکتا یعنی کسی بات پر انسان کا اپنا بس چل ہی نہیں پاتا یعنی بے بسی انسان کو بالکل ہی لاچار کر کے رکھ دیتی ہے اتنا بے بس کہ انسان کو کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا کہ اس کیفیت سے نجات کے لئے کیا کیا جائے بے بسی کے کرب کا اندازہ کوئی بے بس انسان ہی لگا سکتا ہے بے بسی کی کیفت جب طاری ہو تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا کہ وقت ایک جگہ ٹھہر سا گیا ہو ایک ایک پل کا گزارنا بہت مشکل دکھائی دیتا ہے ایسے لگتا ہے کہ انسان کی زندگی رک گئی ہو دن ہیں کہ گزرنے کا نام نہیں لے رہے وقت ایک جگہ ساکن ہو کر رہ گیا ہے جیسے کہ زندگی میں صرف ایک ہی پہر آ کر ٹھہر گیا ہو اعصاب پر عجیب ویرانگی و سراسیمگی کا عالم سوار رہتا ہے ایسی بے یقینی کی سی حالت طاری ہو جاتی ہے جیسے کسی بھیانک خواب کا منظر آنکھوں کے آگے آکر ساکت ہو گیا ہے انسان کو یہ سمجھ ہی نہیں آتا گویا کہ وہ نیند میں ہے یا جاگتی آنکھوں سے کسی خواب کے منظر میں معلق ہے کہ ابھی آنکھ کھلے گی اور زندگی کے ایام پھر سے اسی گہما گہمی اور رنگینیوں کے ساتھ جلوہ آرا ہو جائے گی پھر سے رواں دواں ہو جائے گی-

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی زندگی اپنی مرضی سے بسر کرنے کا اختیار اور تدابیر مرحمت فرما کر دنیا میں بھیجا ہے اپنے اسی اختیار اور علم کی بدولت انسان دنیا میں بہت کچھ حاصل بھی کر لیتا ہے ہر طرح کا آرام آسائش سہولتیں اور نہ جانے زندگی کی کون کونسی نعمتیوں سے لطف اندوز ہوتا ہے اور اس بات پہ بہت فخر بھی کرتا ہے کہ ہم نے اپنی محنت سے دنیا کی ہر شے کو اپنی دسترس میں کر کے دنیا میں اپنا اختیار قائم کر لیا ہے اور اس اختیار کو جیسے چاہتا ہے استعمال کرتا ہے پھر یہی بااختیار کے فخر و غرور میں کبھی کبھی انسان اس ذات کو بھی فراموش کر بیٹھتا ہے کہ جس نے اسے یہ اختیار یہ دولت یہ عہدہ یہ خوشیاں عنایت کی ہیں ان کے زعم میں خود کو بادشاہ یا مختار کل سمجھنے لگتا ہے زمین پر اکڑ کر چلتا اور کمزور پر ظلم ڈھانے لگتا ہے-

اپنے اختیار و غرور کے نشے میں بھول جاتا ہے کہ یہ دنیا اور اس دنیا کی آسائشات سب عارضی اور فانی ہیں ختم ہو جانے والی ہیں ہر عروج کو ایک نہ ایک دن روبہ زوال بھی ہوجانا ہے چاہے کوئی سلطنت ہو یا کسی سلطنت کی بادشاہت ہو نہ ہمیشہ بادشاہ رہتا ہے اور نہ ہی اس کی بادشاہت کہ جب زوال کے دن شروع ہونے لگتے ہیں تو رفتہ رفتہ انسان سے ایک ایک کر کے اس کی ہر شے کسی نہ کسی بہانے اس کی دسترس سے دور ہونے لگتی ہے-

کبھی کبھی تو انسان خود اپنی کوتاہیوں اور حماقتوں کے باعث بے بس و مجبور ہو جایا کرتا ہے لیکن کبھی کبھی اس پر یہ کیفیت قدرت کی طرف سے بھی آتی ہے رب تعالیٰ کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا بظاہر نظر آنے والی تباہی اور نقصان پر انسان بے بس ہو کر دہائیاں دینے لگتا ہے کیونکہ عام آدمی اللہ کی حکمت و مصلحت کو جانتا نہیں ہے اس لئے بے بسی کے عالم میں جو اس کے دل میں آتا ہے بے سوچے سمجھے زبان سے اگل دیتا ہے-

دنیا میں بہت سے انسانوں اور بہت سہ قوموں کو مختلف ادوار میں بارہا بے بسی کا شکار ہوتے رہنا پڑا ہے اب ایسا انسان کے ساتھ کیوں ہوتا ہے یہ انسان کی سمجھ سے بالا تر ہے رب تعالیٰ نے یہ دنیا اپنی مرضی سے تخلیق کی ہے اور جب اس کی مرضی ہو گی وہ اس صفحہء ہستی کو ایک پل میں نابود کرنے کی بھی قدرت رکھتا ہے اگرچہ اللہ رب العزت نے انسان کو اپنا مقدر سنوارنے کے لئے اسے کچھ اختیار اور کچھ صلاحیتیں عنایت فرما کر انسان پر رحم کیا ہے احسان کیا ہے اور انسان اس اختیار اور حق کا فائدہ بھی حاصل کرتا ہے لیکن بہت سی چیزوں پر دسترس اور اختیار حاصل کرنے کے باوجود بھی انسانی زندگیوں میں ایسے مواقع بارہا آتے جاتے رہتے ہیں کہ جب انسان خود کو بے بس محسوس کرتا ہے کیونکہ اختیار کل تو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو حاصل ہے اور جب کوئی اس کی نعمتوں اور نوازشوں کے باوجود بھی اس کی قائم کردہ حدیں توڑتا ہے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کرتا ہے نافرمان و متکبر یا ظالم بن جاتا ہے تو پھر اللہ کی دسترس سے اسے کوئی نہیں بچا پاتا-

یہ بے بسی صرف ظالم یا متکبر لوگوں ہی کو درپیش نہیں آتی بلکہ کبھی کبھی نیک و فرمانبردارلوگ بھی اس بے بسی میں مبتلا ہو جاتے ہیں لیکن ان لوگوں کا بے بسی کے عالم میں وہ حال نہیں ہوتا جو کہ ایک ظالم و سرکش باغی یا متکبر انسان کا ہوتا ہے کبھی تو انسان اپنے جرائم کی زد میں آ کر آفتوں اور بلاؤں، بیماریوں کے زیر اثر بے بسی کا شکار ہوتا ہے تو کبھی قدرتی آفات ، آندھی طوفان سیلاب زلزلے یا حادثات کے باعث خود کو بے بسی و مجبوری کی اذیت میں گرفتار پاتا ہے لیکن اللہ کے نیک لوگ جو نہ اس کی حدوں کو توڑتے ہیں نہ اس کی حکم عدولی کرتے ہیں بلکہ زندگی کے ہر معاملے کو اس کی رضا و خوشنودی کے مطابق نبھاتے ہیں ان کے لئے کوئی موقعہ بھی بے بسی و مجبوری کا نہیں ہوتا بلکہ وہ تو اندھیروں میں روشنی کا سامان پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں کسی بھی حالت میں خود کو تنہا بےبس یا مجبور نہیں سمجھتے بلکہ ہر موقعہ پر صرف اللہ سے رجوع کرتے ہیں- حالت کوئی بھی ہو کیفیت کوئی بھی ہو سدا نہیں رہتی کہ وقت کبھی ایک جگہ ساکن نہیں ہو جایا کرتا تیرگی سے ہی اجالے کی کرنیں پھوٹتی ہیں ہر تباہی ایک تعمیر کا پیغام لیکر آتی ہے زندگی میں گزرنے والے حالات و واقعات انسان کو کچھ نہ کچھ ضرور سیکھاتے ہیں کوئی نہ کوئی بہتری کی راہ ضرور دکھاتے ہیں سو انسان کو کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئیے اور ہر مشکل میں اللہ سے رجوع کرنا چاہئے ہمیشہ صبر اور شکر کے ساتھ ہر طرح کے وقت کا مقابلہ ہمت و جرات اور اس ایمان کے ساتھ کرنا چاہئیے کہ اللہ ہر مشکل میں ہمارے ساتھ ہے اور وہی سب سے بڑا مشکل کشا ہے جو اللہ پر توکل رکھتے ہیں وہ بےبسی کی حالت پر قابو پانے کا ہنر بھی رکھتے ہیں اور اللہ ہی ہے جو اپنے فرمانبردار بندوں کو مشکل سے مشکل حالات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنے کی ہمت عطا فرماتا ہے-

آخر میں رب تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ اللہ سب کو مجبوری و بے بسی سے محفوظ فرمائے سب کی مشکلیں آسان فرمائے ہمارے ملک اور قوم کی حالت پر رحم فرمائے کرم فرمائے اور ہماری قوم کے افراد میں اتنی ہمت و طاقت پیدا کردے کہ وہ ملک و ملت کو درپیش ہر قسم کے مسائل کا بہ احسن و خوبی حل نکال سکیں ملک و قوم کی حالت درست کرنے میں اتفق و اتحاد سے ایک دوسرے کے ممد و معاون ثابت ہوں سکیں اور ہمیشہ اللہ کے دکھائے راستے پر چل کر ملک و قوم کے استحکام و بہتری کے لئے خلوص دل سے کام کر سکیں ﴿آمین یا رب العالمین﴾-
uzma ahmad
About the Author: uzma ahmad Read More Articles by uzma ahmad: 265 Articles with 460149 views Pakistani Muslim
.. View More