جنت اہلِ ایمان کی میراث ہے

 (۱ ) بسم اﷲ الرحمان الرحیم اﷲ رب العالمین کا ار شاد ہے ،(ان المسلمین والمسلمٰت والمؤمنین والمؤمنٰت والقٰنتین والقٰنتٰت والصٰدقین والصٰدقٰت والصٰبرین والصٰبرٰت والخٰشعین والخٰشت والمتصدقین والمتصدقٰت والصآئمین والصآئمات والحٰفظین فروجھم والحٰفظٰت والذٰکرین اﷲ کثیرا والذٰکرٰت اعدلھم مغفرۃ واجراعظیما() الاحزاب ․ ۳۵) بے شک مسلمان مرد مسلمان عورتیں مؤمنین مرد اور عورتیں اﷲ کے سامے جھکنے والے مرد اور عورتیں سچ بولنے والے مرد اور عورتیں صبر کرنے والے مرد اور عورتیں راستباز مرد اور عورتیں صدقہ کرنے والے مرد اور عورتیں روزہ رکھنے والے مرد اور عورتیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور عورتیں اور اﷲ تعالیٰ کو زیادہ یاد کرنے والے مرد اور عورتیں اﷲ رب العالمین نے ان کے لئے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے ۔مزید ارشاد فرمایا بے شک کامیاب ہوئے وہ مؤمن جو نمازوں میں عاجزی اختیار کرتے ہیں لغو گفتگو اور افعال سے گریز کرتے ہیں اور ان کے افعال پاکیزہ ہیں اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی بیویوں کے اور وہ جو ان کے پاس جنگی حالت میں آئی ہوئی خواتین (کنیزوں) کے ان کے ساتھ ازدواجی تعلقات پر ملامت نہیں۔اور جس نے اس کے علاوہ کوئی حرکت کی تو وہ زیادتی کرنے والا ہوگا۔اور جن لوگوں نے امانتوں اور اپنے وعدوں کی پابندی اور پاسداری کی اور جنہوں نے اپنی تمام نمازوں کی حفاظت کی یہ وہی لوگ ہیں جو وارث ہیں جنت الفردوس کے اور وہ ہمیشہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔( المؤمنون ۱ تا ۱۱) اﷲ تعالی نے جنتی لوگوں کی صفات بیان کی ہیں جو دنیا میں آئے اور دنیا میں رہتے ہوئے بھی دیندار کہلائے اور دنیا کی معروف اصطلاح کی زد میں نہ آئے ۔ اہلِ ایمان اور عملِ صالح کے کردار کے مالک دنیا اور آخرت میں کامیاب بھی ہیں اورامام و مقتدر بھی۔ مسلمان مرد اور عورتیں برابر کی سطح کی شخصیات ہیں ان کے کام اﷲ نے برابری کی بنیاد پر رکھے ہیں اور بعض دفعہ عورتوں کے اعمال مردوں کی نصبت زیادہ قابلِ قبول ہوتے ہیں جن کو اﷲ تعالیٰ زیادہ اجر سے نوازتا ہے۔ سورۂ احزاب کا خطاب نبئی کریم ﷺازواجؓ سے ہے اور بیچ میں تمام مردو خواتین سے خطاب کرتے ہوئے مردو خواتین کی صفات بیان کرتے ہوئے ان کو جنت کا اہل قرار دیا تاہم سوۂ المؤ منون میں کم وبیش یہی صفات ہیں جن کی روشنی میں اہلِ ایمان و عمل جنت کے وارث قرار دیئے گئے۔اب سوال یہ ہے کہ جن صفا ت والے لوگوں کو جنت کا حقدار قرار دیا دیا ہے ان کے کام کو آسان کیسے بنایا گیا ہے سب سے پہلا کام تو یہ بتایا گیا ہے کہ اﷲ رب العالمین ہی واحد الہٰ واحد رب واحد اختیارات کا مالک واحد زندگی اور موت کامالک اورقیامت قائم کرکے سزا و جزا دینے کامالک ہے اور کوئی بھی اس کے اختیار ات میں دخل انداز ہونے فیصلے پر اثر انداز ہونے کے قابل نہیں۔دوسرا یہ کہ اﷲ کے رسول ﷺ ہیں اور یہ آخری نبی ﷺ ہیں ان کی زندگی پر عمل پیرا ہونا ہی نجات اور اخروی زندگی کا انحصار ہے۔ان کے احکام پر عمل سے ہی بخشش اور جنت میں مقام مل سکتا ہے۔کلمہ طیبہ اس کا خلا صہ ہے(لاالٰہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ) ﷺاﷲ کے سواکوئی بندگی کے لائق نہیں اور محمد اﷲ کے رسول ہیں ﷺدنیا میں جو کام کیا جائے کام کرنے والا یہ نظریہ رکھے مجھے اﷲ دیکھ رہا ہے اور میرا کام رسول خدا ﷺ کی سیرت کے مطابق ہے اور میرے کام کانتیجہ میری آخرت میں اچھا ہوگا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ مسلمان دن رات اﷲ کی خوش نودی کے لئے کام کرے ۔مسلمان کی زندگی انفرادی انداز میں نیک اور شفاف ہوتی ہے ایمان بالغیب پر پورا یقین ہوتا ہے ایمان بالرسالت اور ایمان بالآخرت اور اس کے پورے لوازم پر عمل پیرا ہوتا ہے عملی زندگی میں نماز،روزہ، حج،زکوٰۃ، جہاد،اور اﷲ کی تقدیر پر پورا نظریہ رکھتا ہے اور اسلامی ریاست کے قیام میں جدو جہد کرتا ہے،اور اس کی حفاظت اپنا فریضہ سمجھتا ہے ایسے میں اگر اس کی جان بھی چلی جائے اس کو اپنی کامیابی سمجھتا ہے اسی طرح سارے مسلمان مل کر اﷲ کے کلمے کو سر بلند کرتے ہیں اور یہی راستہ جنت اور بخشش کا ہے اور یہی لوگ جنت میں جائیں گے جس کا وعدہ اﷲ تعالیٰ کا ہے۔(الذین یر ثون الفردوس ھم فیھا خالدون)(المؤمنون ۱۱)یہی لوگ فردوس کے وارث ہیں اور یہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔اب ہم دنیوی خدوخال کا تجزیہ کرتے ہیں کہ جہاں ہماری انفرادی زندگی شفاف ہے اور اجتماعی زندگی کو اﷲ کے نظام کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں ان ضابطوں میں اہم کام نظامِ مملکت کا ہوتا ہے جس کے ذریعے انفرادی و اجتماعی زندگی بے مہارے او نٹ کی طرح نہیں ہوتی بلکہ ایک شفاف نظام کی پابند ہوتی ہے ہر عمل میں انفرادی یا اجتماعی فیصلہ جات قرآن و احادیث کے مطابق کرنا ہوتے ہیں اور ان پر عمل اجتماعی نظام کے مطابق ہوتا ہے اس نظام کو ( اجتماعی فیصلوں) یعنی انتخابات کے ذریعے نافذ کیا جاتا ہے جس کا طریقہ یہ ہونا چاہئے کہ ( اہل لعقد )یعنی وہ لوگ جو ووٹ ڈالنے کے قابل ہوں جو ووٹ کی اہمیت سے واقف ہوں اور ان کو کوئی لالچ اور مطلب نہ ہو اور وہ ان لوگوں کو ووٹ دیں جو اس کی اہلیت رکھتے ہوں اور اﷲ سے ڈرنے والے اور لوگوں کی فلاح و بہبود کا نظریہ رکھنے والے ہوں ۔ان اصول و ضوابط پر بننے والی حکومت اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی والی حکومت کہلائے گی۔اور اس طرح خوب صورت معاشرہ ایک دوسرے کے حقوق کے جاننے اور اس کی حفاظت کرنے والوں کا معاشرہ ہو گا۔اور پورا معاشرہ جنت کا مستحق ہوگا انشاء اﷲ۔
Muzaffar Bukhari
About the Author: Muzaffar Bukhari Read More Articles by Muzaffar Bukhari: 23 Articles with 33665 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.