کشمیری پنڈتوں کے بغیر کشمیر ادھورا ہے کا جملہ آخر کب تک زبان پر چلے گا؟

آج کل تیرے میرے چرچے ہرزبان پر سب کو معلوم ہے اورسب کوخبر ہوگئی کہ’’ کشمیری پنڈتوں کے بغیر کشمیر ادھورا ہے کا جملہگزشتہ کم ازکم تین دہائیوں سے استعمال میں لایا جارہاہے جبکہ سیاستدان بھی اس جملیکو مہرہ کے طورپر آج تک استعمال کرتے ہوئے نظر آئے ہیں اور اب سوال یہاں پر یہ پیداہوتا ہے کہ آخر یہ جملہکبھی کشمیری کے دلوں میں احساسات کو پیدا کرے گا یا پھریوں ہی ان کے زبانوں پررسمی طورپر استعمال کرتا ہوا نظر آئے گا اوروہ بھی نہ جانے کب تک؟

جب میں اپنے کندھے کے پیچھے نظر ڈال رہا ہوں تو سچ میں مجھے وہ تمام یادیں ستارہی ہیں جنہوں نے مجھے کبھی چین سے سونے نہیں دیا اورنہ کہیں پر مجھے خاموشی سے بیٹھنے دیا۔ وہ بھی اک زمانہ تھا جب میں بھی کشمیر میں دوسرے ہم ساتھیوں اور بھائیوں سے بھی اچھا خاصہ بسکین دار تھا حالانکہ میری عمر اتنی نہیں تھی لیکن پھربھی میرے اندر بچن کا جوش اورجذبہ بھرپور اور یقینا تھا۔آپسی بھائی چارے کی مثال روایت کے طورپر کشمیر میں اکثر شمار ہوتی تھی اوربابائے قوم مہاتما گاندھی جی بھی اس بات کو اپنے دور ے کشمیر کے دوران پہلے ہی تسلیم کر چکے ہیں۔اس میں دورائے نہیں ہے۔ مجھے ٹھیک سے یاد بھی آرہا ہے کہ ہم بھی آپ کی طرح بچپن میں ایک ساتھ ایک ہی سکول میں لکھائی پڑھائی کرنے کے ساتھ ساتھ ایک ہی میدان میں کھیلتے کود تے تھے۔ بچپن میں شرارتین کیا کرتے تھے۔ایک ہی مقام پر ٹہلتے اور ایک ہی دریا پر نہاتے تھے ۔غرض یہ کہ ایسی کشمیریت کا خواب جو کبھی اب کوئی سوچ بھی نہیں سکتا اوراب میرے نظروں سے بھی بالکل اوجھل ہے۔

کشمیریت خواب کی تلاش میں ہرجگہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک گیا اورکئی خیالات میرے ذہن میں آتے رہے اورنکلتے رہے لیکن آج تک میرے دماغ اورذہن میں کبھی یوں ایسا خیال کیوں نہیں آیا کہ آیا ان دنوں سرکاری اور پرائیویٹ میڈیم انگلش سکولوں کے علاوہ ایک ساتھ یکدم پنچایت گھروں کودینی مدارس میں کیوں تبدیل کیاجارہاتھا۔ دراصل اردو زبان میں نے کافی دیر اور مشقت کے بعد سیکھ لی تبھی اچانک میرے دل میں آج خیال آیا کہ ارے باب میرے بچپن کے دنوں میں پنچایت گھروں کے دینی مدارس میں زیرتعلیم ننھے مننھے بچوں میں کیا پڑھایا جاتا تھااور ان کیلئے کون سا نصاب مخصوص رکھاگیاتھا اس ضمن میں آج بھی میں پوری طرح سے غیر واقف ہوں۔مگر اتنا تو مجھے یہ ضرور یاد ہے کہ ان طالب علموں کی کتابیں اور ہماری کتا بیں اکثر الگ ہوا کرتی تھیں۔

ٹھیک وہی سال 1990ء جس کی میں بات کرتا ہوں ہرجگہ جگہ اتھل پتھل کی شروعات ہوئی تھی اورحالات ناسازگار تھے اور میں اپنے رہائشی مکان کی دوسری منزل پرچائے کے ساتھ ناشتہ کررہاتھا کہ باہرسے زور دورسے نعروں کی آوازیں میری کانوں میں گونج رہی تھیں اور جوں ہی اپنا سر کھڑکی سے باہرنکالا اور ششدر ہوکر رہ گیا اور اچانک نظر پڑتے ہی مجھے معلوم ہوا کہ دینی مدارس کے بچوں کے ہاتھوں میں سرسبز لہراتے ہوئے جھنڈے تھے اور ساتھ میں نعرے لگاتے تھے کہ’’ ادھر کیا چلے گا نظام مصطفےٰ‘‘ کافرو جاگو اوربھاگو‘‘ حالانکہ جن ہاتھوں میں جھنڈے تھے ان کی معصومیت کو دیکھ کرمجھے بالکل حیرانی ہوئی تھی کہ آیا آخر ان بچوں کو اس دنیا کی طرف کون راغب کررہا ہے اورنفرت کی دنیا میں ان کو کون سی طاقتیں دھکیل رہی ہیں۔ بچے بھگوان کی دین ہوتے ہیں ان کاکسی مذہب سے کوئی لین دلین نہیں ہوتا اوریہی وجہ ہے کہ میرے ذہن میں آج بھی یہ سوال اکثر پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ معصوم بچے ان دئیے جارہے نعروں سے خود واقف تھے یا نہیں۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ آج اس بات کا یقین ہورہاہے اورتصور ہوتا ہے کہ انہیں ملک باغی‘ انسانیت کے دشمن کیلئے ذہنی طورپر تیار کیاجارہاتھا جس پر اب شک کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔

آخر وہ کیا بول رہے تھے شائید ان کو بھی اس وقت اس کامطلب سمجھ آتا نہیں ہوگا کیونکہ واضح شوابد ہے کہ وادی کشمیرمیں مادری زبان کشمیری چلتی ہے اور آج بھی وہاں کئی اچھے پڑھے لکھے نوجوان کشمیری زبان کے علاوہ دوسری زبانیں ٹھیک ڈھنگ سے نہیں بول پا رہے ہیں۔بیچ میں ہی آپ کا قیمتی وقت لے رہا ہوں شائید آپ بھی ہنس پڑیں گے اورحقیقت بھی ہے کہ حال ہی میں ایک کشمیری نژاد کے صحافی نے مجھے آکر بتایا کہ ’’ آپ کابھیجا ہوا خط نہیں اُٹھا جارہا ہے‘‘ جبکہ اس کے کہنے کامطلب یہ تھا کہ آ پکا بھیجا ہوا خط صحیح سے نہیں پڑھا جارہاتھا‘‘ دراصل میں تو صحافی صاحب کا تنقید نہیں کررہا ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب کو اس بات سے روشناس کررہا ہوں کہ وادی کشمیرمیں کشمیری زبان زیادہ تر چلتی ہے اورلفظ کافر ‘ جہادٌ نظام مصطفے جیسے الفاظ ان معصوم بچوں کے زبانوں پر کیسے زبانی یاد ہوئے اورکونسی ایسی طاقتیں ہیں جو ذہنی طورپر معصوم لوگوں کے ہاتھوں کشمیریت کاخیرباد کرنے پرتلے ہوئے اوربے گناہ لوگوں کو اپنا شکار بناتے رہے۔

کھڑکی سے جھانکنے کے بعد معصوم بچوں کی معصومیت میں ایسے کارنامے جس کی کلپنا کبھی نہیں کی جاسکتی تھی کو دیکھ کر مجھے میں نہ صرف حیرانی ہوئی بلکہ دکھ اورافسوس ہوا اپنے آپ سے سوچنے لگا کہ آیا آخر ان کاموں کو سرانجاز دینے کیلئے کسی نہ کسی کا ہاتھ ضرور ہوگا ورنہ ان معصوم اورکمسن بچوں کی حماقت اس طرح کی نہیں ہوسکتی اوران کے دلوں میں آپسی منفرت‘ مذہب کے نام پر جنون پیدا کرنے کی صلاحیت کو بڑھاوادیا جارہا تھا جو کہ قابل مذمت اورتنقید کے قابل تھا۔ ان کے دلوں میں جو نفرت کی بیج بوئی جارہی تھی یقینا میں کافی پریشان ہوا کہ آخر مستقبل میں کشمیر کی صورتحال کیا ہوگی جو صحیح معنوں میں آج سب کے سامنے اخذ بیان ہورہا ہے اورمیرا اندازہ بھی بالکل صحیح نکلا وہی ننھے مننھے بچے آج جوان ہوکر سنگ دل ‘ پتھر باز‘ بن کر مجرمانہ کارر وائیاں کرکے کشمیر کے نقشہ سے کشمیریت کو خیرباد کرتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔

کشمیر میں خون خرابہ کا دور ویسے تو سن1990ء سے سرعام ہوا لیکن1986ء میں اننت ناگ کے بس اڈے میں پراسرار طورپر پہلا دھماکہ ہوا تھا جس کو تب کے سرکار وں نے غیرسنجیدگی سے لیا تھا اورکشمیرضلع اننت ناگ کے علاقہ تولی نوپورہ جوکہ محض کھنہ بل سے 5کلومیٹر سے زیادہ دورنہیں ہے مقیم کشمیری پنڈت طبقہ سے وابستہ پریوار وں کے کئی مکانات نذر آتش کردئیے گئے بعدمیں تب کے سرکار وں نے ان کی بازآبادکاری کیلئے کچھ امدادی رقومات فراہم کی تھیں لیکن بعدازاں دو سال کے اندر اندرہی پھر کشمیر کے انتہا پسندوں نے ان کے مکانات دھماکوں سے اڑا دئیے اورکئی آتش ذنی سے تباہ کردئیے۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے اور حریت کانفرنس کے لیڈر سعید علی گیلانی پر آج بھی الزام ہے کہ سعید علی شاہ گیلانی کی ہدایت پر ہی کشمیری پنڈتوں کی وادی کشمیر سے نسل کشی کرنے کی ہدایت دی گئی تھی او ر اس سے قبل ذولفقار علی محمد بھٹو کو 1978ء میں پاکستان میں پھانسی دئیے جانے کے بعد وادی کشمیرمیں جماعت اسلامی سے وابستہ طبقہ جات کے مکانات کو نذرآتش لوٹ کھسوٹ کابازار گرم کرنے کا بھی علی شاہ گیلانی کے منشا پر ہی کیاگیاتھا تاکہ جماعت اسلامی سے وابستہ طبقہ کو سیکولر طاقتوں میں شامل نہ ہونے سے دور کیاجاسکے اور خاص بات تو یہ ہے کہ حریت کانفرنس کے لیڈران بھی کئی بار یہ جملہا استعمال کرتے نظر آئے ہیں کہ کشمیری پنڈتوں کے بغیر کشمیر ادھورا ہے کیونکہ سعید علی شاہ گیلانی کو شائید اب معلوم ہوا ہے کہ کشمیری پنڈت بھی کشمیر کا ایک اہم حصہ اورشریک دار ہے اورطبقہ کو وادی کشمیر سے مبذول کرنا ایک بڑی اہم غلطی کی تھی بعد ازاں اس بات کو بھی اپنے ذہنوں سے درکنار کیا۔

قابل ذکرہے کہ ریاست جموں وکشمیرمیں پی ڈی پی اوربھاجپا کی مخلوط سرکار قیام میں آنے کے ساتھ ہی علیحدگی پسند جماعتوں کی پالیسیوں میں وسیع پیمانہ پر تبدیلیاں نظرآئیں اورپاکستان کی خارجہ پالیسی پر اپنی اعتمادگی کا اظہارکرنے لگے۔کبھی ہڑتالوں کادورشروع کیا۔کبھی آگ زنی کی وارداتیں پھرعمل میں لائے۔کبھی بندوقوں کاگرجنا پھر شروع ہوگیا۔چاروں طرف ماردھاڑ۔صورتحال کی بگاڑنے کی ہرممکن کوشش کی جاری ہے ۔سنگ بازی ۔آتش بازی اورقتل وغارت کا سلسلہ پھر شر وع کیاگیا یہا ں تک کہ کہیں پرممنوع جھنڈے لہرائے گئے یعنی 1990ء جیسے حالات پیدا ہوتے ہوئے نظر آئے۔ دوسری طرف علیحدگی پسند جماعتیں سلامتی کونسل۔اقوام متحدہ کا رخ یا پھر لندن اورواشنگٹن میں مقیم کشمیریوں کے ہاتھوں بھارت سرکار کے خلاف احتجاجی جلوس برآمد کرکے مسئلہ کشمیر بنانے کا پلان مرتب کرنے کی سیاست کھیل کھیلتے نظرآئے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وادی کشمیرسے وابستہ ہرایک فرد ایسے لوگوں کی حمایت نہیں کررہے ہیں بلکہ بندوق کی نوک پران کی زبانیں خاموش کردی گئیں ہیں۔ ہڑتالوں۔پتھربازی اورپلیٹ گنوں اوربندوقوں کی گرجنے کے باعث ریاست کی غریب عوام کافی تنگ دست اورلاچار ہیں۔تجارت سے وابستہ طبقہ اورمزدورپیشہ لوگ خودکشی کیلئے آمادہ ہوچکے ہیں۔غریب لوگوں کی خونی کھیل کھیلی جارہی ہے ۔کئی پریواروں کا سہارا ہی ختم ہوگیا۔کئی یتیم اور بیوہ ہوگئیں علاوہ ازیں شعبہ زراعت اورسیاحت پوری طرح سے بربادی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔مہنگائی کے عالم نے بھی ریاست کی عوام کو پوری طرح سے جھنکجوکرکے رکھ دیاہے۔

کیا اتنا سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی کیا حریت کانفرنس کے لیڈران کبھی سدھریں گے۔ کیا ان کو کبھی عوام کی بددعائیں لگیں گی اورصحیح یہ بھی ہے کہ1975ء سے ہی قومی پارٹی پاکستان حریت کانفرنس نے وادی کشمیرسے سعید علی شاہ گیلانی کو چارج سونپ دیاتھا جس کی بدولت آج ریاست کی عوام سرراہ پرتکلیف میں ہیں۔

آپ کو شاید یہ بھی معلوم ہوگا کہ سعید علی شاہ گیلانی کی قیادت میں حریت کانفرس اب جان چکی ہے کہ اب کشمیری پنڈتوں کا نام سیاست کے شعبہ میں درکار نہیں ہے لہذا وادی کشمیرمیں مقیم کچھ بچے کچھے پنڈتوں کو بھی کشمیر سے بے دخل کرنے کی ہدایت جاری کی جس کے چلتے کئی اورکشمیری پنڈت پریواروں کا وادی کشمیر سے بھاگ جانے کی خبریں موصول ہورہی ہیں اورسعید علی شاہ گیلانی جبکہ واضح کرچکے ہیں کشمیری پنڈتوں کی وادی کشمیرمیں بازآبادکاری نہیں ہونے دیں گے اورمرکزی سرکار کی پالیسی کو کھلے عام مخالفت بھی کی۔سعید علی شاہ گیلانی کی جانب سے اشارے ملنے کے ساتھ ہی ضلع اننت ناگ علاقہ ویوسو۔ مٹن ۔ ضلع پلوامہ ۔ہال اور شوپیاں کے علاوہ کپواڑہ۔گاندربل میں پنڈت کیمپوں میں مقیم پردھان منتری بازآبادکاری منصوبہ کے تحت کام کرنے والے اقلیتی فرقہ سے وابستہ کشمیری پنڈتوں کو نشانہ بناکر انہیں بھاگنے کیلئے مجبورکیا۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ 10-11جولائی کے درمیانی رات کو اچھن پلوامہ میں بھوشن لال نامی کشمیری پنڈت کے مکانات کو نذر آتش کردیا اورپریوار کو سرراہ چھوڑ کر۔سکیورٹی پر معمور پولیس جوان اور انتہا پسند سرعام موقع سے فرار ہوئے۔

آخر کہنا تو غلط نہیں ہوگا کہ وادی کے چند مفاد پرست بے اعتبار ٌ جھوٹے‘ دغا باز لوگ اپنی ذاتی مفاد کے خاطر ریاست میں خون کی ندیاں بہا کر کشمیریت کو ہمیشہ کیلئے دفنا رہے ہیں اوروہیں دوسری طرف’’ کشمیری پنڈتوں کے بغیر کشمیر ادھورا ہے کا جملہ اپنی زبانوں پر لاکر دنیا بھر میں اﷲ پاک کے کرم سے اس وقت سرعام شرمسار ہورہے ہیں اوراب دیکھنا یہ ہے کہ وادی کشمیر کے لوگ پھر’’ کشمیری پنڈتوں کے بغیر کشمیر ادھورا ہے کا جملہ ازبان پرلائیں گے یا نہیں اورہماری نظریں بھی ٹکی ہوئیں ہیں کہ پھر آخر کب تک یہ جملہ اب ا ان کے زبانوں سے پھر سننے کو ملے گا-
Ashok Raina
About the Author: Ashok Raina Read More Articles by Ashok Raina: 2 Articles with 1182 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.