آہ! بدنصیب152مسافر...اور قوم کا جذبہ خدمت اور ایک روزہ یوم سوگ

حکومت ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے ریسکیو ٹیموں کی تربیت اور جدیدآلات کی کمی کو پورا کرے

آہ !بدھ 15شعبان المعظم 1431ھ 28جولائی 2010ءکی صبح 7بج کر50منٹ پر ایک نجی فضائی کمپنی ائیر بلیو لائن کا طیارہ جس میں اِس کے اپنے عملے کے 6ارکان سمیت 152مسافر سوار تھے اِنہیں لے کر یہ بدنصیب طیارہ کراچی کے قائد اعظم انٹرنیشنل ائیرپورٹ سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوا اور اِسے 9بج کر 30منٹ پر اسلام آباد کے بے نظیر بھٹو انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر لینڈ کرنا تھا تاہم اطلاعات یہ ہیں کہ یہ طیارہ اپنے وقت مقررہ سے چند منٹ قبل ہی مارگلہ کی پہاڑیوں کے چٹانوں کے سلسلے کی کسی چٹان سے ٹکرا کر دامنِ کوہ کے قریب گھنے جنگل میں جا گرا اور اِس میں آگ بھڑک اٹھی جس سے جہاز کے عملے سمیت 152افراد کی ہلاکت کا یہ قومی المناک واقعہ رونما ہوا جس کے بعد ملک بھر میں صفِ ماتم بچھ گئی اور آج بھی ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل اِس قومی سانحہ پر اداس ہے۔

اگرچہ وفاقی کابینہ نے اِس قومی سانحہ پر ایک روزہ یوم سوگ منانے کا اعلان کر کے اِس سانحہ میں ہلاک ہونے والے افراد کے خاندانوں سے ملی یکجہتی کا اظہار کیا جِسے کسی ایسے موقع پر حکومت کی جانب سے کئے گئے اعلان کو ایک قابلِ ستائش امر ضرور قرار دیا جاسکتا ہے جس میں حکومت نے خود عوام کے غم کا احساس اوراہلِ وطن سے اپنے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ملک میں ایک روزہ یوم سوگ کا اعلان کر کے ملی یکجہتی کا اظہار کیا اور یہ ثابت کردیا کہ کسی بھی مصیبت کی گھڑی میں حکومت بھی اپنی عوام کے ساتھ ہے۔ یہاں مجھے بشیر فاروق کا یہ شعر یاد آرہا ہے۔
لبوں پہ نغمہ ملّت نہیں تو کچھ بھی نہیں
دلوں میں جذبہ خدمت نہیں تو کچھ بھی نہیں
ہزار لب پہ ترانے ہوں عشق و الفت کے
وطن سے عشق ومحبت نہیں تو کچھ بھی نہیں

بہرحال! یہ ہماری قوم کی ملی یکجہتی اور اتحاد ہی کا عمدہ اور تاریخ ساز ثمر ہی تو ہے کہ جب28جولائی کو 9بج کر22منٹ پر جیسے ہی نجی ائیر بلیو کے جہاز ائیر بس 320 کو مارگلہ کے پہاڑوں سے ٹکرانے کے بعد اِسے گرتے ہی یہ المناک حادثہ وفاقی دارالحکومت اور خیبر پختونخواہ کی سرحد پر پیش آیا اور جہاز کا ملبہ 4کلو میٹر کے ایریا میں پھیل گیا جس سے متعلق یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حادثے کا شکار ہونے والے جہاز کا زیادہ ملبہ وفاقی دارالحکومت میں جاگرا تو عینی شاہدین کے مطابق زخمیوں کی مدد کے لئے سب سے پہلے جائے حادثے پر قرب وجوار کے رہائشی افراد پہنچے اور اِن کا کہنا تھا کہ جب یہ افراد یہاں پہنچے تو جائے حادثے پر اُس وقت تک حکومت کی جانب سے کوئی بھی ادارہ اور ریسکیو ٹیم یہاں نہیں پہنچی تھی اور اِس کے ساتھ ہی اِن لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ جائے حادثہ قیامت صغریٰ کا منظر پیش کر رہا تھا ہر طرف انسانی اعضاء بکھرے پڑے تھے اور حادثے کا شکار ہونے والے جہاز کے ملبے سے کچھ کچھ وقفے کے بعد آگ کے شعلے بلند ہورہے تھے جس کی وجہ سے اِنہیں کافی دشواری کا سامنا رہا اور پھر آہستہ آہستہ دوسرے قومی ادارے جن میں سب سے پہلے جائے حادثے پرآنے والی پاکستان نیوی کی ٹیم تھی جو سب سے پہلے پہنچی تھی اور اِس کے بعد پھر امدادی کاموں کے لئے مدد کو پہنچنے والی پاک فوج کی ٹیم تھی جو جائے حادثے پر اپنے تین ہیلی کاپٹروں اور ایک انفنٹری بٹالین کے ساتھ پہنچی۔

تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر بار کی طرح اِس بار بھی ہماری ریسکیو1122، شہری دفاع، ریسکیو15،اور سی ڈی اے جائے حادثے پر تاخیر سے پہنچنے والے ادارے اور ٹیمیں ثابت ہوئیں اِس حوالے سے یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اِن اداروں کی جانب سے منظم طریقے سے جائے حادثے پر ریسکیو آپریشن شروع کرنے میں دو گھنٹے لگ گئے تھے۔ جس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ بارش ہورہی تھی اور دوسری بڑی وجہ یہ بتائی گئی کہ جس جگہ جہاز کا ملبہ پڑاتھا وہ ایک کھائی تھی جہاں تک امدادی ٹیموں کو پہنچنا انتہائی دشوار گزار تھا جس کے لئے وہاں تک پہنچنے کے لئے اِنہیں کئی کئی گھنٹے لگ رہے تھے۔

اگرچہ اِس سے بھی انکار ممکن اور مشکل نہیں کہ حکومت نے بھی اِس ضمن میں اپنی معاونت کی مگر ایسی معاونت کا کیا فائدہ جو کئی گھنٹے گزرنے کے بعد کی جائے جب جائے حادثے پر پڑے زخمیوں کو اپنی زندگی کی اُمید یکدم ختم ہوچکی ہو تو پھر کسی امدادی ٹیم کی کوئی ضرورت نہیں رہ جاتی......؟؟ کہ وہ کسی زخمی کی مدد کے لئے پہنچے بلکہ دنیا کے کسی بھی ملک میں کسی بھی حادثے کی صورت میں ریسکیو ٹیموں اور اداروں کا کام تو یہ ہوتا ہے کہ وہ بروقت پہنچ کر زخمیوں کی مدد کریں اور اگر خوش نصیبی سے کسی بھی زخمی میں اگر ذرا بھی امید کی کوئی کرن ہو تو یہ امدادی اور ریسکیو ٹیمیں اُس زخمی کو فوری طور پر اسپتال پہنچا کر اِس زخمی میں زندگی کی آس پیدا کر دیتی ہیں۔

جبکہ مجھے یہاں بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنے دیجئے! کہ ہمارے یہاں28جولائی 2010 کو مارگلہ کی پہاڑیوں سے ٹکرانے والے ائیر بلیو کے جہاز ائیر بس320 جس کے کپتان62سالہ پرویز اقبال چوہدری تھے اور پرواز کے فرسٹ آفیسر منتجیب الدین تھے جیسے ہی اِس جہاز کو حادثہ پیش آیا ہماری ریسکیو ٹیموں کو فوری طور پر جائے حادثے پر زخمیوں کی مدد کے لئے پہنچنا چاہئے تھا مگر ہماری امدادی ٹیموں نے ایسا نہیں کیا۔ اگر یہ چند منٹوں میں ہی جائے حادثے پر پہنچ جاتیں تو عین ممکن تھا کہ کسی ایک زخمی کو ہی بچایا جاسکتا تھا یوں امدادی کاموں میں دیر کے سبب جہاز میں سوار تمام کے تمام مسافر ہلاک تو نہ ہوتے کوئی ایک تو بچ جاتا اور وہ یہ تو بتا سکتا تھا کہ جہاز میں آخری لمحات میں کیا ہوگیا تھا کہ یہ حادثہ رونما ہوگیا۔ اِس حادثے کے بعد تو ایسا لگا کہ جیسے ہمارے ملک میں موجود ریسکیو ٹیمیں دنیا کے کسی بھی ملک کی ریسکیو اور امدادی ٹیم سے کوئی مقابلہ نہیں کرسکتیں کیونکہ اوّل میں تو ہمارے یہاں جو ریسکیو ٹیمیں ہیں جنہیں حکومت بڑا فعل اور متحرک سمجھتی ہے دراصل اِن میں ابھی بھی تربیتی اور تیکنیکی اعتبار سے بہت سی ایسی خامیاں موجود ہیں جن کی اِس کمی کو ہر صورت میں حکومت کو ہی دور کرنا ہے اور اِنہیں جدید آلات سے آراستہ کرنے کی بھی ذمہ داری حکومت کی ہی ہے جِسے حکومت کو ہر حال میں پورا کرنا ہوگا ورنہ اگر حکومت نے اپنی ریسکیو ٹمیوں کو دور جدید کے مطابق اِنہیں تربیت اور تیکنیکی مہارت سے ہم آہنگ نہ کیا اور اِنہیں جدید آلات سے لیس نہ کیا تو آئندہ بھی خدانخواستہ ملک میں ہونے والے کسی بھی چھوٹے / بڑے حادثے کی صورت میں ہماری یہ ریسکیو ٹیمیں زخمیوں کو اسپتال پہنچانے والی ریسکیو ٹیمیں نہیں رہیں گیں بلکہ گزشتہ دنوں مارگلہ کے پہاڑوں پر پیش آنے والے نجی ائیر لائن کے طیارے کے حادثے کے بعد صرف لاشیں نکانے اور ملبہ اٹھانے والی ریسکیو ٹیم کا اعزاز حاصل کرنے والی ہو کر رہ جائیں گی۔

ہاں اِس موقع پر مجھے اِس جہاز میں سوار ہونے سے رہ جانے والے اُن 12مسافروں سے بھی کچھ کہنا ہے جو ٹکٹ خریدنے کے باوجود بھی اِس بدنصیب طیارے میں سوار نہ ہوسکے وہ خوش نصیب تو ضرور ہیں مگر وہ اِس اپنی خوش نصیبی پر اِترانے اور غرور و گھمنڈ کرنے کے بجائے یہ ضرور سوچیں کہ اللہ تعالیٰ نے اِنہیں اپنے اعمال درست کرنے اور دنیا میں اِنسانوں کی خدمت کرنے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد اچھی طرح سے ادا کرنے کا ایک اور سنہرا موقع فراہم کر دیا ہے اور جو اِس جہاز کے حادثے میں ہلاک ہوگئے وہ آج تم سے اور ہم سے اچھی جگہ پر ہیں اور ہمیں ہر حال میں اپنی موت کو ضرور یاد رکھنا چاہئے کیونکہ ہم مسلمانوں کا ایمان ہے کہ ہر ذی شعور کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے اِس سے انکار کرنے والا ایمان سے خارج ہے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 893710 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.