ایک ’’ باشعور آدمی‘‘ کی کہانی۔۔۔۔۔

کہتے ہیں ٹیلی پیتھی ایک ایسا علم ہے جس کے ذریعے ایک انسان دوسرے انسان کے دماغ تک خیالات کے ذریعے رسائی حاصل کر کے ا س کے خیالات کو پڑھ سکتا ہے، اور اس کی سوچ کو اپنی مرضی سے تبدیل کر سکتا ہے یا تنویمی عمل سے اس کے دماغ کو سوچوں سے خالی کر سکتا ہے یا اس کی یاداشت کو ختم کر سکتا ہے،یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ٹیلی پیٹھی کا علم سیکھنا انتہائی مشکل کام ہے اس کے لئے انتہائی پر مشقت ریاضتیں کرنی پڑتی ہیں،۔۔۔ایک زمانے میں ہمارے ہاں سسپنس ڈائجسٹ میں ایک سلسہ وار ناول چھپا کرتا تھا جس کا نام ’’دیوتا‘تھا، اس میں ایک ہیرو ہوتا تھا جو کہ اپنی ٹیلی پیتھی کی صلاحیتوں سے بڑے بڑے کارنامے انجام دیتا ہے، بڑے بڑے خطرات سے نکلتا ہے، لوگوں کی مدد کرتا ہے وغیرہ وغیرہ اس ناول کو پڑھ کر ایک دفعہ تو ٹیلی پیتھی سیکھنے کا بھوت ذہن پہ ضرور سوار ہو جاتا تھا، لیکن پھر آہستہ آہستہ طبیعت میں اعتدال آنا شروع ہو جاتا۔۔۔۔یہ تو تھی ناول کی بات ۔سائنسدانوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی کوئی عملی حقیقت نہیں یہ صرف مفروضہ ہے۔۔۔۔لیکن میں یہاں ایک ایسے ہیرو کی کہانی پیش کرتا ہوں جس نے اس حقیقت کو سچ کر دکھایا۔۔۔۔۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایشیاء کے جنوب میں ایک نئی قوم کی تشکیل ہوئی، ایک نیا ملک دنیا کے نقشے پہ نمودار ہوا، اس ملک کے لئے لوگوں نے بے شمار قربانیاں دیں، یہ قربانیاں مختلف مذاہب کے لوگوں نے دیں، اس ملک کی بنیادوں میں لاکھوں انسانوں کا خون شامل تھا، ہزاروں خواتین کی عزتوں کو تار تار کیا گیا، ہزاروں خواتین نے اپنی عزتوں کو بچانے کے لئے خود کشیاں کیں، اس سارے خون خرابے اور تباہی و بربادیوں کے مناظر تاریخ نے محفوظ کئے، لیکن اس سارے خون خرابے میں، عزتوں کی نیلامی میں ، گھر بار مال وجائداد کی تباہی و بربادی صرف عام لوگوں نے دی، وہ سارے لیڈر جنہوں نے لوگوں کو اس نئے ملک کی تشکیل کا نعرہ دیا اور انہیں سیاسی جدو جہد کے لئے تیار کیا ان مین سے کسی کو تھپڑ بھی نہیں پڑا اور نہ ہی کسی کو اپنا پسینہ بھی بہانا پڑا، عام لوگ لٹے پٹے آئے سرحدوں سے اس پار آئے یا لٹے پٹے اس پار گئے سب عام لوگ تھے، کوئی سیاسی لیڈر یا جاگیردار نہ تھا۔۔۔

خیر نیا ملک بن گیا خوب جذبوں اور امیدوں کا اظہار کیا گیا، آزادی کے نغمے گائے گئے،خوشیاں منائی گئیں، اور جو لیڈر ان آزادی کے بعد اس ملک میں اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ وراد ہوئے انہوں نے اس ملک کو اپنی ضرورتوں کے مطابق ڈھالنا شروع کر دیا۔یہ ملک ہر طرح کے وسائل سے مالا مال تھا، ہر طرح کے موسم تھے، پہاڑ، دریا سمندر سب کچھ اس میں تھا اس ملک کی بہت زیادہ جغرافیائی اہمیت بھی تھی، کچھ سیاسی سمجھداروں کا کہنا تھا کہ جب یہ ملک وجود میں آ رہا تھا اس وقت عالمی شیطانوں کے ذہن میں اس کو استعمال کرنے کا منصوبہ بن چکا تھا، لہذا جب آزادی کے جشن کے بعد یہ لٹے پٹے عوام اپنی بے انتہا قربانیوں کے ساتھ اس ملک کی خدمت کے لئے پیش پیش تھے، لیکن سیاسی لیڈروں اور بیوروکریسی سے تعلق رکھنے والا طبقہ انتہائی بے فکری سے اپنے اپنے مفادات کی مضبوطی میں لگ گیا، سیاسی گٹھ جوڑ، اقتدار و طاقت کی رسہ کشی، اپنی جاگیریں اور کاروبار کی مضبوطی و استحکام ان کے مد نظر تھا، اس طبقے میں ان کا ایک لیڈر بھی تھا اگرچہ اس نے اپنی صلاحیتوں اور قیادت کے بل بوتے پہ آزادی کی اس تحریک کو کامیاب کیا، اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ ایک ایماندار آدمی تھا، اصول پسند تھا، قومی سوچ کا حامل تھا اور اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پہ قربان کرنے کا عملی مظاہرہ کرتا تھا، لیکن اس کے ارد گرد مفاد پرستوں کا ایک ٹولہ جمع تھا جس کے کے نرغے میں اس کی اصول پسندی اور ایمانداری کو شکست ہو گئی اس بے چارے کو کسمپرسی کی حالت میں اس دنیا سے جانا پڑا۔اس کی موجودگی میں یہ مفاد پرست یا اقتدار پرست ٹولہ پھر بھی کچھ حدومیں رہتا تھا لیکن چند سالوں میں ان کی رحلت کے بعد اب ہر طرح کی آزادی میسر تھی، لہذا اب انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا، سب نے اپنے اپنے کاروبار، جاگیروں اور سرکاری عہدوں کو تحفظ دینے کی پالیسی کو دل و جان سے اپنایا اور اس پہ عمل در آمد کے راستے پہ کاربند ہو گئے، ریاستی اداروں کو اسی پرانے سامراجی قوانین اور پالیسیوں کے تحت چلایا جانے لگا، کیونکہ وہ تمام قوانین گذشتہ سامراجی سلطنت کو مضبوط کرنے اور کالوں کو غلام بنانے کے لئے وضع کئے گئے تھے،لہذا وہ اس برسر اقتدار طبقے کے مفادات کی صحیح ترجمانی اور تحفظ کرتے تھے لہذا انہوں نے انہیں نہیں چھیڑا، ملکی آئین بنانے کی کافی عرصہ تک زحمت نہیں کی گئی، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں نے اس بدنصیب ملک کو اپنے کاروبار کی منڈی کی صورت میں لیا اور اسی طرح کی درگت بنانا شروع کی کہ الامان الحفیظ، انہیں اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ اس ملک کا کوئی آئین ہو ، یہاں جمہوریت مضبوط ہو، نہ ہی انہین اس بات سے دلچسپی تھی کہ یہاں عصر حاضر کے مطابق تعلیمی نظام کی داغ بیل ڈالی جائے یا ایک ایسے معاشی نظام، صنعتی نظام کی بنیادیں رکھی جائیں جو آگے چل کر اس ریاست کی طاقت بنے، انہوں نے صرف اس پہلو پہ توجہ دی کہ ان کی ذاتی اندسٹری کہاں کہاں اور کس طرح کامیابی سے چلے، اور کس طرح سے ایسے قوانین بنائے جائیں جس سے ان کے کاروباروں کو سہولت میسر آ جائے، اس طرح جاگیردار طبقے کو صرف اپنی زمینوں کی فکر تھی ، اسمبلیوں میں کنٹرول کر کے اپنے مفادات کو تکمیل تک پہنچانا ان کا مطمع نظر بن گیا۔اب دوسری طرف بیورو کریسی تھی جو اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لئے بالکل تیار تھی لہذا انہوں نے بھی ان سیاسی دھوکے بازوں کے ساتھ مل کر خوب استفادہ کیا، خوب مراعات ھاصل کیں۔اس پورے منظر نامے میں ملک کی اکثریتی آبادی اور خاص طور وہ لوگ جنہوں نے ہجرت کی اور اپنا سب کچھ لٹا دیا انتہائی کسمرسی کی حالت میں زندگی گذار رہے تھے، ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا، سول، ملٹری بیورو کریسی اور سیاستدانوں نے مل کر باری باری اداروں کو تباہ و برباد کیا، معیشت کو پنپنے نہیں دیا، اس بے ایمان اور مفاد پرست طبقے نے بالاخر اس بد نصیب ملک اور اس کی عوام کو پھر سے اسی عالمی شیطانوں کے چنگل میں پھنسانے کا منصوبہ بنا لیا، جس سے آزادی کے بعد یہ ملک وجود میں آیا تھا۔یہ طبقہ سرحد پا سے جہازوں پہ بیٹھ کے آیا یا اس ملک میں موجود جاگیروں کا مالک تھا وہ سامراجیوں ہی کا مراعات یافتہ تھا ایک زمانے میں اس طبقے کے آباء و اجداد کو غداری وطن کے انعام کے طور پہ ان جاگیروں سے نوازا گیا اور یہ نواب اور جاگیردار بن بیٹھے ۔ لہذا یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ ان ہی غداروں کی نسلیں اس نئے ملک پہ قابض ہو کر اپنے آقاؤں کو بھول جائیں، لہذا تاریخ کا وہ سیاہ دور اس بد نصیب قوم کو اس وقت دیکھنا پڑا جب دنیا کا سب سے ابھرتے ہوئے استحصالی ملک کے ساتھ معاہدے کر کے اس طبقے نے اپنے رہائشیں اور جائدادیں وہاں منتقل کیں اور ساتھ ہی رفتہ رفتہ اس ملک کی معیشت کو غلام بنا دیا، قوم کو قرضوں کے بوجھ تلے دبانا شروع کر دیا، غریب قوم کے نام پہ بے تحاشہ قرضے لئے جانیں لگے، ریاستی نظام اور سیاسی حکمران سب اپنے اپنے حصے اس ملک کے اور عوام کے جسم سے نوچنے لگے، بیرونی قرضوں پہ گھپلے کر کے اپنی ذاتی جائیدادیں بنائی گئیں، کوئی ایسا منصوبہ نہیں لگایا گیا جس سے ملکی معیشت مضبوط ہو،جو ادارے موجود تھے ان کو بھی تباہی کے دھانے پہ پہنچا دیا گیا، یہ حکمران نسل در نسل اسی روش کو اپناتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے، ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبایا جانے لگا، فوجی اور سول بیرو کریٹس امیر تر ہوتے گئے، سیاستدان اپنے خاندانوں سمیت اربوں پتی بنتے گئے، ملک پہ لئے گئے قرضوں کو اپنے ذاتی اکاؤنٹس میں منتقل کیا جانے لگا، ٹیکس کھلے عام چوری کیا جانے لگا، اقرباء پروی کو عروج حاصل ہو گیا، میرٹ کا جنازہ نکال دیا گیا، انصاف نایاب بنا دیا گیا، عدالتیں حکمرانوں کا ساتھ دیتی رہیں، ریاستی ادارے اس کے ساتھ ہوتے جو طاقت میں ہوتا، عوام غریب سے غریب تر ہوتے چلے گئے، انتہائی فرسودہ اور بے کار تعلیمی نظام جہاں سے شاید ہی کوئی باصلاحیت نسل پیدا ہو سکے اس قوم کا مقدر ٹھہرا، صرف بالا دست اور مخصو ص طبقے کے لئے معیاری تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں تک رسائی دی گئی۔ غریب عوام گندے اور غیر معیاری ہسپتالوں میں دم توڑتے رہے۔ مایو سی ہر طرف پھیل رہی تھی، نصف صدی گذر گئی حالت بد سے بدتر ہوتے چلے گئے، ملک کی عزت و ناموس دنیا میں کم سے کم تر ہوتی چلی گئی، قرضوں کے بوجھ تلے دبی معیشت دیوالیہ کی طرف گامزن تھی، اس کے باوجود حکمران طبقے شاہانہ زندگی بسر کر رہے تھے، انہیں نہ تو خدا کا خوف تھا اور نہ ہی اپنے عبرتناک انجام کا۔

عالمی استحصالی ادارے گدِھوں کی طرح ملکی معیشت کا گو سود کی مد میں نوچ نوچ کر کھا رہے تھے، پورا ملک قرضے پہ چلایا جا رہا تھا، اور ہر سال سود کی ادائیگی کے لئے مزید قرضہ لیا جاتا ۔عالمی سطح کے شیطانوں کاگٹھ جوڑ اس قوم اور ملک کو اپنے علاقائی مفادات کے لئے خوب استعمال کر رہے تھے، حکمران طبقے ان کی حمایت اور مدد کے طلبگار رہتے، قوم کے نام پہ بھیک مانگنا ان کی فطرت بن گیا اور اس بھیک کو چوری کرنا ان کا وطیرہ بن گیا۔ لہذا صورتحال ایسی ہو گئی کہ دنیا کے کسی فورم پہ نہ تو ان حکمرانوں کی کوئی عزت تھی اور نہ ملک کی، کیونکہ دنیا کو یہ پتہ تھا کہ یہ کرپٹ حکمران بھیک ہم سے مانگنے آتے ہیں لیکن خود اپنے شاہانہ اخراجات پہ قومی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹاتے ہیں۔ غربت، بے انصافی کے ساتھ ان حکمرانوں، اور نام نہاد لیڈروں نے ملک کو دہشت گردی اور تشدد کی لعنت میں بھی مبتلا کر کے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی تھی۔

کبھی حب الوطنی کا نام لے کر، کبھی لسانیت کے نام پہ، کبھی قومیت کے نام پہ، اور کبھی مذہب کے نام پہ معاشرے میں انتہا پسندی اور تشدد کو رواج دیا جاتا تھا۔گویا کرپشن اور دہشت گردی کا ایک گٹھ جوڑ بن گیا تھا، جس سے قوم کی نہ عزت محفوظ رہی تھی نہ جان و مال۔

یہ ملک معاشی زبوں حالی اور دہشت گردی کی وجہ سے پوری خطے اور عالمی سطح پہ تنہائی کا شکار ہو چکا تھا۔اس وقت سب سے بڑا مسئلہ جو اس ملک کو درپیش تھا وہ معاشی قرضوں کا تھا، کیونکہ عالمی استحصالی اداروں نے عنقریب اسے دیوالیہ قرار دینے کا فیصلہ کر دیا تھا۔اب اس مایوسی، بے وقعتی اور بربادی کے عالم میں ہر ذی شعور اور درد دل رکھنا والا شہری پریشانی میں مبتلا تھا۔ اگر کسی کو کوئی پرواہ نہیں تھی وہ حکمران طبقہ تھا۔ انہوں نے اپنے ٹھکانے بیرون ملک مضبوط کر لئے تھے اور وہ کسی بھی وقت اس ملک سے بھاگ سکتے تھے، اب صرف اگر بھگتنا تھا تو وہ عوام کو۔

اسی دور میں اس ملک کے ایک شہر میں ایک ’’ باشعور آدمی‘‘ رہتا تھا، وہ اس ملک کے ہر دور کا چشم دید گواہ تھا، اسے کسی میڈیا رپورٹ کی ضرورت نہیں تھی، اسے کسی کتابی تاریخ کی ضرورت نہ تھی، اس نے ہر دور کو اور ہر حکمران کو اور ہر سیاسی اور مذہبی لیڈر کو اپنی آنکھوں سے اس ملک کی تقدیر کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا۔وہ نصف صدی کے ہر ہر سال ،مہینے، دن اور لمحے کا چشم دیدگواہ تھا، ہر سال کی تباہی اور زوال اس کی آنکھوں کے سامنے ہوا تھا، وہ اپنی آنکھوں سے اپنے خوبصورت وطن، اس کے وسائل، اور اس میں بسنے والے باصلاحیت عوام کو لٹتے، رسوا ہوتے دیکھتا رہا تھا۔اس کا دل خون کے آنسو روتا تھا، وہ سوچتا تھا کہ وہ اکیلا ہے وہ کیسے اس سب کچھ کو بدل سکتا ہے؟وہ سوچتا تھاکہ کاش ایسے حکمران آ جائیں جو ایمانداری سے اس ملک کو ترقی کی راہ پہ ڈالیں، ہر طرف انصاف کا بول بالا ہو، قانون سب کے لئے برابر ہو، کوئی شخص بھوکا نہ سوئے، کوئی بغیر دوا اور علاج کے نہ مرے،کوئی بچہ تعلیم سے محروم نہ ہو، حکمران طبقات ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی مفاد کو ترجیح دیں، معیشت اس قدر خوشحال ہو کہ غریب ممالک کی مدد کریں نہ کہ خود بھیک منگے ہوں، تعلیم کا اس قدر اعلیٰ معیار ہو کہ علم و ہنر میں دنیا کی قیادت کریں۔ سائنس اوٹیکنالوجی کی طاقت سے دنیا کی مارکیٹوں میں اپنی دھاک بٹھائیں، اس طرح کے خواب وہ اکثر دیکھا کرتا تھا۔۔۔۔۔۔۔

وہ سوچتا تھا کہ اس وقت اگر ملک کا قرضہ جو کہ ساٹھ ارب ڈالر تک پہنچ گیا اگر نہیں اتارا جائے گا تو ملک دیوالیہ قرار دیا جائے گا، عوام تباہی و بربادی کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے میں مبتلا ہو جائیں، ملک خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا، اور عالمی استحصالی ممالک کی سازشوں کو شکار ہو کر خدا ناخواسطہ اپنا وجود ہی نہ کھو دے۔۔۔۔اس طرح کے خوفناک سوالات اس کے دماغ میں کلبلاتے رہتے تھے اور اسے بے قرار کرتے تھے۔۔۔۔اس کی آنکھوں سے گویا نیند غائب ہو چکی تھی۔اس کا سکون چھن چکا تھا۔۔۔۔اس نے تہیہ کیا کہ وہ اپنے ملک عزیز کی حالت کو بدلنے کے لئے اپنی انتہائی کوشش کرے گا، اس نے مختلف تدبیریں سوچنی شروع کیں، پہلے اس نے سوچا تنہا تو کچھ نہیں کر سکتا کسی سیاسی تنظیم میں شریک ہو کر ملک کی بہتری کے لئے کام کروں لیکن وہ اس حقیقت کا بھی چشم دید گواہ تھا کہ اس ملک کی جتنی بھی سیاسی پارٹیاں اور گروپ ہیں سب اپنی باریاں لے ر ہے تھے، اس ملک کی زبوں حالی میں نصف صدی سے ملک کے افق پہ موجود تمام سیاسی پارٹیوں کے سربراہ اور ان کے حاشیہ نشینوں کا بھی اہم کردار تھا۔لہذا وہ تمام سیاسی اداروں میں بیٹھے مفاد پرست اور کرپٹ عناصر ، مفاد پرست اور اس طبقاتی اور استحصالی نظام کے محافظ سول اور فوجی بیرو کریٹس سے مکمل طور پہ مایوس ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔

ایک دن اس کے ہاتھ ایک کتاب لگی جو کہ ٹیلی پیتھی کے موضوع پہ تھی، اسے پڑھنے کے بعد وہ بہت حیران ہوا کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک انسان اپنے خیالات کی طاقت سے دوسرے انسان کے خیالات کو بدل سکتا ہے، اسے اپنی مرضی سے کام کرنے پہ مجبور کر سکتا ہے، اور دوسروں کے دماغ میں پیدا ہونے والے خیالات کو پڑھ سکتا ہے۔اس کتاب کو پڑھنے کے بعد اس کے ذہن میں ایک اچھوتا خیال آیا کہ کیوں نہ ٹیلی پیتھی سیکھ کر اس کی مدد سے اپنے ملک کی لوٹی ہوئی دولت جو کہ بیرون ملک منتقل کی گئی کو واپس لایا جائے اور ملک کو معاشی طور پہ آزادی دلائی جائے۔۔ اور اس کے اداروں کی کار کردگی کو بہترین بنایاجائے۔۔لیکن کیسے؟اس نے اس پہلو پہ شدت سے سوچنا شروع کر دیا۔چند دن خوب غور و خوض کرنے کے بعد اس نے بالاخر فیصلہ کیا کہ وہ ٹیلی پیتھی سیکھے گا اور اکیلا ان کرپٹ اور بد دیانت لیڈروں سے ملک کو آزادی دلائے گا۔۔۔۔۔لہذا اس نے اس علم کو سیکھنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔رات رات بھر مشقیں۔۔۔۔ریاضتیں۔۔تزکیہ۔۔۔۔ہر طرح سے اس نے اپنی دماغی صلاحیتوں کو طاقتور کرنا شروع کیا اور کئی مہینوں کی شبانہ روز محنتوں اور ریاضتوں نے اور ان کے پیچھے اس کے سچے اور اجتماعیت کی فلاح کے مقصد نے اس کے دماغ کو ایک نئی روشنی سے منور کر دیا۔۔۔۔۔اسے اپنے دماغ میں ایک مقناطیسی طاقت محسوس ہونا شروع ہوئی اسے محسوس ہوا کہ وہ یہ صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔۔۔اسے انتہائی مسرت ہو رہی تھی۔۔۔۔وہ اپنی اس خوشی اور بیتابی کو چھپا نہیں پا رہا تھا۔۔۔۔اسے اپنے اندر ایک زبردست طاقت کا احساس ہونا شروع ہوا۔۔۔۔اسے ایسا لگا کہ اب اس کے ملک کے اچھے دن شروع ہونے والے ہیں۔۔۔اپنی اس طاقت کو جانچنے کے لئے اس نے عملی تجربے شروع کر دئیے۔۔۔۔اس نے ان تجربات کا آغاز ٹیلی ویژن سے کیا، وہ لوکل چینل سے ہونے والے مختلف مذاکروں میں بیٹھے ہوئے مختلف سیاسی لیڈروں، اور صحافیوں کے دماغوں میں جانے لگا، وہ ان کی سوچیں پڑھتا اور حیران ہوتا کہ وہ سوچتے کچھ اور تھے اور بولتے کچھ اور تھے، ان کی سوچوں میں ایک قدر مشترک نظر آئی کہ سب اپنے اپنے مفادات کے تحت لفاظی کرتے تھے، ان کے یہ جھوٹ اور منافقت صرف ان کے دماغوں میں رہ کر ہی پڑی جا سکتی تھی۔۔۔ اب اس کا یہ مشغلہ بن گیا کہ وہ زندگی کے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے خیالات پڑھتا۔فوجی بیورو کریٹس، سول بیرو کریٹس، سیاستدان، عام آدمی، بچے، بوڑھے، جوان سب کی سوچیں پڑھتا، ایک قدر ان میں بھی اسے مشترک نظر آئی کہ سب اپنے اپنے مفادات، اپنے اپنے کیرئیر، اپنے اپنے خاندان کے لئے سوچتے ہیں۔

اسے بہت کم ایسے لوگوں کے دماغوں سے واسطہ پڑھا جو دوسروں کے لئے زیادہ سوچتے تھے اپنے لئے کم سوچتے تھے۔سب سے زیادہ اسے ان دماغوں نے مایوس کیا جو کہ علم اور قلم کے اپنے آپ کو چمپئین کہتے تھے، لبر ل ازم اور سیکولر ازم کا ڈھنڈورا پیٹتے تھے، لیکن ان کے دماغوں کی چوری اس نے پکڑی، وہ پوش علاقوں رہنے کے بدلے میں، بیرون ملک ویزوں اور فنڈز اور مراعات اور عالمی میڈیا میں شہرت کی خاطر لفظوں کے گورکھ دھندے کرتے تھے،ان کے دماغ اس تمام منافقت کی گواہی دے رہے تھے، انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ عوام کس حال میں ہے، اس کے بنیادی مسائل کیسے حل ہوں گے؟اس طبقے کا ذریعہ روزگار عالمی سامراجی شیطانوں کی علاقائی حکمت عملی کی ترویج و اشاعت تک پھیلا ہوا تھا۔کبھی کبھی تو اس طبقے کے دماغوں کو پڑھتے وقت بہت تکلیف سے بھی گزرنا پڑتا تھا، کہ یہ جس ملک کا کھاتے ہیں اسے ہی گالیاں دیتے ہیں۔۔۔ان کے خیالات اور سوچوں کا محور دشمنان ملک کی مدد اور تعاون تک محدود ہے۔۔۔

اب سوچ پڑھنے کی مشق میں وہ کامیاب ہو گیا اب وہ بڑے آرام سے کسی کی آواز سن کر یا اس کی آنکھوں میں دیکھ کر یا اس کی تصویر سے اس کی آنکھوں کو دیکھ کر اس کے دماغ تک رسائی حاصل کر لیتا تھا۔۔۔۔اب اگلے مرحلے میں اس نے سب سے اہم مشق کرنی تھی وہ تھی۔۔۔دوسرے کے خیالات کو تبدیل کرنا یعنی جو آپ چاہتے ہیں وہ سوچ اس کے دماغ میں ڈالنی ہے تاکہ وہ اسی سوچ کے تابع رہ کر عمل کرنے پہ مجبور ہو۔۔۔اس نے اس عمل کا آغاز بھی ایک ٹی وی چینل میں ہونے والے مذاکرے سے کیا جہاں ملک کی ایک اہم سیاسی شخصیت جو کہ کئی دفعہ اقتدار کے مزے لوٹ چکی تھی اور انتہائی جمہوریت پسندی کا راگ الاپ رہے تھے، ہر دوسرے جملے کے ساتھ وہ عوام کا نام لے رہے تھے، ایسا لگتا تھا کہ وہ خواب میں بھی عوام کی فلاح و بہبود ہی کے لئے سوچتے ہیں وہ جب ان کے دماغ میں پہنچا تو اسے حیرت ہوئی کہ وہ سب جھوٹ بول رہا ہے،اب اس نے کیا کیا کہ اس کے دماغ کو آہستہ آہستہ اپنے خیالات کی طاقت سے کنٹرول کرنا شروع کر دیا، اور اس طرح اب وہ اس کے خیالات کے تابع ہو گیا اور اس نے اس کے دماغ کو یہ ہدایت دی کہ جو کچھ اس نے اپنے پچھلے ادوار میں کیا اسے من وعن دھرانا شروع کر دے۔۔۔لہذا ایسا ہوا کہ ٹی وی اینکر نے اس سے سوال پوچھا کہ آپ نے تین دفعہ اس ملک میں حکمرانی کے مزے لئے، آپ نے اس عوام کو کیا دیا، تو اس نے پوری سچائی سے بولنا شروع کیا، ہم نے کیا دیا؟ یہ کہنا مشکل ہے کیونکہ میرا بنیادی مقصد تھا کہ الیکشن میں ہونے والے کروڑوں روپوں کے اخراجات کو پوار کرنا،سب سے پہلے وہ اخراجات قومی خزانے سے پورے کئے، اس کے بعد میرے جتنے کاروبار ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں ان کے تحفظ کے لئے مختلف کام کئے، لائنسس بنوائے، اپنی کمپنیوں کے لئے اور اپنے رشتہ داروں کے لئے ٹھیکے لئے، بیرون ملک بے تحاشہ دورے کئے وہ بھی سرکاری خرچے پہ اور وہاں بھی تعلقات بنائے، مختلف سفارت خانوں میں تعلقات بنائے،

ویزے لئے، اپنے بچوں اور رشتہ داروں کے لئے امیگریشن کروائی، اور اپنی خدمات بیرون ملک بڑے سرمایہ داروں کو پیش کیں،اب ہر گرمی میں بیرون ملک خاندان کے ساتھ سرکاری خرچے پہ جاتا ہوں، بچے بیرون ملک پڑھتے ہیں، جلد ہی واپس آ کر پارٹی کی قیادت کریں گے، اب کیا ہے کہ جس طرح دوسرے لوگ اپنی نوکری کرتے ہیں اور اپنی اور خاندان کی کفالت کرتے ہیں بالکل ایسا ہی میں نے کیا، سیاست میرا پیشہ ہے اور جب جب مجھے موقع ملا اس پیشے کے زریعے اپنے لئے اثاثے بنائے اور اپنے خاندان کے لئے۔۔۔۔ اینکر اس کے اس جواب پہ ہکا بکا رہ گیا، اور اس سے استفسار کیا کہ کیا آپ مزاق کر رہے ہیں؟لیکن اس نے جواب دیا نہیں میں سچ بول رہا ہوں۔۔۔لیکن مجھے سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ آج میرے منہ سے سچ کیوں نکل رہا ہے۔۔۔۔۔۔بالاخر چینل کو پرو گرام روکنا پڑا۔۔۔کیونکہ اس طرح کا کوئی بیان خود اس چینل کی پالیسی کے خلاف تھا کیوں کہ انہیں اس سیاسی شخصیت کی پارٹی کو سپورٹ کر نے کے بھی فنڈز ملتے تھے۔۔۔۔اس طرح ٹیلی پیتھی کی اس صلاحیت کی کار کردگی کا دوسرے مرحلے کا تجربہ کامیاب رہا ہے۔۔۔۔۔

اب اس نے اپنے اگلے اور آخری مرحلے کے بارے میں ترتیب بنانی شروع کی۔۔۔۔۔۔سب سے پہلے اس نے اس ملک کے ان تمام سیاست دانوں، سول اور فوجی بیورو کریٹوں اور سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کی فہرست بنائی جنہوں نے خود یا ان کے آبا و اجداد نے گذشتہ نصف صدی سے قومی ٹیکس چوری کیا، بینکوں سے قرض لے کر معاف کروایا، منی لانڈرنگ کر کے بیرون ملک قومی پیسہ منتقل کیا۔جنہوں نے ملکی سطح پہ لوٹ کھسوٹ کیا، زمینوں پہ قبضے کئے اور ملکی معیشت کو اور عوام کو نقصان پہنچایا۔۔۔۔۔اب اس نے ان تمام کرپٹ عناصر کی ویڈیو یا ان کی تصاویر حاصل کرنا شروع کیں۔۔۔۔ اس کے علاوہ اس نے دوسراکام یہ کیا کہ عدلیہ، سول بیرو کریسی یا سیا ست، فوج اور زندگی کے دیگر اہم ترین شعبہ جات اور اداروں مثلاً ایف بی آر، الیکشن کمیشن، عدلیہ، پولیس، خفیہ ایجنسیوں ، تعلیم، صحت و غیرہ کہ اہم عہدے داروں اور باثر افرد کی فہرست بنائی اور ان کے دماغوں تک رسائی حاصل کی اور ان کے دماغوں کو مسلسل ٹیلی پیتھی کے عمل سے اس سوچ پہ کار بند کر دیا کہ ملک کے اندر کسی بھی قسم کی کرپشن کے کلاف بلا امتیاز کاروائی کرنی ہے، اگر عدلیہ کا جج ہوں تو ہر سطح کی کرپشن کے خلاف سوموٹو لینا ہے اور ججز کی ٹیم بنا کر اس کے خلاف ایکشن لیناہے۔۔اسی طرح تمام اداروں کے کردار کو بدلنے کے لئے ان کے ذمہ داروں کے دماغوں میں ہدایات ڈال دی گئیں۔۔۔۔۔اس کام سے فارغ ہونے کے بعد اس نے ان دماغوں کا رخ کیا جو کرپٹ تھے، کچھ بیرون ملک موجود تھے اور کچھ اندرون ملک بہت سارے اقتدار میں تھے اور مختلف اداروں میں بھی موجود تھے۔۔۔۔اب اس نے سب سے پہلے ا اس نے بڑے مگر مچھوں انتخاب کیا جنہوں نے سب سے زیادہ دولت کی لوٹ کھسوٹ کی اور بیرون ملک اکائنٹس بنائے،اس نے حساب لگایا کہ اس کا ملک ساٹھ ارب ڈالر کا عالمی سوخوروں وں کا مقروض ہے اور کرپشن سے بیرون ملک منتقل کی ہوئی دولت کا تخمینہ ڈھائی سو ارب ڈالر ہے۔اگر وہ رقم واپس اپنے ملک آ جائے تو نہ صرف قرضہ ختم ہو سکتا ہے بلکہ ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو جائے گا اور ملک ترقی اور کوشحالی طرف گامزن ہونا شروع ہو جائے گا۔۔۔۔۔اب اس نے سب سے بڑے چور کے دماغ سے اپنی اس مہم کا آغاز کیا اور اس کے دماغ تک رسائی حاصل کر لی۔۔۔۔وہ بیرون ملک انتہائی پر تعیش زندگی گذار رہا تھا، غریب قوم کی لوٹی ہوئی دولت سے اس نے محلات اور ایمپائر کھڑی کی ہوئی تھیں، ڈھٹائی اور مکاری کی انتہا یہ تھی کہ وہ اب بھی مسلسل بیرون ملک بیٹھ کر اپنے سیاسی ایجنٹوں کی مدد سے ملکی اداروں میں اثر رسوخ رکھتا تھا۔۔۔۔اس کے دماغ میں جس قدر مفاد پرستی، جھوٹ اور غلاظت بھری ہوئی تھی۔۔۔ایک دفعہ تو اس کا دم گھٹنے لگا۔۔۔ اسے اندازہ ہوا کہ قوموں کا بیڑہ غرق کرنے والوں کے خیالات کس قدر گھٹیا اور ظالمانہ ہوتے ہیں۔۔۔۔بہر حال اب وقت آ گیا تھا کہ وہ اپنے انجام تک پہنچے اور قوم و ملک کی لوٹی ہوئی دولت اس کو واپس ملے۔۔۔۔اس نے اس کے دماغ کو قبضے میں لے لیا۔۔۔اور اس پہ تنویمی نیند طاری کر لی اور اس کے دماغ کو ہدایات دینے لگا۔۔۔۔۔۔کہ کس طرح اس نے اپنے تمام اکاؤنٹس میں جمع شدہ رقم کی تمام دستاویزات کی کاپیاں تیار کرنی ہیں، اور پھر اپنے بینکوں سے رابطہ کر کے اس تمام دولت کو اپنے ملک کے خزانے میں واپس منتقل کرنے کے انتظامات کرنے ہیں اس کے لئے اس کے دماغ کو پابند کر دیا گیا کہ وہ اپنی ساری ٹیم کو اس کام پہ لگا دے گا۔۔۔۔ اس کے بعد فوراً میڈیا سے رابطہ کرے گا اور اور اپنے ان تمام گناہوں کا اقبال جرم کرے گا جو اس سے سرزد ہوئے اور اپنے ملک جانے کے لئے تیاری کرے گا۔۔۔۔۔یہ ہدایات دینے کے بعد اسے سلا دیا اگلی صبح اس نے اس کی دماغی ہدایات کے مطابق کام شروع کر دیا ملک میں موجود اپنے تمام پیرو کاروں کو ہدایات جاری کیں کہ وہ واپس آ رہا ہے اور ایک خاص اعلان کرنے والا ۔۔۔۔اس طرح وہ واپس اپنے ملک پہنچا اور تمام میڈیا کو بلا بھیجا اور ایک زبردست نیوز کانفرس میں لائیو میڈیا میں اپنے تمام قومی دھوکوں، جھوٹ اور کرپشن کا اقبال جرم کیا اور اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کیا اور اپنے تمام ساتھیوں اور کارکنوں کے نام بھی بتا دئیے جو اس کے ساتھ شامل تھے۔۔۔۔متعلقہ اداروں کے سربراہاں کو چونکہ وہ پہلے ہی سے دماغی ہدایات دے چکا تھا لہذا انہوں نے دیر نہیں لگائی اور ا سے قانون کے شکنجے میں جکڑ لیا گیا۔۔۔کچھ ہی دنوں کے بعدد ایک بہت بڑی رقم قومی خزانے میں واپس آ گئی۔۔۔۔ اسی طرح ٹیلی پیتھی کے اس کمال سے بڑے بڑے کاروباری، بڑے سیاسی لیڈروں نے، بیرو کریٹس نے میڈیامیں آ کر اپنے جرائم قبول کئے اور لوٹی ہوئی تمام رقوم واپس قومی خزانے میں جمع کروانا شروع کر دی اس طرح ملک بھر میں ایک لہر چل پڑی۔۔۔۔اب اسے کسی کے دماغ میں جا کر ہدایات دینے کی ضرورت نہیں پڑی۔۔۔کرپٹ خود بخود اداروں کو رپورٹ کر رہے تھے اور لوٹی رقم جمع کروا رہے تھے۔۔۔۔ادارے کے سربراہان ابھی تک اس کے دماغی کنٹرول میں تھے اور وہ انہیں ہدایات دیتا جا رہا تھا۔۔۔۔اب اتنا زیادہ زر مبادلہ ملکی خزانے میں جمع ہو گیا کہ اب اداروں نے اعلیٰ سطح کا اجلاس بلایا اور اس میں عالمی سود خور ادارے کو دعوت دی اور تمام قرضہ واپس کر دیا۔۔۔۔ملکی معیشت ایک دم مستحکم اور طاقتور ہو گئی۔۔۔۔۔پوری دنیا حیران تھی۔۔۔۔۔سب کی نظریں اس ڈوبتے ہوئے ملک کی طرف تھیں ۔۔۔دشمن خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔۔۔لیکن یکایک اس زبردست تبدیلی نے سب کی زبانوں پہ تالے لگا دئیے۔۔۔۔۔۔۔ ملک بھر سے ماہرین کو بلا یا گیا۔۔۔۔صنعتی اور تعلیمی نظام کو عصری تقاضوں کے مطابق استوار کرنا شروع کیا گیا۔۔۔۔صنعتوں کا جال پھیلنا شروع ہوا۔۔دنیا بھر سے تاجروں اور محنت کشوں نے اس ملک کا رخ کرنا شروع کر دیا۔۔۔بیرون ملک کام کرنے والے ہر شعبے سے متعلق افراد واپس اپنے ملک کا رخ کر رہے تھے۔۔۔ہر طرف ، ہر دن بہتری کی طرف جا رہا تھا۔۔۔کرپشن کے خلاف تمام ادارے منظم ہو گئے۔۔۔سب کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔۔۔۔ اور آئندہ کے لئے ایسے قوانین بنا دئیے گئے کہ کوئی بھی عوام کے نام پہ کسی عالمی سودی ادارے سے قرض نہیں لے گا۔۔۔قوم کو اپنی مدد آپ کے اصول پہ اپنے پاؤں پہ کھڑا کرنا ہے اور خود کفالت حاصل کرنی ہے۔۔۔اب نوجوانوں کے لئے ہر طرف بہترین مواقع موجود تھے۔۔۔۔میرٹ کی بنیاد پہ ادارے بننا شروع ہو گئے۔۔۔خوشحالی نے ہر طرف ڈیرے ڈال دئیے۔۔۔۔مارکیٹ اکانومی میں اب اس ملک نے اپنا سکہ جما لیا۔۔۔۔۔دنیا بھر سے سیاح اس خوبصورت ملک کے خوبصورت لوگوں کو دیکھنے آتے اور اس ملک میں تہذیب کی ایک نئے اور اچھوتے انداز سے ترقی کرتے ہوئے دیکھ کر دنگ رہ جاتے۔۔۔۔یہ سب اس’’ باشعور آدمی‘‘ جوکہ گمنام ہیرو تھا اس کے مرہون منت ہوا جس نے بے غرض ہو کر اپنے ملک کو اس بحران سے نکالا تھا جس نے اپنے دماغ کی طلسماتی طاقت سے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔۔۔۔اس نے دماغوں کے اندر پنپنے والے منفی اور مضر خیالات کو مثبت اور مفید خیالات میں بدل دیا تو وہی لوگ جو کل اس ملک اور قوم کو تباہ کر رہے تھے اب وہی اسے ترقی اور خوشحالی کی راہ پہ گامزن کرنے کے لئے شبانہ روز محنت میں مصروف تھے۔۔۔۔۔’’ باشعور آدمی‘‘ کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گیا، اور اس کی بے چینی ختم ہو گئی اور اس کی روح پر سکون ہو گئی کہ لاکھوں انسانوں کے خون کا حق ادا ہو گیاجنہوں نے اس ملک کو وجود میں لانے کے لئے قربانیوں کی تاریخ رقم کی تھی۔۔۔اور وہ اس ملک کا گمنام ہیرو بن گیا۔۔۔۔۔۔۔۔
Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 136724 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More