ہمارا علمی اور تہذیبی ورثہ تباہی کے دہانے پر

ہماری لغات اور دو سو سالہ علمی ذخیرے کو بے اثر کرنے کے لیے سامراج نے فکری گمراہی میں ڈوبا ہوا نصابی اور تدریسی فلسفہ ایک مکمل نظامِ تعلیم کے طور پر پاکستان میں رائج کیا ہے۔ اس فلسفے کے تحت اردو لکھتے اور بولتے ہوئے عام فہم اردو کی اصطلاحات و الفاظ کی بجائے انگریزی کی اصطلاحات و الفاظ استعمال کیے جائیں۔ اس تہذیب کُش اور اور فہم کُش فلسفے کا نام سامراج نے " ڈائیریکٹ میتھڈ" رکھا ہے۔ اس فلسفے کی رو سے 2003 میں پہلی جماعت سے لے کر دسویں جماعت تک تمام سائنسی مضامین کی اصطلاحات و الفاظ کو " اندھے کی ٹیڑھی کھیر "بنا دیا جس کا کھانا اور کھلانا بچے اور اُستاد دونوں کے لیے ناممکن ٹھہرا۔ ہمارے سائنسی نصاب کو ماحول اور زبان سے کاٹنے کا یہ عمل نصاب کو معیاری اور جدید بنانے کے نام پر کیا گیا۔

ایک بچہ پانچویں جماعت میں پڑھتا ہے اسے اُس کا استاد اس کی سائنس کی درسی کتاب سے اُردو تحتُ اللفظ میں لکھے ہوئے الفاظ ہربی وورز، کارنی وورز اور اومنی وورز تفصیل ، معانی اور مثالوں کے ذریعے سمجھاتا ہے پھر بچے سے کہتا ہے کہ وہ یہ سبق یاد کرنے کے بعد زبانی اپنے الفاظ میں سُنائے یا لکھ کر دکھائے۔ بچہ اومنی وورز کو کارنی وورز اور کارنی وورز کو ہربی وورز سمجھتا ہے اور بار بار بھولتا ہے۔ ایسا کرنے کے لیے اسے فقط رٹّے کا ہی سہارا کیوں لینا پڑتا ہے۔اس لیے کہ ہربی وورز، کارنی وورز اور اومنی وورز جیسے الفاظ ہمارے ماحول، زبان، تہذیب ، ثقافت، لُغات اور علمی ورثے سے کٹے ہوئے ہیں۔ بچے کو یہ الفاظ نصاب میں پڑھنے کے لیے نصابی اور ابلاغی قواعدوضوابط کے مطابق دیے ہی نہیں جا سکتے چاہے ان کو اردو رسم الخط میں لکھا جائے یا انگریزی میں۔ اس لیے کہ ان الفاظ میں وہ فہم، جاذبیت، اثر پزیری، دلچسپی، ابلاغی قوّت اور دیرپا یاداشت کا حصہ بننے کی صلاحیّت نہیں ہے۔ اس کے برعکس سبزہ خور، گوشت خور اور ہمہ خور جیسے الفاظ جو اپنے معنی خود دیتے ہیں اور مذکورہ نصابی اور ابلاغی خوبیوں سے متصّف ہیں۔ بچے کو پڑھنے، لکھنے، یاد کرنے اور یاد داشت کا حصہ بنی چیز کو اپنے الفاظ میں تحریری اور تقریری طور پر بیان کرنا آسان ہوتا ہے۔ یہی فطری نصاب ہے۔ یہی بچہ پڑھے گا تو اس کی تخلیقی اور تحقیقی صلاحتیں اُجاگر ہوں گی۔ وہ رٹے رٹائے الفاظ کے ذریعے فقط نمبر لینے کا نہیں سوچے گا بلکہ اپنے تصورات و خیالات کا اظہار اپنے الفاظ میں کرنے کے قابل ہوگا۔

"ڈائریکٹ میتھڈ" ایک ایسی من گھڑت اور خانہ ساز اصطلاح ہے جس کا تعلیم و تدریس کے اصولوں سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ یہ سامراجی سازش کدوں میں بیٹھ کر تیار کیا جانے والا فارمولا رٹے بازی کو فروغ دینے، فہم و ابلاغ میں رکاوٹیں ڈالنے اور قوم کے تہذیبی اور ثقافتی اجزائے ترکیبی کی بیخ کنی کرنے کے لیے سب سے زیادہ کارگر حربے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔آجکل ڈی ایس ڈی (ڈائریکٹوریٹ آف سٹاف ڈویلپمنٹ ) لاہور میں اسی زہر آلود سامراجی ساختہ طریق ِ نصاب و تدریس کی تربیت دی جا رہی ہے جہاں پوری قوم کو پٹری سے اتارنے اور اسے فطرت گریز راستوں کا ہمسفر بنانے کی جہادی روح کے ساتھ تربیت دی جارہی ہے اور اربوں روپے قوم کے اساتذہ کو دماغی غسل (brain wash) دینے کے لیے خرچ کیے جا رہے ہیں تاکہ استاد کو پڑھانے کے لیے ہی ایسی چیز دی جائے جسے سو دفعہ بھی پڑھا دیا جائے مگر بچہ صرف رٹہ ہی لگانے پر مجبور ہو۔کیا سامراجی طاقتوں کے میں بارے ابھی تک ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ وہ ہمیں امداد کے نام پر پیسے دیں گی تاکہ ہم تعلیم میں ترقی کر جائیں ۔ بقولِ شاعر کہ
حسینوں سے عہدِ وفا چاہتے ہو
بڑے ناسمجھ ہو یہ کیا چاہتے ہو

سامراجی سازشوں کے زہر میں بجھے ہوئے " ڈائریکٹ میتھڈ" کے نشتروں نے نصاب اور تدریس کو اس قدر مسموم اور زہر آلود کر دیا ہے جس سے خرمنِ فہم و ابلاغ، تمدّن و تہذیب کے گل و گلزار اور ادب و ثقافت کے لالہ زار انتہائی سرعت رفتاری سے جل کر راکھ کے ڈھیر میں بدل رہے ہیں۔ اس نصابی اور تدریسی دہشت گردی نے پورے ملک کے عموماً اور صوبہ پنجاب کے خصوصاً نظامِ تعلیم کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے جو ہمیں پتھر کے دور میں لے جانے کے لیے کافی ہے۔

ماہرینِ لسانیات کے مطابق کسی قوم کی تہذیب و ثقافت کی تشکیل میں ستر فیصد کردار اس کی زبان ادا کرتی ہے اور زبان کی ترویج و ترقی میں سب سے کلیدی کردار نصابِ تعلیم کا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سامراجی طاقتوں نے جس ملک میں بھی ڈیرہ جمایا ہے سب سے پہلے وہاں کے نصابِ تعلیم کو لوگوں کی زبان سے کاٹا ہے۔ دراصل یہ لارڈ میکالے کا ہی فلسفہ ہے جسے مختلف نام دے کر مختلف پُرکشش پیکجوں میں لپیٹ کر مختلف ممالک میں نافذ العمل کرنے کے اقدامات کیے جاتے ہیں۔

لارڈ میکالے کے فلسفے کو دیکھیں کہ اسےکس انداز میں پروان چڑھایا جا رہا ہے ۔ پنجاب میں سکول اساتذہ کو جو "دستور العمل: کتابی صورت میں دیا گیا ہے اس میں یہ عبارت ملاحظہ کریں کہ " انگریزی کو مادری زبان کی طرح پڑھائیں اور انگریزی الفاظ کا ترجمہ نہ کریں" یہ لارڈ میکالے کی سوچ سے غذا حاصل کرنے والا وہی " ڈائریکٹ میتھڈ" ہے جسے پرانے شکاری نئے جال کے روپ میں پیش کر رہے ہیں۔ اس کے تحت اردو کے عام فہم الفاظ انگریزی کے نیچے جبراً دبائے جا رہے ہیں۔اردو کے رُخِ زیبا کو ایسا بنانے کی کوشش ہو رہی ہے جیسے کسی خوبرو چہرے پر تیزاب ڈال کر جھُلسا دیا جائے۔
Ishtiaq Ahmad
About the Author: Ishtiaq Ahmad Read More Articles by Ishtiaq Ahmad: 52 Articles with 169109 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.