گندے انڈے، ٹماٹر اور جوتے مارنے کے واقعات

ناپسندیدہ شخصیات کے خلاف اپنے دل کا غبار نکالنے اور ناگواری کا اظہار کرنے کے لئے لوگ صدیوں سے ٹماٹر، گلے سڑے پھل ،انڈے اور دیگر کھانے پینے والی چیزیں پھینکتے چلے آ رہے ہیں ،تاہم جوتے پھینکنے کا سلسلہ نیا ہے، جو انتہائی غیر مہذب اور قابل مذمت سمجھا جاتا ہے۔ اس جوتا باری کا شکار ہونے والوں میں سے بعض تو اپنی مہارت اور ذہانت سے بچ جاتے ہیں، جب کہ بعض ایسا نہیں کر سکتے اور اس پر بحث سے ان کی مزید تضحیک ہوتی ہے۔

اہم شخصیات پر انڈے ٹماٹر اور کھانے کی اشیاء پھینکنے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے، اور اس ضمن کا پہلا واقعہ 60 عیسوی میں رومن بادشاہ ویس پاسی ناس سیزر کے ساتھ پیش آیا تھا جب لوگوں نے اس کی تواضع شلجم مار کر کی۔ کہا جاتا ہے کہ لوگوں کے پاس شلجم کھانے کے سوا کچھ نہ تھا، جنہیں کھا کھا کر وہ تنگ آ چکے تھے اور شاہ کو شلجم مار کر اپنی بھڑاس نکالی تھی۔ اس کے بعد انگلینڈ کے بشپ جان کروک پر 17ویںصدی میں ایک تقریب کے دوران انڈوں اور ٹماٹروں کی بارش کی گئی۔18ویںصدی میں لندن میں ایک جزیرے کے لوگوں کو مشرک قرار دے کر ان پر احتجاجاً گندے انڈے پھینکے گئے،1878 میں امریکی قدامت پسند مصنف ولیم ایف بکلے پر عوام نے دوران تقریب خراب انڈے پھینکے۔1906میں آئرلینڈ کے مشہور مصنف مسٹر سٹیفن گوینن پر الیکشن مہم کے دوران انڈے اور بوسیدہ مچھلیاں پھینکی گئیں،1919میں جنوبی افریقہ میں برطانیہ کے خلاف تحریک آزادی کے دوران بادشاہ پر خون اور خراب انڈے پھینکے گئے، جب کہ امریکا کے سابق صدر نکسن پر 1958 میں جنوبی امریکا کے دورے میں لوگوں نے خراب انڈے اور ٹماٹر پھینکے، اس وقت نکسن نائب صدر تھے۔ ان کے علاوہ سینکڑوں دیگر اہم عالمی سیاسی اور سماجی شخصیات پر بھی لوگ ایسی بارشیں کر چکے ہیں۔ امریکی اداکار جان ریچی، امریکی کالم نگار تھامس فرائیڈمین، کیلی فورنیا کے گورنر اور ٹرمینیٹر فلموں سے شہرت پانے والے آرنلڈ شوار زینگر، کمپیوٹر کی دنیا کے بے تاج بادشاہ بل گیٹس، امریکی دانشور این کولٹر،امریکا کے بنیاد پرست رائٹر ڈیوڈ ہاروٹز، سیاسی کارکن اور مصنفہ فیلیس شلافلی، رپبلکن پارٹی کی سابق نائب صدارتی امیدوار سارہ پالن، سابق جنگجو صدر بش، چین کے وزیر اعظم وین جیابا، اور پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو، سابق وزیر اعلیٰ سندھ، سابق وفاقی وزیر شیر افگن اس تکلیف دہ صورت حال سے گزر چکے ہیں، جب کہ تازہ واقعہ میں صدر آصف زرداری کی طرف برمنگھم میں جوتے اچھالے گئے ہیں۔ بھارت میں وزیر اعظم منموہن سنگھ سمیت، چدمبرم، ایل کے ایڈوانی، نریندرمودی اور کئی دیگر اہم لوگ بھی جوتا باری کا شکار ہو چکے ہیں۔

14 دسمبر 2008ء کو صدر بش کو عراقی وزیراعظم نوری المالکی کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران عراقی صحافی منتظر الزیدی نے دو جوتے مارے، تاہم بش انتہائی مہارت کے ساتھ بچنے میں کامیاب ہو گئے اور اس واقعہ کے بعد کندھے اچکاتے ہوئے کہا تھا کہ ”میں ٹھیک ہوں“اس حوالے سے صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ جوتوں کا سائز 10 تھا“۔3 فروری 2009ء کو کیمبرج یونیورسٹی میں چینی وزیراعظم وین جیاباﺅ پر تقریر کے دوران ایک طالب علم نے جوتا پھینکا، اور کہا کہ ”آپ اس کو جھوٹ بولتے ہوئے کیسے سن سکتے ہیں“۔ اپریل 2009ء کو نئی دہلی میں ایک سوال کے جواب پر مشتعل ہو کر ایک سکھ رپورٹر نے بھارتی وزیرداخلہ پی چدمبرم پر جوتا پھینکا۔ اپریل 2009 کو ہی الیکشن ریلی سے خطاب کے دوران بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کی طرف جوتا پھینکا گیا، مگر وہ ان تک پہنچ نہ پایا۔سب سے دلچسپ انداز گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے اپنایا ہے، وہ جوتوں سے بچنے کے لئے اپنے ڈائس کے سامنے والی بال کا نیٹ لگاتا ہے۔ پاکستان میں دو سال پہلے کراچی میں چار جولائی دو ہزار آٹھ کو سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم کو اس وقت جوتوں سے مارا گیا جو وہ اسمبلی میں رکن کی حیثیت سے حلف اٹھانے آرہے تھے۔ یاد رہے کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ایک جلسے کے دوران جوتیاں دکھائی گئیں تو انہوں نے حاضر جوابی سے کام لیتے ہوئے یہ کہہ کر صورت حال کو کنٹرول کر لیا تھا، مجھے پتہ ہے کہ جوتی بڑی مہنگی ہوگئی ہے۔ تاہم صدر آصف علی زرداری بھٹو جیسی حاضر دماغی کا مظاہرہ نہیں کر سکے اور برمنگھم کے واقعہ کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں ایک نئی محاذ آرائی شروع ہو گئی ہے۔ امریکی صدر جارج بش نے جوتوں سے حملے کے بعد اپنی غیر مقبولیت کا اعتراف کر لیا تھا، لیکن پاکستان کے رہنما اس انداز کو مقبولیت میں کمی کا آلہ نہیں سمجھتے۔
Abid Hussain burewala
About the Author: Abid Hussain burewala Read More Articles by Abid Hussain burewala: 64 Articles with 85088 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.