آزاد کشمیر کے طلباء کا اوڑی حملہ سے کیا تعلق ہے؟

مظفر آباد کے شاہین ماڈل کالج میں زیر تعلیم فیصل کو اوڑی حملے میں کیسے ملوث کیا گیا۔ یہ راز صرف بھارتی فوج کو معلوم ہے۔ مظفر آباد سے چند کلو میٹر کی دوری پر واقع کومی کوٹ ہے جو سیکنڈ ائر میں زیر تعلیم 19سالہ فیصل کا آبائی گاؤں ہے۔ یہاں زین اکبر کا کریانہ سٹور ہے۔ جن کا ایک بیٹا ڈاکٹر ہے۔دوسرا بیٹا یاسر بی ایس سی کا طالب علم ہے۔ فیصل کو وہ پری میڈیکل کی تعلیم دلا رہے تھے۔ علاقے میں ان کا شمار خوشحال خاندانوں میں ہوتا ہے۔ فیصل صحت افزاء مقام پیر چناسی کی سیر کے بعد چکوٹھی دیکھنے چل پڑا۔

اوڑی حملہ کے بعد بھارتی فوج نے آزاد کشمیر کے دو نوجوانوں کی گرفتاری کا دعویٰ کیا۔ ان میں سے ایک نام بھارتی میڈیا نے فیصل حسین اعوان ولد گل اکبر ساکنہ پوٹھا جہانگیر مظفر آباد اور دوسرے کا یاسین خورشید والد محمد خورشید ساکنہ کھلانہ کلاں مظفر آباد بتایا۔ آج یہ دونوں نوجوان بھارتی انٹلی جنس ایجنسی این آئی اے کی حراست میں ہیں۔ جس نے ان سے 28ستمبر کو 10دن کے لئے ریمانڈ پر لیا ہے۔ انہیں جموں کی ایک عدالت نے ریمانڈ پر دیا۔ دہلی میں ان پر ظاہر تشدد ہو رہا ہو گا۔ بھارتی فوج نے پہلے اعتراف کیا کہ انہیں اوڑی کے ایک گاؤں سے حراست میں لیا گیا۔ جو جنگ بندی لائن پر واقع ہے۔ یہ بھی اعتراف کیا گیا کہ تفتیش کے دوران دونوں نے کہا کہ وہ غلطی راستہ بھول کر یہاں پہنچے ہیں۔ بھارتی فوج کو فیس سیونگ کی ضرورت تھی۔ اس نے اوڑی حملہ سے ان طلباء کا تعلق جوڑ دیا۔ ان کو اوڑی کے حملہ آوروں کے گائیڈ کے طور پر پیش کیا۔ گائیڈ لفظ سے عمومی طور پر ٹور ازم سے متعلقہ افراد زیادہ واقف ہوتے ہیں۔ کشمیر میں مسلح جدوجہد کے بعد سے اس لفظ کو ان افراد کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے جو جنگ بندی لائن پار کرنے کے راستوں سے آشنا ہوتے ہیں۔ کومی کوٹ کا کوئی طالب علم چکوٹھی کے ان خفیہ راستوں سے کیسے واقف ہو سکتا ہے کہ جن سے وہ اوڑی کے حملہ آوروں کو آسانی کے ساتھ پاکستان اور بھارت کی فوج سے بچاتے ہوئے مہورہ تک لے گیا۔ بھارتی میڈیا کہتا ہے کہ انٹروگیشن کے دوران پہلے ان نوجوانوں نے کہا کہ وہ راستہ بھول کر جنگ بندی لائن پا ر آ گئے۔ جو خود راستہ بھول جائے وہ کسی مسلح گروپ کو کیسے راستہ دکھا سکتا ہے۔ پھر جب ان پر تشدد ہو ا ہو گا تو ظاہر کہ انہیں یہ تسلیم کرنے پر مجبور کیا گیا ہو گا کہ وہ گائیڈ ہونے کا اعتراف کریں تو جان بچ جائے گی۔ ان نوجوانوں نے ایسا ہی کیا۔ بھارتی میڈیا نے ان کے گائیڈ ہونے سے متعلق فوج سے منسوب یہ دلیل بھی دی کہ ان نوجوانوں کو اوڑی حملہ میں مارے گئے چار مسلح جنگجوؤں کی تصاویر دکھائی گئیں۔ انہوں نے ایک کی شناخت حافظ احمد ولد فیروز ساکنہ دربھنگ مظفر آباد کے طور پر کی۔ اوڑی حملہ کی منصوبہ بندی کرنے والوں کا نام محمد کبیر اعوان اور بشارت کے طور پر ظاہر کیا گیا۔ بھارتی وزارت خارجہ میں پاکستانی ہائی کمشنر عبد الباسط کو طلب کر کے انہیں اوڑی حملہ میں پاکستان کے ملوث ہونے کے یہی شواہد دیئے گئے۔ اس موقع پر بھارتی خارجہ سیکریٹری ایس جے شنکر کو پاکستانی ہائی کمشنر نے بتایا کہ بھارت اگر اوڑی حملہ کے بارے میں سچ معلوم کرنا چاہتا ہے تو وہ تحقیقات کے لئے آزاد انوسٹی گیٹرز کو آنے کی اجازت دے۔ لیکن بھارت اس پر آمادہ نہیں۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم نواز شریف کے خطاب سے دو دن قبل اوڑی حملہ ہو گیا۔ جس میں 19بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے۔ پاکستان کے وزیراعظم اس بار دنیا کے سامنے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے قتل عام اور نسل کشی کے حقائق رکھنا چاہتے تھے۔ اوڑی حملہ کے بعد فضا بھارت کے حق میں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ جس کی آڑ میں آزاد کشمیر میں سرجیکل سٹرائکس کا شوشہ چھوڑ ا گیا۔ یہ سرجیکل حملہ اوڑی حملہ کے دس دن بعد ہوا۔ جس کے بارے میں بھارت نے تفصیل جاری کی ہیں کہ آپریشن بدھ اور جمعرات کی رات ساڑھے بارہ بجے شروع ہوا۔ کمانڈوز کو جنگ بندی لائن پر ائر ڈراپ کیا گیا۔ وہاں سے انہوں نے جنگ بندی لائن پار کی۔ وہ تین کلومیٹر تک آاد کشمیر میں گھس گئے۔ انہوں نے بھمبر، تتہ پانی، کیل، لیپا سیکٹرز میں 500تا دو کلو میٹر اندر جاکر حملے کئے۔ سات لانچ پیڈز کو تباہ کر دیا۔ 38جنگجو اور پاک فوج کے دو اہلکار مار دیئے۔ ہیلی کاپٹرز استعمال کئے گئے۔ آپریشن ساڑھے چار بجے صبح ختم ہو گیا۔

پاکستان ان سرجیکل سٹرائکس کی تردید کر رہا ہے۔ یہ درست پے کہ بھارتی فوج جنگ بندی لائن پر چند مقامات پرپاک فوج کی چوکیوں پر گولہ باری کر رہی ہے۔ یہ معمول کی گولہ باری اور فائرنگ ہے جو 1989سے 2003تک مسلسل جاری رہی۔ بھارتی فوج نے جنگ بندی لائن کے آر پار سول آبادی کو بھی نشانہ بنایا جس میں ہزاروں شہری شہید ہو گئے۔ اس گولہ باری کا نشانہ سکول اور ہسپتال بھی بنائے گئے۔ جن میں طلباء اور مریض بھی بھارتی جارحیت سے شہید ہو ئے۔ 2003کے بعد بھارت وقفے وقفے سے ضرورت کے مطابق گولہ باری کرتا ہے۔ کوئی سرجیکل حملہ نہیں ہوا۔ اس سرجیکل حملہ کے بارے میں سرینگر میں معروٖٖف صحافی یوسف جمیل اور فیاض بخاری نے تصدیق کرنے کے لئے رابطہ کیا ۔ میں اسی وقت وادی نیلم میں جنگ بندی لائن کا دورہ کرنے کے بعد مظفر آباد پہنچا تھا۔ سچ بتا دیا کہ کوئی سرجیکل حملہ نہیں ہوا۔ لوگ ہر طرح سے تیار ہیں۔ وہ جنگ نہیں چاہتے۔ اگر جنگ مسلط کی گئی تو وہ اپنے بچوں سمیت پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑیں گے۔ انہوں نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ جانی و مالی نقسان برداشت کیا ہے۔ ہجرت بھی کی۔ اب و ہ مورچوں کی دوبارہ مرمت کر رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کیمون کے ترجمان نے بھی بھارت کے کسی سرجیکل سٹرائیک کی تردید کر دی ہے۔ جنگ بندی لائن پر اقوام متحدہ کی فوجی مبصرین کو بھی کوئی سرجیکل سٹرائیک نظر نہیں آئی۔ مگر بھارت اقوام متحدہ کو بھی جھٹلا رہا ہے۔ آزاد کشمیر کے معصوم طلباء کو اوڑی حملہ آوروں کے گائیڈ کے طور پر پیش کر کے بھارت نے جو ڈرامہ بازی کی ہے، وہ مضحکہ خیز ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آزاد کشمیر کے طلباء کو چکوٹھی کی سیر کے دوران بھارتی فوج نے اغواء کر کے اوڑی حملہ میں ملوث کر دیاہے۔ جو کہ بھارتی عوام اور دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔ بھارت سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی اور قتل عام بند کرے اور آزاد کشمیر کے طلباء سمیت گرفتار کشمیریوں کی غیر مشروط اور فوری ریائی یقینی بنائے۔بھارت ان ڈراموں کی مدد سے اقوام متحدہ کے زیر نگرانی کشمیر میں رائے شماری سے فرار نہیں ہو سکتا۔
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 486989 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More