کوئٹہ پھر لہو لہواور غریب بچوں کا اغوا۔۔۔۔۔ ذمہ دار کون؟

٭اکثر قوم نے ارباب اقتدار کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اب دہشت گردوں کا مکمل صفایا کردیا،دہشت گرد اب سر نہیں اٹھا سکیں گے ،ان وطن دشمنوں کو شکست ہوگئی ۔حقیقت یہ ہے کہ جہاں دشمن چاہتے ہیں حملہ کرکے سفاکیت کا مظاہرہ کر دیتے ہیں۔ایک بار پھر کوئٹہ لہولہان ہوگیا حالیہ ہسپتال پر حملے کے باعث 72 افراد جابحق اور 120 کے قریب زخمی ہیں،جاں بحق ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ان زخمیوں اور جاں بحق ہونے والوں دیکھ کر ہر کوئی پریشان ہے کہ یہ کیا ہورہا ہے انسانیت دشمن حملے کب روکے جائیں گے؟ ادارے کیا کر رہے ہیں ؟اس بار قرب میں آکر پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ بھی اس قدر رنجیدہ ہوگئی کہ کام بند کرکے ہڑتال کردی ۔ان حملوں کے بعد ایک ہیجانی کیفیت پیدا ہوگئی ہے جمہوری قیادت آپس میں دست وگریبان دکھائی دے رہی ہے ایک دو لیڈران کاکہنا ہے کہ یہ اداروں کی ناکامی ہے جسے آپس کی نوک جھوک کیلئے استعمال کیا جارہا ہے ایک دوسرے کو ایجنٹ قرار دیا جارہا ہے دوسری طرف اس حملے کے بعد پاک آرمی چیف بھی سخت غصے میں دکھائی دئیے اور انسانیت دشمنوں کو شکست دینے کے عزم کا دوبارہ اظہار کیا ہے۔ اس حملے کے بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا جب قوم70 واں یوم آزادی منانے کی تیاری کر رہی ہے ۔قوم کو شائد دشمن ڈرانا چاہتا ہولیکن بہادر پاکستانی قوم ایسے بزدلانہ حملوں سے نہ ڈری ہے اور نہ ہی ڈرے گی۔قوم تو تحفظ پاکستان کی خاطر سب کچھ قربان کرنے کا عزم کر چکی ہے قوم کا بچہ بچہ سینہ سپر ہو چکا ۔پاکستان کے مذہبی حلقوں کی طرف سے اسے غیر اسلامی،انسانیت دشمن فعل قرار دیا جارہا ہے یہ کئی بار کہا گیا کہ اسلام بے گناہوں کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا پاکستان میں خود کش حملے حرام ہیں یعنی قوم ایک پیج پر کھڑی ہے مگر سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ یہ حملے کب بند ہوں گے ان کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا کوئی پاکستان کاازلی دشمن کالعدم گروہوں کا نام استعمال کرکے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل تو نہیں کرنا چاہتا ۔ہم کئی بار گذارش کرچکے ہیں کہ دہشت گردانہ ان حملوں کا مرکزی کر دار کون ہے؟ اسے قوم کے سامنے ننگا کیوں نہیں کیا جاتا ؟کیا اتنے حملے کرنا کسی گروہ کے بس کی بات ہے ؟ میرا وجدان کہتا ہے کہ ہرگز ہرگز نہیں ۔ان حملوں کا مرکزی کردار یورپ ومغرب اور اس کا دم چھلہ بھارت ہے جس کا نام لینا ہمارے ارباب اقتدار آلو پیاز کی تجارت کی باعث شائد مناسب نہیں سمجھتے ۔یہی وہ حماقت ہے جو ہم بار بار کر رہے ہیں ایک طرف دشمن کشمیر میں ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے جبکہ دوسری طرف پاکستان میں دہشت گردانہ کاروائیوں میں برائے راست ملوث ہے ۔پاکستانی قیادت سے دردانہ اپیل ہے کہ قومی سطح پر اپنے اصل دشمن کا اعلان با ضابطہ کرکے اس کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے تب قوم آرام وسکون کے دن دیکھے گی ۔اگر ہماری قیادت دہشت گردی کے واقعات پر مذمتی بیانات تک محدود رہی تو یہ سلسلہ روک نہیں سکے گا پاکستانی قیادت کواب نہ چاہتے ہوئے بھی سخت اور جرأت مندانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔ قوم امن کی خاطر ایسے اقدام کی شدت سے منتظر ہے ۔ہمارے نزدیک اس صورتحال کے ذمہ دار ہمارے ارباب اقتدار،سیاستدان اور ادارے ہیں جو ابھی تک دشمن کو جاننے کے باوجود اس کے خلاف جنگ شروع نہیں کر سکے۔

٭جنگی اصول ہے کہ سبز درختوں،عورتوں،بڑھوں،ہتھیار نہ اٹھانے والوں اور بچوں کو قتل نہیں کرنا میدان جنگ میں جو لڑنے کیلئے کودے اس سے ہی مقابلہ کیا جائے ۔ ماضی قریب میں بچوں کو سب اپنا ہی بچہ تصور کرتے تھے حتیٰ کہ دشمن بھی دشمن کے بچوں سے پیار کرتے تھے لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے ۔ہر طرف خوف وہراس کی کیفیت ہے جس کی عزت اسی کی عزت،جس کا بچہ اسی کا بچہ والی کیفیت عام ہے ۔گذشتہ ماہ سے پنجاب سے بچوں کے اغواء کی وارداتیں عام ہوگئی ہیں سرکاری اعداوشمار کے مطابق 2011 سے جولائی 2016 کے دوران 6793 بچے اغوا ہوئے ان میں سے 6661 بچوں کو بازیاب کروا لیا گیا یا وہ واپس آگئے جبکہ 132 بچے ابھی تک لا پتا ہیں۔رواں سال صوبے سے767 ایسے واقعات ہو ئے جن میں سے 722 کوتلاش کر لیا گیاجبکہ لاہور سیلاپتا ہونے والے 260 میں سے 207 بچے خود واپس آگئے ،29 کو باز یاب کروایا گیا جبکہ 24 ابھی تک لاپتا ہیں(قومی اخبارات 10 اگست 2016 )۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق لاہور سے 15 بچے اغوا ہو چکے ہیں جبکہ لاہور کاعلاقہ بادامی باغ سب سے زیادہ متاثر ہوا جہاں سے تادم تحریر 11بچے اغوا ہوئے۔شادباغ سے دو ماہ قبل علاقہ ہذا کے فیروز پارک سے 9سالہ فیضان اغوا ہوا جس کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا والدین غم سے نڈھال ہو گئے ہیں گذشتہ دنوں وحدت کالونی کے علاقہ کلفٹن سے 17سالہ رہائشی مدثرنماز پڑھنے گیابادامی باغ سے جنرل کونسلر شفیق کا بیٹالاپتہ ہواجو کو اسلام آبادسے ملا ، اغوا کار کون ہیں؟ ان کے عزائم کیاہیں؟اس کے بارے میں خدشات وتحفظات پر مبنی باتیں سننے کو مل رہی ہیں ۔ لاہور میں کوئک ایکشن پلان جاری ہے،میڈیا ذرائع کے مطابق لاہور کے 27مقامات جہاں افغان باشندے مقیم ہیں سے کریک ڈاؤن کیا جارہا ہے ۔انتظامیہ نے سیکیورٹی اور چیکنگ کا نظام مزید سخت کردیا ہے تاکہ کوئی اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہ ہوسکے۔ ادارے انسانیت دشمن ان عناصر کو سرکوبی کیلئے کیا کر رہے ہیں؟ اس حوالے سے حقائق منظرعام پر لانے کیلئے میڈیا ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہا ہے تاکہ مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے انتظامیہ کے ساتھ تعاون ممکن ہو سکے۔ دوسری طر ف عوام خود کو تنہاء ،بے یارومدگار،غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں ۔لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں سکول،اکیڈمی،قرآن کی تعلیم دلوانے کیلئے مسجد مدرسہ تک خود پہنچا رہے ہیں ۔ہمارے بچے اب آزادی سے گھوم پھر کھیل کودبھی نہیں سکتے ۔ حکومت تحفظ یقینی بنائے ،عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت شہر کی مختلف سڑکوں پر اغواء کاروں سے ہوشیار رہنے کے تنبیہی بینرز آویزاں کر دئیے ہیں ۔ کئی مقامات پر احتجاج بھی ریکارڈ کروایاکہ ہمارے بچوں کو تحفظ فراہم کیا جائے ۔لیکن ابھی تک انتظامیہ اغواء کاروں کا صفایا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی ۔بچوں کے اغوا کار اتنی دیدہ دلیری سے بچے اغوا کر رہے ہیں تمام اقدامات کے باوجود یہ سیکیورٹی اداروں کی ناکامی ہے کہ ابھی تک اغوا کاروں کا خاتمہ نہیں کیا جا سکا کئی شہروں سے مبینہ اغوا کار بھی گرفتار ہوئے ہیں ابھی تک اصل کہانی کا علم نہیں ہو سکا ۔گرفتار مبینہ اغو کار اصل ہیں یا شک کی بنیاد پر پکڑا گیا اس کا ابھی تک کوئی علم نہیں ہو سکا، اس کی وجہ یہ ہے کہ غریبوں کے بچے اغوا ہورہے ہیں جب ملک کے کسی امیر ،سیاستدان،حکمران یاوزیراعظم کا بچہ اغوا ہو جاتا ہے تو وزرائے اعلیٰ، وزیر اعظم متاثرہ خاندان کے گھر جا کر اغوا شدگان کی رہائی کا عزم کرتے ہیں ساری ملکی مشینری حرکت میں آجاتی ہے مگر اب غریبوں کے بچوں کے اغوا پر سب اچھا ہے ،ملزموں تک پہنچ گئے سب تھوڑا سا فرق رہ گیا کے دعوے زدعام ہیں یہی طبقاتی فرق ہے جو ملک میں انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہے جس نے غریب کا جینا دھو بھر کر رکھا ہے اب غریبوں کے بچے غیر محفوظ ہو گئے ہیں۔ ٭٭٭
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 245661 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.