میرا پاکستان کیسا ہو ؟

تحریر: اقصیٰ فیاض

میرا آج کا عنوان ہے کہ میرا پاکستان کیسا ہو ، میرا پاکستان بالکل اپنے نام کے مطلب جیسا ہونا چاہیے۔
"پاکستان کا مطلب کیا لالہ الاﷲ "

پاکستان کو با لکل ویسا ہونا چاہیے جیسا قائداعظم اور ان کے ساتھیوں نے سوچا اور بنا اپنی جان و مال کی پروا کیے قائداعظم کا پورا ساتھ دیا، انکی انتھک محنت کے بعد پاکستان معرض وجود میں آیا ۔ پاکستان کو وجود میں لانے کے لیے انہوں نے اپنی جان ، مال اور عزتوں کے نذرانے پیش کیے۔ وہ چاہتے تھے کہ پاکستان ایک ایسی درسگاہ بنے جہاں صرف اور صرف اسلام کے اصولوں پر چل کر زندگی گزاری جائے ۔

جہاں عورت کی عزت ہو، حلال روزی کمائی جائے ، سب کا ایک ہی رہنما ہو "نبی پاک ﷺ " اور اقلیتوں کو بھی اہمیت دی جائے پاکستان کے جو حالات خراب ہو گئے اور مزید خراب ہوتے جا رہے ہیں اس کی ذمہ دار صرف حکومت نہیں بلکہ وہ سب ہیں جو اپنے ذاتی مفاد ات کے لیے ملک کو استعمال کر رہے ہیں۔ صرف حکومت اس بگاڑ کی ذمہ دار نہیں ہے بلکہ عوام بھی ہے۔کوئی بھی ریاست معاشرے سے ملکر بنتی ہے اور معاشرہ ہم سے۔ حکومت میں ہمارے یعنی عوام کے منتخب کردہ لوگ ہی تو ہوتے ہیں ۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ سیاسی نمائندوں کی وجہ سے ملک میں جو بگاڑ آرہا ہے کہیں نہ کہیں عوام بھی اسکی ذمہ دار ہے۔ اگر عوام ذمہ داری سے اپنے ووٹ کا استعمال کریں تو یقینا کوئی مستحق اور نیک رہنما اقتدار سنبھالے گا اور یقینا اس کے آنے سے ملک کے حالات بہتر ہو ں گے۔

اس وقت پاکستان مندر جہ ذیل مشکلات کا سامنا کر رہا ہے:
٭ روزگار
٭ تعلیم
٭ اغوا برائے تاوان
٭ بجلی
٭ گیس
٭ دہشت گردی

یہ سارے عناصر صرف تعلیم کی کمی اور بھوک کی وجہ سے جنم لے رہے ہیں۔ بنیادی مسائل کو حکومت حل کر رہی ہے اور امید ہے کہ مسائل بہت جلدحل ہو جائیں گے ۔لیکن باقی عناصر کو ہمیں ٹھیک کرنا ہو گا یعنی عوام کو۔ حکومت کسی کے گھر جا کے اسے تعلیم کے لیے مجبور نہیں کر سکتی۔ یہ تحریک تو ہمیں ہی چلانی ہو گی ، ہمیں سب کو اس بات سے آگاہ کرنا ہو گا کہ حکومت کون کون سے اقدامات کر رہی ہے اور ہم ان سے کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔کچھ حکومتی اقدامات یہاں درج کیے گئے ہیں تا کہ جو بھی یہ مضمون پڑھے تو وہ اس بات سے آگاہ ہو سکے اور باقی سب کو بھی اس بات سے رو برو کروائے ۔

1۔ گورنمنٹ سکول :
آج جگہ جگہ سکول کھولے جا رہے ہیں جن کی فیسیں عام آدمی کی پہنچ میں ہیں اس لیے ہر ایک شخص سے گزارش ہے کہ وہ اپنے بچوں خواہ وہ بیٹی ہو یا بیٹا کو زیور تعلیم سے آراستہ کروائے۔

2۔ ووکیشنل سینٹرز:
حال ہی میں حکومت نے فری ووکیشنل سینٹرز کھولے ہیں جہاں فری میں ایسے ہنر سکھائے جا رہے ہیں جو گھر بیٹھی خواتین کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ گھر بیٹھے اپنے روزگار بنا سکتی ہیں ۔

3۔ گورنمنٹ انٹرنشپس :
حکومت کی طرف سے فریش گریجوایٹس کو انٹرنشپس پر رکھا جا رہا ہے جنکی ماہانہ تنخواہ 12000روپے ہو گی۔ نئی سکیم کے مطابق انکو گریڈ 9نہیں بلکہ گریڈ 14پر رکھا جائے گا۔ اور انہیں اپنے علاقے میں پہلے ریفر کیا جائے گا جس سے خواتین اساتذہ کو آنے جانے میں بھی مسئلہ نہیں ہو گا اور وہ اپنی علاقے میں رہ کر بچوں کو تعلیم کی روشنی سے استفادہ کروا سکیں گی۔

4۔ آرمی:
اس ملک میں پاکستانی فوج ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے ۔ کسی قسم کی خراب صورت حال میں آپ فوج کو آگاہ کریں ۔ ان کے فوراً ردِ عمل سے کئی مسائل حل ہو چکے ہیں اور امید ہے کہ انشا ء اﷲ آئندہ بھی فوج اپنا کردار یونہی ادا کرتی رہے گی۔

5۔ پنجاب پبلک سروس کمیشن PPSC:
PPSCمیں مردوخواتین کے لیے تقریباً ہر مہینے آسامیاں آتی ہیں ۔ PPSCاچھی تنخواہوں کے ساتھ ساتھ اچھا ماحول اور کئی اور سہولیات بھی فراہم کر رہی ہے۔

یہ حکومتی اقدامات میں سے چند ایک اقدامات ہیں جو میں نے یہاں درج کیے ۔ انہیں یہاں درج کرنے کا مقصد یہ بالکل نہیں ہے کہ میں حکومت کی حمایت کر رہی ہوں ۔ حکومت سے بھی غلطیا ں ہوئی ہیں اور مسلسل ہو بھی رہی ہیں لیکن اب وقت نہیں رہا کہ ہم ایک دوسرے میں غلطیاں نکالیں ۔ ان اقدامات کو یہاں درج کرنے کا مقصدصرف یہ ہے کہ سب کو آگاہ کیا جائے کہ جہاں حکومت غلطیاں کر رہی ہے وہاں کچھ اچھے کام بھی کر رہی ہے اور ہمیں ان سب سے فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ اگر زندگی میں آگے بڑھنا ہے ،پاکستان کو بڑھتے دیکھنا ہے تو آؤ مل کر کام کریں ۔ اپنی ماؤں بہنوں کو گھروں میں بند کرنے کے بجائے فیلڈ میں آنے دیں ۔ جانتی ہوں کہ ماحول ٹھیک نہیں ہے لیکن ماحول بھی تو ہم لوگوں سے ہی بنتا ہے اگر ہم ہی ٹھیک ہو جائیں تو ماحول خود بخود ٹھیک ہو جائے گا ۔ آپ دوسروں کو عزت کی نگاہ سے دیکھو تو آپکی طرف اٹھنے والی نظریں بھی عزت کی ہی ہوں گی ۔

اب کچھ ایسے کام درج ذیل ہیں جو ہمیں کرنے ہوں گے:
اقلیت:
اقلیتوں کو بھی اس ملک میں رہنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا مسلمانوں کو ۔ کسی کو زندہ جلانا کوئی انسانیت نہیں اگر غلط دیکھو تو اسے روکو اس ملک میں اب بھی قانون ہے اسکا سہا را لو ۔خود کسی کو بیجا قتل کر دینا کسی بات کا حل نہیں ۔

پردہ:
خواتین اپنے پردے کا خیال رکھیں ، معاشرے میں کافی حد تک بگاڑ اسی بات سے ہی آرہا ہے کہ خواتین نے پردہ کرنا چھوڑ دیا ہے ۔ اسلام نے عورت کو پردہ کرنے کا حکم دیا ہے خود مختار ہونا اچھی بات ہے لیکن اسکا مطلب یہ بالکل نہیں کہ عورت اپنا پردہ ہی بھول جائے ۔ یہ پردہ ہی عورت کی عزت ہے اور یہ پردہ اس عورت کے بھائی شوہر اور بیٹے کو جنت میں لے جانے کی وجہ بنے گا ۔ عورت کام کرنا چاہتی ہے تو بیشک کرے لیکن ساتھ ساتھ پردے کا بھی پورا خیال رکھے ۔

سٹریٹ اوئیر نیس:
حکومت نے بڑے شہروں میں ڈولفن فورسز تو بنا دی مگر حکومت کے پاس اتنے سپاہی نہیں کہ وہ چھوٹے شہروں یا گاؤں میں ایسی فورسز بھیج سکے ۔ اس لیے ہمیں اپنی مدد آپ کے تحت اپنے آس پاس کے لوگوں کا خیال رکھنا ہو گا ۔ اپنی گلی یا محلے میں اگر کوئی ایسی بات دیکھیں جو آپکو تشویش میں ڈالے تو فوراً اپنے علاقے کے پو لیس سٹیشن میں رپورٹ کریں ۔ آپکا یہ عمل کسی کی زندگی بچا سکتا ہے ۔

عوام کے نام پیغام :
بد قسمتی سے ہمیں صرف تنقید کرنا آتا ہے حکومت ایسی حکومت ویسی ، لیکن کیا ہم اپنی ذمہ داریاں اچھے سے نبھا رہے ہیں ؟ وقت آگیا ہے کہ سب خود سے سوال کریں ۔ حکومت اگر کچھ کام ذمہ داری سے نہیں کر رہی ہے تو بجائے اس کے کہ ہم ان کے آنے اور کسی اقدام کا انتظار کریں ۔ ہمیں چاہیے کہ ذاتی طور پر جتنا ہو سکے کم ا زکم وہ تو کریں ۔ مل کر کام کرو۔۔۔ یہ مت سوچو کہ اس کا مسئلہ ہے ہم کیوں کسی کی مصیبت اپنی گلے ڈالیں۔ یاد رکھو!! ۔۔ اگر آج آپ کسی کی مشکل وقت میں اس کی مدد نہیں کریں گے تو کوئی بھی آپکے مشکل وقت میں آپکی مدد نہیں کرے گا ۔ اور مشکل میں بے سہارا ہونا کسی اذیت سے کم نہیں ہے ۔ بڑے شہروں میں کڈنیپنگ کی اصل وجہ یہ ہے کہ گھر والے بے خبر ہو چکے ہیں ان کہ بچے کہاں غائب رہتے ہیں ۔ وہ غافل ہو چکے ہیں اپنی ذمہ داریوں سے۔ جس کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور معصوم بچوں کو ماؤں کی گود سے جدا کر دیا جاتا ہے ۔ اس لیے مہر بانی کر کے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور کوشش کریں کے اپنے بچوں کو بھی اچھے کاموں کی تلقین کریں ۔ صرف یہی ایک راستہ ہے جس سے ہم اپنے اور اپنے ملک کے حالات بدل سکتے ہیں ۔ وقت آگیا ہے کہ اب تمام قسم کی فرقے بازی اور سیاست کو چھوڑ کر ایک ہو جائیں اور صرف اسلام کے پیروکار ہو جائیں اور سب کا نعرہ ایک ہی ہو ۔۔
"ہم سب کے رہنما ۔۔ محمد الرسول اﷲ "

Mohammed Danial
About the Author: Mohammed DanialCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.