سیلاب ۔۔۔ آبادیاں بَن ہو گئیں

29 جولائی 2010 کو آنے والا سیلاب ابھی رکا نہیں آ گے بڑھتا جا رہا ہے اور پیچھے بستیوں کی بستیاں اُجاڑ رہا ہے۔

صوبہ خیبر پختونخواہ میں مون سون کی بارشوں کا تناسب پنجاب یا سندھ سے کم ہوتا ہے لیکن اس بار غیر معمولی بارشوں نے اس صوبے کو ہلا بلکہ بہا کر رکھ دیا ہے ۔

سیلاب کا بڑا ریلا گزرنے کے تین چار روز بعد جب راستے کھلے تو ہم نوشہرہ میں اپنے گاؤں گئے۔ راستے میں حکومت کی طرف سے ناکافی بلکہ نہ ہونے کے برابر امداد کے خلاف مظاہرے کی وجہ سے کنڈر کے مقام پر ٹریفک رکی ہوئی تھی کوئی گھنٹہ بھر بعد بھی جب راستہ نہ کھلا تو مجبوراً ہم مڑ کر پشاور موٹر وے کے راستے نوشہرہ کے لیے چل پڑے۔ چارسدہ کا علاقہ شروع ہوتے ہی موٹر وے کی گرین بیلٹ پر سینکڑوں خاندان کھلے آسمان تلے پڑے نظر آئے۔ کچھ عرصہ پہلے اسی صوبے کے شہر سوات کے لوگ اسی طرح کسمپرسی کے عالم میں در بدر خاک بسر ہوئے تھے اب ایک بار پھر وہی عالم تھا ننھے بچے، بوڑھے، مرد اور عورتیں سب ہی موجود تھے۔ پختونوں کے ہاں عورتوں کے پردے کا انتہائی اہتمام کیا جاتا ہے لیکن آج کے حالات میں ایسا ممکن نہ تھا۔ جب کچھ بچوں کو ہم نے ٹافیاں دیں تو انکے چہروں سے پھوٹنے والی خوشی انکی معصومیت کی گواہ تھی۔ ہم نے کئی گاڑیاں دیکھیں جو لوگوں میں اشیائے خوردنی تقسیم کر رہی تھیں کچھ لوگ پانی کی بوتلیں بانٹ رہے تھے یہ سب اس عام تاثر کی نفی کر رہا تھا کہ اس بار امداد کا پرانا جذبہ نظر نہیں آرہا لیکن یہ سب کچھ انفرادی یا چھوٹے چھوٹے گروپوں کی صورت میں کیا جارہا تھا جو کیمپ مختلف فلاحی اداروں یا سیاسی جماعتوں کی طرف سے لگائے گئے تھے بظاہر تو ویران اور خالی پڑے ہوئے تھے جبکہ 2005 کے زلزلہ متاثرین کے لیے یہی کیمپ ہم نے بھرے ہوئے دیکھے تھے اب بھی ایسا نہ تھا کہ لوگ امداد نہ دے رہے تھے لیکن لگتا یہ تھا کہ اب ان کا حکومت پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ اور وہ یہ کام خود کرکے تسلی کر رہے ہیں کہ حق بحقدار رسید۔ اور ایسا محسوس کرنے کی بڑی ٹھوس وجوہات موجود ہیں۔ اس وقت جب سیلاب زوروں پر تھا تو ملک کے انتظامی سربراہ یعنی وزیراعظم گوجرانوالہ میں سیاسی جلسے سے خطاب کر رہے تھے اور وفاق کی علامت صدر اِن مناظر کی تاب نہ لا سکے اور یورپ کے دورے پر نکل گئے۔

قارئین!الیکٹرانک میڈیا پر نظر آنے والے تو کچھ مناظر ہیں اگرچہ کیمرے کی آنکھ نے حتیّ اْلمقدور کوشش کی ہے اور مناظر کو فلم بند کر کے عوام اور حکمرانوں کو دکھایا لیکن ان خانماں بربادوں کے بارے وہ کچھ سوچا نہیں جاسکتا جو دیکھا جاسکتا ہے۔ گاؤں کے ایک سرے پر موجود تقریباً تین سو گھروں کی آبادی مکمل طور پر پگھل کر پانی میں بہہ چکی ہے بے شمار مویشی اور پولٹری فارمز کی مردہ مرغیاں سطح آب پر تیرتی ہوئی نظرآئیں فصلیں گری ہوئی پڑی تھیں۔ جو مکین گاؤں سے بر وقت نکل چکے تھے وہ تو نکل گئے لیکن جو گاڑیاں نہ ہونے یا ٹرکوں اور ٹرالیوں پر جگہ نہ ملنے کے باعث پیچھے رہ گئے وہ یا تو دریائے کابل کی بپھری ہوئی موجوں کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ورنہ تو ان نامہربان لہروں کے ساتھ بہہ گئے۔ ابھی یہ سیل ِآب رکا نہیں ہے لیکن نہ گھر چھوڑنا آسان ہے نہ بنانا اور دوبارہ بنانا تو تکلیف دہ بھی ہے جب پانی کچھ اترا اور یہ مکین واپس اپنے گاؤں پہنچے تو کچھ تو ہر ایک اجنبی سے پوچھتے رہے جو پتہ تھا ان کے گھر کا اور جن کو اپنے گھر کی عمارت سلامت ملی تو نہ تو گھر کی چاردیواری تھی نہ سامان۔ جو کچھ ملا اس پر اللہ کا شکر ادا کیا اور اسی کو سمیٹنا شروع کیا۔ وہ گھر جو دوسروں کو کھلاتے تھے خود امدادی دیگوں سے کھانے پر مجبور تھے جن گھروں میں سب جانیں بچ گئی وہ اسی پر صابر وشاکر تھے ورنہ نہ بستر تھا نہ چارپائی، نہ آٹا نہ روٹی یہ حال تو دریائے کابل کے کنارے کے چند دیہات یعنی محب بانڈہ، پشتون گڑھی، امان کوٹ، چوکی درب، اضاخیل، لالہ کلے اور امان گڑھ اور ان کے آس پس کی چھوٹی چھوٹی آبادیوں کا تھا اس وقت تو پورا ملک اس پانی کی لپیٹ میں ہے اور مزید کئی دن رہے گا سیلابی ریلا خیبر پختونخواہ میں تو بے خبری میں آیا پنجاب اور سندھ کی حکومتوں کو تو معلوم تھا کہ پانی ہمیشہ اوپر سے نیچے کی طرف بہتا ہے لیکن کیا انہوں نے اس سے بچاؤ کے لیے کچھ کیا سوال یہ ہے کہ ہماری حکومتوں اور NDMA کی منصوبہ بندی کیا ہے یا یہ حادثوں کے منتظر رہتے ہیں لیکن اب کی بار تو ان حالات میں بھی یہ لوگ نظر نہیں آرہے۔یہ بالکل درست ہے کہ قدرتی آفات کو روکا نہیں جا سکتا اور نہ ان کا مکمل مقابلہ کیا جا سکتا ہے لیکن بہتر اور ذمہ دارانہ منصوبہ بندی سے اِن سے جان و مال اور املاک کے نقصان کو کسی حد تک تو کم کیا جاسکتا ہے۔

افواج پاکستان ہر ایسے موقعہ پر قوم کے شانہ بشانہ ہوتی تھی اور اب بھی ہے لیکن کیا ہماری فوج کی تعداد اتنی ہے کہ انہیں پورے پاکستان کی ذمہ داری سونپ دی جائے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ امیر حیدر خان ہوتی نے اپنے ایک بیان میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ کاش میرے پاس سینکڑوں ہیلی کاپٹر اور ہزاروں کشتیاں ہوتی اور میں لوگوں کو اس مصیبت سے نکال سکتا۔ یہ بیان اْن سیاستدانوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے جو کہتے ہیں کہ ایٹم بم کی موجودگی میں روایتی فوج اور سازوسامان کی کیا ضرورت ہے۔ اس وقت ہماری فوج کا ایک بڑا حصہ شمال میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے اور مشرقی سر حد کو تو کسی صورت خالی نہیں چھوڑا جا سکتا اس مشینی دور میں بھی انسانی ہاتھوں کی ضرورت سے انکار ممکن نہیں لیکن ہم مشین کو ان کا نعم البدل سمجھ کر اداروں کی ڈاؤن سائزنگ کئے جارہے ہیں اور اس پالیسی کی زد سے ہماری فوج بھی محفوظ نہ رہی جس کا آج ہم خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے ہاں کوئی رضاکار تنظیمیں بھی نہیں ملک میں ایک بڑی تعداد نجی سکولوں اور کالجوں کی ہے جن میں گرلز گائیڈ، بوائے سکاوٹس یا این سی سی جیسی تنظیموں کا کوئی تصور۔ فارن فنڈڈ این جی اوز اپنے فائدے کا زیادہ اور دوسروں کی فلاح کا کم سوچتی ہیں۔ سول ڈیفنس کی تربیت ویسے ہی غیر ضروری خیال کی جاتی ہے۔ ایک نجی سکول میں سول ڈیفنس کی تربیت دیکھنے کا اتفاق ہوا ایک ہفتے کی اس تربیت میں بچوں کو آگ بجھانے کے جو طریقے سکھائے گئے وہ حقیقی حالات میں کسی طرح استعمال نہیں کیے جا سکتے۔ ہائی سکول طلبا کو ہم ایسی تمام سر گرمیوں سے خارج کر دیتے ہیں اور صرف پڑھائی پر تمام تر توجہ مرکوز کر دی جاتی ہے یہاں تک کہ کھیلوں کے مقابلے بھی ختم کر دیئے جاتے ہیں تاکہ سکول کا رزلٹ اچھا آئے اور بہترین سکول اور ہیڈ ماسٹر کا انعام جیتا جا سکے۔ جبکہ سکول کو تعلیم اور تربیت دونوں کا ذمہ دار ہونا چاہیے اور بہترین سکول کا انتخاب کرتے ہوئے ان تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھنا چاہئے تاکہ ہم اپنی نوجوان نسل کو آج جیسے حالات کے لیے تیار کر سکیں یہ تو آفات سے بچاؤ کے ممکنہ اقدامات ہو سکتے ہیں اب ذرا ان حالات کا تصور کیجئے جب یہ پانی اتر جائے گا تو بان کی سہی چارپائی پر سونے والے، کچی چھت ہی سہی کے نیچے رہنے والے کو یہ سب کچھ میسر ہوگا؟ اب تو ان متاثرین کو خیموں اور کھانے کی ضرورت ہے لیکن کیا کل کو تین چار مرلے پر کچے مکان کا مالک اسے دوبارہ تعمیر کرنے کی استطاعت رکھتا ہے اور کیا جس نے عمر بھر کی کمائی سے پختہ مکان تعمیر کیا اب جس کے فرش بیٹھ چکے اور بنیادیں پانی کی لہروں سے کمزور ہو چکی ہیں کیا وہ اسے دوبارہ تعمیر کر سکے گا۔ یہ درست ہے کہ حکومت ہر ایک کا نقصان مکمل طور پر پورا نہیں کرسکتی لیکن پْر تعیش بیرونی دورے اور پر آسائش طرز زندگی میں کمی کر کے کچھ تو کیا جاسکتا ہے۔ ہماری حکومت فنڈز تو قائم کر رہی ہے لیکن خود ہمارے حاکموں نے ان فنڈز میں ذاتی طور پر کتنا جمع کیا یہ نہیں بتایا جاتا لاکھ دو لاکھ کی رقم جمع کرانا اگر کرائی بھی گئی ہو قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ ہمارے صدر اوراپوزیشن لیڈر بیرون ملک معلوم اکاؤنٹس کے ساتھ پاکستان کے دس امیر ترین افراد میں سے ہیں انہوں نے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے کیا دیا قوم نہیں جانتی۔ ہمارے مختلف نجی چینلز ٹیلی تھون چلا رہے ہیں یہ چینلز اربوں کے اور ان کے بعض اینکرز کروڑوں کے مالک ہیں انہوں نے حکومت کے پول بھی خوب کھولے اور اسے لوگوں کی مدد کرنے کے طریقے بھی سکھائے انہوں نے خود بھی کچھ عطیہ دیا؟ یہ بھی قوم نہیں جانتی یہ سب قوم کے سامنے ایک مثال قائم کریں تاکہ اس کے سامنے ایک واضح راستہ ہو۔

ایک درخواست ہر مخیر شخص سے ہے کہ جتنی آپ کی توفیق ہے اس کے مطابق دل کھول کر اپنے ان مصیبت زدہ ہم وطنوں کی مدد کریں جب پانی اترے گا تو انہیں اپنے ٹھکانے بنانے کے لیے روپے پیسے کی ضرورت ہوگی تاکہ یہ اس سے اپنے گھر دوبارہ بنا کر عزت کے ساتھ اپنی چھتوں کے نیچے آباد ہو سکیں۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 508889 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.