ایم کیو ایم پاکستان کیلئے لمحہ فکریہ۔۔؟؟

سن انیس سو پچاسی کے الیکشن سے گزشتہ الیکشن سن دو ہزار تیرہ تک سندھ کے بڑے شہروں میں راج کرنے والی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم ) بانی تحریک کے مسلسل ملک مخالف بیانات کے سبب اپنی حیثیت زائل کرتی چلی گئی۔۔ ایم کیو ایم تقریبا پانچ سے زائد بار حکومت کا حصہ بنی رہی اور وزارت کے قلمبندان بھی لیئے، یہی نہیں شہری حکومت مسلسل ایم کیو ایم کے ماتحت رہی ہے اور اب بھی شہری حکومت ان کے پاس موجود ہے۔۔میرے صحافی دوست مجھ سے بار ہا بار بحث کرتے ہیں کہ ایم کیو ایم نے سندھ سمیت وفاق میں بھی وزرات کا قلمدان رکھا لیکن ان تمام آئینی حقوق کے با وجود ایم کیو ایم نے اردو بولنے والے سندھ کے شہریوں کے حقوق کیلئے جامع پلان تیار نہیں لیا اور نہ ہی کوٹہ سسٹم کے خاتمے کیلئے اپنے دور اقتدار میں عملی کردار ادا کیا، ان کے مطابق ایم کیو ایم نے مہاجر نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اور مثبت راہ کیلئے کوئی خاظر خواہ اقدامات بھی نہیں کیئے۔ دانشوروں اور مفکروں کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم اگر اپنی قوم سے مخلص ہوتی تو ایک بھی دانشور ٹارگٹ کلنگ کی نظر نہیں ہوتا، یوں تو ایم کیو ایم کے با اختیار زمانے میں پرندہ بھی پر نہیں مارتا تھا تو اس دور میں ہمارے عظیم دانشور وں کا قتل عام کیوں کر ہوا۔۔؟؟ ان کے مطابق معروف حکیم و سابق گورنر حکیم سعید، دادا بھائی سمینٹ کے مالک، تکبیر کے مالک اور سینئر صحافی صلاح الدین ، رئیس امرہوی اور ان جیسے بے شمار اردو بولنے والے اور تحریک پاکستان کے ساتھیوں کا قتل بھی اسی جماعت نے کیا۔ان دانشوروں نے کہا کہ سو سنار کی ایک لوہار کی اور ظالم کی زندگی زیادہ دیر تک نہیں رہتی اب اللہ کی پکڑ آ ں پہنچی ایم کیو ایم اللہ کے غضب سے محفوظ نہیں رہ سکتے جس نے ظلم و بربریت کا بازار گرم کیا اب وقت قریب ہے کہ اس کا حساب دنیا ہی میں دینا ہوگا۔۔۔۔۔!! کچھ مفکروں کا یہ بھی کہنا تھاکہ ایم کیو ایم نے اپنے زمانے میں کبھی بھی اس قوم کے نوجوانوں کو اچھی تعلیم اور مقابلے کے امتحان میں بیٹھنے کا کوئی سلسلہ شروع نہیں کیا بلکہ گندی سیاست میں نئی نسل کو ڈبو ڈالا، نئی نسل کو ڈکیتی، ٹارگٹ کنگ، لوٹ مار، قتل و غارت جیسے موذی اور غلیظ جرم کی آگ میں جھونک ڈالا۔ان کے مطابق یہ سیاسی جماعت اگر واقعی پاکستان بنانے والی کی قدر کرتی تو یہ اسی طرح تربیت کرتے جس طرح قائد اعظم محمد علی جناح نے تحریک پاکستان کے کارکنان کی تربیت کی تھی ، قائد اعظم محمد علی جناح نے علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے طالبعلموں کو سختی سے حکم دیا تھا کہ وہ اپنی تعلیم پر مکمل وقت دیں بقیہ وقت وہ تحریک پر صرف کرسکتے ہیں، یہاں انھوں نے جذباتی ہوکر اور بڑے جوش و ولولہ کیساتھ مجھے بتایا کہ تم یہاں پیدا ہوئے ہو تمہیں تحریک پاکستان کا اصل حقیقت کیا معلوم ہے وہ تحریک جس کا لیڈر بھی عظیم تھا اور کارکنان بھی عظیم تھے ، جیسا لیڈر با کردار تھا اسی طرح کارکنان بھی با کردار تھے، یہ کیا سمجھیں گے یہ تو ان کا نام بدنام کررہے ہیں انہیں تو تحریک پاکستان کے کارکنان اور قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت کے بارے میں بات کرنے سے پہلے کلی کرنی چاہیئے۔۔!!کیونکہ وہ لوگ مہذب، سچے، نڈر، مخلص، ہمدرد، انسان دوست، قابل اور ایمان والے تھے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان بننے سے قبل یہ خطہ پسماندہ تھا اس خطے کو ترقی و خوشحالی ہجرت کرنے والے قابل و ذہین علی گڑھ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طالبعلموں نے اپنی علم کی روشنی سے چمکایا،ان علیگیرین نے معروض پاکستان کے بعد ہر شعبہ میں گراں قدر خدمات پیش کرکے اداروں، شعبوں کو کھڑا کیا اور ریاست کے نظام کو بہتر انداز میں مروج کیا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ان ایماندار سچے لوگوں کی اولادوں کیساتھ استحصالی اور حق تلفی کا عمل ساٹھ کی دہائی سے شروع ہونے والایہ عمل آج تک قائم و دائم ہے۔۔۔ اس قوم کے ساتھ ناروا سلوک کے سبب اس قوم کے نوجوانوں میں مایوسی پھیلتی چلی گئی،جب تک ہجرت کرنے والے زندہ رہے انھوں نے اپنی نسل کو بہکنے نہیں دیا لیکن جیسے جیسے وہ دنیا سے جاتے چلے گئے ان کی نسلوں کے دروازے بھی بند ہوتے چلے گئے،یہی استحصالی اور حق تلفی ہی تھی جس نے بنگالیوں کو علیحدہ ملک بناننے پر مجبور کردیا تھا ، دشمانان پاکستان تو اسی تک و دو میں لگا ہوا ہے کہ کوئی بھی ذرا جگہ ملے ملک پاکستان کو نقصان پہچایا جائے، اس ملک میں ہمارے حکمرانوں ،سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور اسٹبلشمنٹ کی بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک میں کسی بھی قوم کیساتھ استحصالی و حق تلفی کا معاملہ نہ ہونے دیں، ایوان کے ممبران کی بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہر شہری کے حقوق کیلئے آواز بلند کریں تاکہ ملک مستحکم بن سکے۔ اردو بولنے والے مہاجروں پر روزگار سمیت دیگربند دروازوں کو کھولنا اب ضروری بن گیا ہے اسی لیئے مہاجر نوجوان ایم کیو ایم سے یہی امید رکھتے ہیں کہ ان کے حقوق کی ترجمانی اور استحصالی کا خاتمہ اسی پلیٹ فارم سے حاصل ہوگا۔اسی سبب آج تک ریاستی اداروں کی بار بار کوششوں کے باوجود ایم کیو ایم کے ووٹ کو ختم نہ کرسکی لیکن یہ قوم ان کی نسل ہے جنھوں نے پاکستان بنایا اور پاکستان کیلئے اپنی جان و مال کی قربانیاں دیں اسی لیئے اس قوم کے نوجوان قطعی طور پر ملک غداری کے نعرہ کو کبھی بھی قبول نہیں کریں گے اور نہ ہی ایسے عناصر کا ساتھ دیں گے یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم کے بانی کے ملک مخالف نعروں کے بعد بدظن ہوگئے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ بانی کے ملک مخالف نعروں کے بعد ایم کیو ایم کو لندن سے جدہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن ایک بڑا حلقہ اس کو سیاسی رنگ بتا رہا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ حقیقت کیا ہے ۔۔۔!! متحدہ کے باغیوں کا ایک گروپ الگ بھی بن گیا ہے جو اب پاکستان کی بات کرتا ہے اس نے پاکستان سرزمین پارٹی بنارکھی ہے ان کے مطابق ایم کیو ایم ہندوستان کی خفیہ ایجنسی را کی معاون ہے اور را کیلئے کام کرتی ہے ، بات اگر سچ ہے تو موجودہ حکمراں جماعت کی خاموشی کیا ظاہر کررہی ہے کیا اس ملک میں ذاتی مفادات ملکی مفادات سے بالاتر ہیں ؟؟ کیا سیکیورٹی ادارے ملک توڑنے والوں کو عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا نہیں کرسکتے؟؟ ایم کیو ایم سمیت باچا خان کی جماعت، محمود خان اچکزئی کی ہرزہ سرائی پر حکومت کی خاموشی کیا معنی رکھتی ہے، خود حکومت جماعت اور اپوزیشن جماعت پی پی پی ملک کے خلاف کاروائیوں میں رہی ہے ان سب کا بھی احتساب کیوں نہیں کیا جاتا؟؟ کیا صرف اردو بولنے والی جماعت ایم کیو ایم ہی ملک کی واحد ملک مخالف جماعت ہے ،خدارا ہوش کے ناخن لو، کسی ایک کے ساتھ احتساب کرنا اور باقی مجرموں کو نظر انداز کرنا بھی ملک کی سلامتی و بقا کیلئے خطرہ ہے، قانون کو سب پر یکساں لاگو کیا جائےبصورت پاکستان کا نظام ابتر سے ابتر ہوتا چلا جائے گا، ہماری افواج نے جس طرح پاکستان کی سلامتی و بقا کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے ان کی ان کاوشوں کو سہراتے ہوئے نظام ریاست کو بہتر بنانا حکمراں جماعت کی ذمہ داری ہے۔۔۔۔!!

اب وقت ہے کہ حکمراں جماعت ہزارہ ڈویژن کو ان کے حقوق کیلئے صوبے یا انتظامی بنیاد پر نئے انداز سے استوار کرے، جنوبی پنجاب کو اس کا بھی حق ادا کرتے ہوئے جلد از جلد صوبے کا نوٹیفیکیشن جاری کرے، بلوچستان مین بلوچیوں اور پختنوں کے حقوق کے تحت انتظامی امور طے کرے، سندھ میں شہری اور دیہی سطح پر بھی انتظامی امور میں نئے سرے سے ترتیب دے تاکہ نہ سندھوں کا استحصال ہو اور نہ ہی شہر میں بسنے والے مہاجروں کے حقوق سلب ہوسکیں۔اگر ان اقوام کے حقوق کا احترام کیا گیا تو یقیناً پاکستان اپنے اچھے شہریوں سے مثبت کردار حاصل کرسکے گا، ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہیں اور الحمد للہ یہاں نناوے فیصد مسلم آبادی ہے ہمارا سب سے بڑا اور معتبر قانون ،قانون الٰہی ہے جو مقدس کتاب قرآن الحکیم سے حاصل ہوئی ہے، قرآن میں رب العزت سب کے حقوق کا احترام کا درس دیتا ہے جہاں قرآنی احکامات سے ہٹا جائے گا وہیں بد نظمی اور حق تلفیاں پیدا ہوگیں۔۔۔!! کوئی قوم بری نہیں ہے تمام قومیں بہت مقدس اور محترم ہیں تمام زبان بولنے والے محترم ہیں بس ان میں ایک دوسرے کا احترام اور حقوق کی پاسداری کو لازم قرار دینا باقی ہے۔۔!! آج ملیر میں ضمنی انتخابات کے نتائج نے ایم کیو ایم کو واضع اشارہ دیدیا ہے کہ وہ اب بھی اپنا قبلہ درست کرلیں وگرنہ دو ہزاراٹھارہ کےقومی الیکشن ان کیلئے سود مند ثابت نہیں ہونگے، بہت ہوگئی اقربہ پروری کی، بندر بانٹ کی، غفلت اور بے توجہگی کی، مہاجر قوم اب ایم کیو ایم سے اپنے قوم میں ہی اہلیت و قابلیت رکھنے والوں کو ان کے حق کیلئے آواز بلند کرنے والے ہیں ۔اس قوم کے نوجوانوں کا کہنا ہے کہ ہمیں تعمیری و مثبت راہ پر گامزن کیا جائے اپنی دولت کو بڑھانے کیلئے ہمیں بھیڑ بکری نہ بنایا جائے، مہاجر نوجوان اب ایم کیو ایم سے تقاضہ کرتی ہے کہ جس طرح ہمارے آباؤاجداد نے عمل کی روشنی سے اس وطن کو روشن کیا تھا وہ بھی علم و ہنر کی روشنی سے اس وطن کو روشن کرنا چاہتے ہیں اور اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ لانا چاہتے ہیں اگر محب الوطنی کے عمل کو پاس نہ رکھا گیا تو مہاجر نوجوانوں کا کہنا ہے کہ وہ اب ایسی جماعت کا قطعی حصہ نہیں بنیں گے جن کی منزل پاکستان کی تعمیر و ترقی، جس کا مقصد عین انسانی خدمت، جن میں سچائی و ایمانداری کا عنصر نہ ہو وہ کبھی بھی اس کا حصہ نہیں بنیں گے، اب ایم کیو ایم پاکستان کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ ایم کیو ایم لندن کے ساتھ ساتھ مکمل طور پر بانی تحریک سے ہمیشہ کیلئے علیحدگی کا باقائدہ اعلان کریں ، ایک مہاجر نوجوان گروہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ پاکستان کی سالمیت کی خاطر اپنے اور اُن تمام لیڈران کا محاسبہ کریں گے جو ملک و قوم کو کھوکھلا کرنے میں سازشیں کررہے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔!!! پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔۔۔۔!! !
جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی: 310 Articles with 246203 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.