مقصد ۔۔۔ دوسری قسط

کشمیر کے پس منظر میں لکھی گئی یہ کہانی گو کہ سچی نہیں ہے لیکن جس مقصد کے لیئے لکھی گئی ہے وہ بلکل سچا ہے ۔ کشمیر ہماری شہ رگ ہے اور رہے گا کوئی چاہیئے جتنی درندگی دکھا لے جتنے چاہیئے برہان وانی مار ڈالے کشمیر کی قمست میں ایک دن پاکستان بننا لکھا ہے ۔

سعید ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فاطمہ نے سعید کو پکارا اور ہاتھ سے اس کا کندھا ہلایا ۔ کیا ہوا فاطمہ۔۔۔۔ سعید نے بند ہوتی آنکھوں سے اس کو دیکھا اور پوچھا ۔ باہر کوئی ہے ۔۔۔۔

کوئی صحن میں ہے ۔ فاطمہ نے سرگوشی کی ۔ کیا سعید کی آنکھیں پوری کھل گئیں ۔ کون ہے؟؟؟ مجھے کیا معلوم فاطمہ نے پھر کہا ۔ اچھا میں دیکھتا ہوں سعید بولا اور آہستہ سے اٹھا اور ساتھ میں وہ ہاکی بھی اٹھا لی جو وہ گھر میں رکھتے تھے اپنی حفاظت کے لیئے ۔فاطمہ بھی سعید کے پیچھے کھڑی ہوگئی ۔ سعید نے آہستہ سے دروازہ کھولا اور باہر نکلا چارپائی پر اسے کوئی لیٹا دیکھائی دیا ۔ سعید نے لائٹ جلانی چاہی لیکن فاطمہ نے اسے منع کردیا نہ جانے کیوں فاطمہ کی چھٹی حس کہے رہی تھی کہ نے والا کوئی دشمن نہیں ہے اس لیئے فاطمہ لائٹ جلا کر کوئی مصیبت نہیں مول لینا چاہتی تھی سعید چارپائی کے قریب گیا اور سونے والے کا کندھا ہلایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کون ہو تم ؟

چارپائی پر سونے والا اٹھ کھڑا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کون ہو تم اس دفعہ سعید نے نرمی سے پوچھا ۔ اجنبی کے حلیے سے سعید کو کچھ کچھ اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ کون ہوسکتا ہے ۔

پہچان تو گئے ہو پھر کیوں سوال کررہے ہو باربار ۔ اجنبی مسکراتے ہوئے بولا
تمھیں کسی نے دیکھا تو نہیں سعید نے اس سے اپنی تسلی کے لیئے پوچھا نہیں ایسا کچھ نہں ہے دیکھ کے آیا ہوں.

اندر چل کر آرام سے لیٹ جاو تھکے ہوئے لگتے ہو ۔ سعید بولا اور اجنبی جو کہ سعید کے لیئے بلکل اجنبی نہیں تھا سعید کے ساتھ اندر والے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ باہر صحن میں رات کے اس پہر بیٹھنا خطرناک بھی ہوسکتا تھا۔ بھارتی فوجی نہ جانے کب ادھر آنکلتے ۔۔۔

اندر پہنچ کر مہمان نے شال کاندھوں سے ہٹائی اور سوئے ہوئے احمد کے ساتھ ہی لیٹ گیا جہاں کچھ دیر پہلے سعید سو رہا تھا ۔ سعید نے ایک نظر اس کے تھکے ہوئے چہرے پر ڈالی اور کمرے سے باہر نکل آیا ۔

فاطمہ کو احساس ہوچکا تھا کہ یہ مہمان کون ہے اس لیئے وہ کچن میں چلی گئی کھانے کا انتظام کرنے کہ نہ جانے یہ کب کا بھوکا ہوگا فاطمہ نے پہلے چائے کا پنی چولہے پر رکھ دیا سردی بھی تو کڑا کے کی تھی۔

انے والا مہمان سعید اور فاطمہ کے لیئے اجنبی نہیں تھا وہ سعید کا چھوٹا بھائی تھا جو مجاہدین کی صف میں کھڑا کشمیر کی آزادی لے لیئے جدوجہد کررہا تھا ۔

سعید کچن کی طرف چلا آیا۔ فاطمہ کیا کررہی ہو وہ تھکا ہوا ہے سوگیا ہے اچھا ہے اسے سونے دو اٹھے گا تو کھانا بنا دینا اسے ۔

آنے والے مہمان کا نام طلال تھا۔ سعید اور طلال دو ہی بھائی تھے ان کے والدین بھارتی فوج کی بربریت کا شکار ہوچکے تھے اس لیئے گھر کی ذمہ داری اب سعیدکے کندھوں پر تھی اور وہ اس ذمہ داری کو بخوبی نبھا بھی رہے تھے ۔وقت اور حالات نے انہیں زیادہ پڑھنے نہیں دیا تھا لیکن وہ چاہتے تھے کہ طلال پڑھ جائے تاکہ وہ اسے بھارتی فوج کی بڑھتی درندگی سے دور بھیج سکیں تاکہ وہ سکون کی زندگی گزار سکے جو کے دنیا کے دوسرے انسانوں کی طرح اس کا بھی حق تھا ۔ مگر طلال ایک کشمیری نوجوان تھا اور کشمیر کا ہر فرد حساس دل رکھتا ہے طلال بھی اپنی عمر سے بڑھ کر سوچنے لگا تھا اس کا خیال اپنے بڑے بھائی سے بلکل الگ تھا وہ صرف اپنی دنیا کو سنوارنے کے بجائے سارے کشمیر کی لوگوں کی دنیا سنوارنا چاہتا تھا جو کہ مشکل ضرور تھا مگر ناممکن نہیں تھا بس جدوجہد کی ضرورت تھی ۔ کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے سن سن کر جوان ہونے والا کشمیری نوجوان طلال کیسے کشمیریوں بھائیوں کو چھوڑ کر اپنی الگ دنیا بنانے نکل کھڑا ہوتا اس کی دنیا اپنے کشمیر سے ہی وابستہ تھی جس کو پاکستان بنانا تھا اس لیئے اپنے بڑے بھائی کی ہر بات مانے والا طلال اس بات ہر بھائی کا ساتھ نہ دے سکا اور ۔ آزادی کی تحریک میں شامل ہوگیا اور آج پورے دو سال بعد وہ واپس آیا تھا رات کے اس پہر اپنے ہی گھر میں دیورا پھلانگ کر۔۔۔۔صبح ہوچکی تھی۔ سعید اور طلال ناشتے سے فارغ ہوچکے تھے اور اب دوںوں بھائی کمرے میں بیٹھےتھے فاطمہ چائے کے تین کپ ٹرے میں رکھ کر لے آئیبھابھی کو دیکھ کر طلال بولا بہت دنوں بعد سکون سے گھر کا کھانا کھایا ہے۔ طلال کی بات پر فاطمہ مسکرا دی اور اس کو چائے دیتے ہوئے کہا لو چائے پیو اور بتاو دوپہر میں کیا کھانا پسند کرو گئے آج آئے ہو تو تمھاری پسند کا کچھ بنا دیتی ہوںسعید بھی بولا بلکل آج طلال کی پسند کا کھانا بنےگا۔ تم مجھے لسٹ بنا دینا میں دکان سے تمام سودا لادوں گا ۔ فاطمہ نے احمد کو بستر سے اٹھاتے ہوئے کہااچھی بات ہے بنادوں گی لسٹ ۔ پھر طلال سے مخاطب ہوئی طلال بھتیجے سے ملے ہو بلکل تم پر گیا ہے۔طلال بولا یہ اٹھے گا تو اس کو مجاہدین کی بہت سی باتیں بتاوں گاتاکہ اس کے اندر بھی وہی ولولہ بیدار ہوسکے جو کشمیر کے ہر بچے کے اندر ہے ۔طلال کی بات سن کر سعید اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا طلال اور فاطمہ نے سعید کو دیکھا مگر بولے کچھ نہیں ۔ سعید کی آواز کمرے میں گونجی نہیں طلال ایسا متکرنا اس کو اس راستے پر نہیں چلنے دینا جس پر تم چلے تم جانتے ہو تمھیں بھی میں نے کتنا روکا لیکن تم نے اپنی منوا کے چھوڑیکیا ملا تمھیں بتاو مجھے سوائے اپنوں سے دوری کے کیا ملا تمھیں !

جاری ہے ۔۔۔

Binte Ahemd
About the Author: Binte Ahemd Read More Articles by Binte Ahemd: 28 Articles with 24024 views I know that I m Some thing bcoz ALLAH Doesn't create garbage .. View More