اے بے وفا زندگی تیرا کیا بھروسہ

جب ایک چیز دِن میں سو مرتبہ یہ کہیں کہ مجھے جانا ہے تُو ایسے چیز پہ تیرا کیا بھروسہ رہ جائے گا اور جب تجھے دِن میں سو مرتبہ یہ کہے کہ مجھے آنا ہے میرا انتظار کرنا بھی ہوگا۔ زندگی تجھ سے دِن میں سو مرتبہ کہتی ہے کہ مجھے جانا ہے مگر تُو پا گل پھر بھی اِس اُمید پر ہوں کہ زندگی تیرا ساتھ دے گی مگر یہ تیری خوش فہمی ہے، کیونکہ دُنیا میں زندگی نے کسی سے وفا نہیں کی، ساری دُنیا کے لوگوں کو دھوکہ دے چُکی ہے اور نہ جانے کون سے راستے پر ہماری زندگی آہستہ ہو جائے اور موت ہم تک پہنچ جائے، اِس زندگی کا بھروسہ کیا جو طوفانوں میں چراغ کے مانند جلتی ہو اور اِس موت کا انتظار کیوں نہیں جو آندھی کی طرح ہمارے پیھچے ہے، اگر واقعی موت ہمارے پیچھے اتنی تیزی سے آ رہی ہے اور زندگی ہم سے جانے والی ہے کیوں نہ ہم اِس چھوٹی سی زندگی میں کوئی ایسا کام پیدا کریں جِس سے زمین والے بھی خوش ہو جائیں اور زمین کو پیدا کرنے والا بھی۔ جب ہم پیدا ہوئے٬ تب سے آج تک ہم اِس شش و پنج میں ہیں کہ موت کو آنا ہے اور زندگی کو کب جانا ہے ۔اگر موت اور زندگی کے بارے میں سوچا جائے تُو انسان ہنسنا بھول جائے گا ۔

اِس حوالے سے شاعر نے کیا خوب کہا ہے ۔
 
میری زندگی کا مقصد میری دین کی سرفرازی
میں اِس لئے مسلماں میں اِسلئے نمازی
Akhtar Javed
About the Author: Akhtar Javed Read More Articles by Akhtar Javed: 3 Articles with 5583 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.