سردار عباس اب رک جانا

سابق ضلع ناظم چکوال سردار غلام عباس کا شمار ضلع چکوال کے خوش قسمت ترین اور مقبول ترین سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ان کے بغیر چکوال کی سیاست مکمل نہیں ہوتی۔ جب 2013ء کے الیکشن سے پہلے پاکستان تحریک انصاف میں گئے تھے اور پھر الیکشن ہونے سے پہلے ہی راستے جدا کر لئے تھے اُس وقت میں نے ایک کالم لکھا تھا ’’سردار عباس کے غلط سیاسی فیصلے‘‘۔ اُس میں بھی چند خدشات کا ذکر کیا تھا۔ اب حالیہ بلدیاتی انتخابات میں اپنی اہمیت منوانے کے بعد سردار عباس پھر خبروں کا مرکز رہے اور اُنہوں نے کچھ اور سوچنے کی تیاری کی۔ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کے حوالے سے خبریں کافی عرصے سے گردش کر رہی تھیں مگر چند دن پہلے لاہور میں حمزہ شہباز کے ساتھ ملاقات کے بعد باقاعدہ اعلان شمولیت کیا۔ اگرچہ ان کی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت پر چکوال کے ارکان پارلیمنٹ زیادہ خوش نہیں ہیں مگر سردار ذوالفقار دُلہہ کے علاوہ باقی سب پرانی تنخواہ پر کام کرتے رہیں گے۔ سردار ذوالفقار دُلہہ کو بھی میرا مشورہ ہے کہ وہ جذباتی پن ختم کریں اور جس طرح عوام کی خدمت کر رہے ہیں اس تسلسل کو جاری رکھیں۔ اُن کی پارٹی میں جو پوزیشن ہے وہ کوئی نہیں چھین سکتا۔ یہ کہنا کہ سردار غلام عباس چوہدری لیاقت کی مرضی کے بغیر مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گئے ہیں میرا دل نہیں مانتا۔ میرے خیال میں سب کچھ باقاعدہ منصوبہ بندی سے ہوا ہے۔ چوہدری لیاقت چکوال مسلم لیگ (ن) کے واحد سیاستدان ہیں جن پر میاں برادران کو انتہاء کا اعتماد ہی نہیں بلکہ ان پر فخر بھی کرتے ہیں۔ چونکہ یہی چوہدری لیاقت ہیں جو مشرف کی سخت ترین آمریت میں بھی اپنی ہمدردیاں نہ بدل سکے اس لئے میرا یقین ہے کہ چوہدری لیاقت کو ضرور اعتماد میں لیا گیا ہو گا اور پھر سردار عباس کی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کے بعد چوہدری لیاقت کی رہائش گاہ پر آنا بھی بہت کچھ بتا رہا ہے۔ سردار غلام عباس نے جو فیصلہ کیا ہے وہ اپنے سیاسی کیرئیر کو بچانے کے لئے کیا ہے کیونکہ اُن کو بخوبی علم ہے کہ اگر ایسے ہی حالات رہے تو 2018ء کے الیکشن بھی مسلم لیگ (ن) ہی جیتے گی اور اگر نہ بھی جیت پائی تو کم از کم پنجاب تو ان کے پاس ہی رہے گا اس لئے اپنی سیاسی کرسی کی حفاظت کے لئے اُن کو یہ قدم اُٹھانا پڑا۔ اُنہوں نے اپنے کارکنوں سے مشاورت کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا مگر کمال جاؤں ایسے جانثاروں پر جو چوک چوراہوں پر بیٹھ کر گھنٹوں ایسے لوگوں پر اپنا وقت ضائع کرتے ہیں جو ان کو اپنے فیصلے کرتے وقت اعتماد میں بھی نہیں لیتے۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کی صوبائی قیادت نے بھی جو فیصلہ کیا انہوں نے بھی اپنے ایسے کارکنوں کی قربانیوں کو یکسر فراموش کر دیا جنہوں نے مشرف دور میں بے پناہ قربانیاں دیں یہاں تک کہ خود پر کیس بھی بنوائے اور پابند سلاسل بھی رہے۔ سردار عباس کو اپنا سیاسی کیرئیر عزیز تھا اور ہے اور مسلم لیگی قیادت نے سردار عباس کو لینا تھا سو لے لیا کوئی کیا سمجھتا ہے کسی کے دل پر کیا گذرتی ہے اس سے مسلم لیگ (ن) کو کتنا فائدہ ہو گا یا کتنا نقصان، ان تمام باتوں سے مسلم لیگی قیادت کو کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ سردار عباس نے اپنا سیاسی کیرئیر بچایا ہے اسی لئے اُنہوں نے مضبوط جماعت میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ اگر چکوال کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو چکوال میں سیاست کے دو رُخ ہیں ایک سردار اور دُوسرا اینٹی سردار۔ اس لئے جو لوگ سردار عباس کی سوچ سے اختلاف رکھتے ہیں وہ کبھی بھی مسلم لیگ (ن) کو ووٹ نہیں دیں گے۔ یہ کہنا کہ اُن کے شامل ہونے سے چکوال میں اپوزیشن ختم ہو جائے گی قطعی طور پر ٹھیک نہیں ہے۔ جن جن کو مسلم لیگ (ن) کی پالیسیوں سے اختلاف ہو گا وہ پی ٹی آئی میں جائیں گے اور جو سردار عباس کے اس فیصلے سے اختلاف رکھتے ہیں وہ بھی پی ٹی آئی میں جانے کا سوچیں گے۔ میرے خیال میں اس تمام تر سیاسی تبدیلی میں مردہ پی ٹی آئی کے بدن میں جان آئے گی۔ اس کے علاوہ پہلے سے موجود 9 ارکان پارلیمنٹ اور پھر سردار عباس جیسی بھاری بھر کم شخصیت کا ایک ساتھ رہنا بہت مشکل ہو گا اور شاید حکومت کے لئے سب کو ساتھ رکھنا اور چلانا ممکن نہ ہو۔ سردار عباس کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی ایک پارٹی میں رہ نہیں سکتے، چونکہ اُن کے پاس ذاتی ووٹ بنک ہے اور وہ اسی ووٹ بنک کی بنیاد پر اپنی اہمیت منوانا چاہتے ہیں، ان کو نمایاں رہنے کا شوق ہے اور یہ کسی کے نیچے رہ کر کام نہیں کر سکتے۔ اب اگر وہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو ہی گئے ہیں تو پھر اس میں رک بھی جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ 2018ء کے الیکشن سے پہلے ہی واپسی کا راستہ اختیار کر لیں۔ مسلم لیگ (ن) کے نظریاتی کارکن شاید اُن کو قبول نہ کریں۔ مسلم لیگ (ن) کی صوبائی قیادت نے فیصلہ کرتے وقت اپنے نظریاتی کارکنوں کے جذبات کا خیال نہیں رکھا۔ جو فیصلہ کرنا تھا کر کے عوام کو سنا دیا۔ جس شیر کو گذشتہ 30 سالوں سے گالیاں دیتے رہے آج اُسی شیر کو گود میں بٹھا کر فوٹو شیئر کئے جا رہے ہیں۔ یہ کہنا کہ سردار عباس بلامشروط مسلم لیگ میں شامل ہوئے ہیں ٹھیک نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق اُن کو وزیر اعلیٰ کا سیاسی مشیر بنایا جا رہا ہے۔ حلقہ این اے 61 میں ایڈجسٹ کیا جائے گا یا پھر 2018ء کے الیکشن سے پہلے مردم شماری ہونے کی صورت میں ایک قومی اور ایک صوبائی حلقے کا اضافہ ہو گا اور یہ دونوں سیٹیں سردار عباس کو دی جا سکتی ہیں۔ سردار عباس کے بڑے مخالف جنرل مجید ملک گروپ کے ملک نعیم اصغر کو ڈسٹرکٹ چیئرمین پر راضی کیا جائیگا یعنی دُوسرے لفظوں میں حکمران جماعت سب کو کچھ نہ کچھ دے کر راضی کرے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس فیصلے سے مسلم لیگ (ن) کو کتنا فائدہ ہو گا۔ اس فیصلے کے اثرات وقت کے ساتھ ساتھ ظاہر ہوں گے۔ سردار عباس کو (ن) لیگ میں شامل کرنا اسی ہی ہے جیسے اونٹ کو عربی کے خیمے میں کچھ جگہ دینا، بہت جلد اونٹ خیمے کے اندر ہو گا اور عربی باہر بیٹھا ہو گا۔ یقینی طور پر سمجھ دار لوگوں کیلئے اشارہ کافی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ کس طرح کی سیاسی تبدیلیاں آتی ہیں۔ اگرچہ صوبائی قیادت کے یہ تمام تر فیصلے حالیہ ضمنی انتخابات کی روشنی میں کئے گئے ہیں چونکہ 2013ء کے الیکشن میں جو لیڈ 35 سے 40 ہزار کی تھی وہ اب 5 سے 6 ہزار کی لیڈ رہ گئی ہے اس لئے صرف چکوال میں ہی نہیں دُوسرے اضلاع میں بھی اسی طرح ہمدردیاں حاصل کی جا رہی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اتنے سارے بھاری بھر کم سیاستدانوں کو ایک ساتھ بٹھانا بہت مشکل ہو گا اور شاید حکمران جماعت کیلئے بھی سب کو راضی رکھنا ممکن نہ ہو۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ چکوال کی تمام قومی اور صوبائی سیٹیں مسلم لیگ (ن) نے جیتیں اس کے باوجود یہ اکھاڑ پچھاڑ کیوں کی جا رہی ہے اور یہ سمجھنا کہ چکوال سے اپوزیشن کا خاتمہ ہو جائے قطعی طور پر درست نہیں ہے۔ اپوزیشن کا وجود بہرحال موجود رہے گا چاہے وہ پی ٹی آئی کی شکل میں ہو یا پھر کسی اور جماعت کی شکل میں۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
Javed Iqbal Anjum
About the Author: Javed Iqbal Anjum Read More Articles by Javed Iqbal Anjum: 79 Articles with 57174 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.