برطانوی ریفرنڈم اور یورپین یونین

حالیہ برطانوی ریفرنڈم (BREXIT)کے نتائج نے یورپی یونین کے مستقبل پر سوال کھڑے کر دئیے ہیں ۔ 51 فیصد برطا نوی لوگوں نے اس کے حق میں ووٹ دیا جہک 48فیصد ووٹ مخالفت میں آئے۔ اگرچہ ووٹوں کا یہ فرق بہت زیادہ نہیں مگر برطانیہ کے مضبوط جمہوری نظام میں عوام کی راۓ کوہی ا ہمیت دی جاتی ہے اور اب عوام کے اس فیصلے کے بعد برطانی یورپی یونین کا حصہ نہیں رہے گا۔ بر یکزیٹ نتائج کے یورپی یونین پرکیا اثرات ہوتے ہیں اس سے پہلے یورپی یونین کی تاریخ کوسمجھنا ضروری ہے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد جب یورپ کی معیشت تباہ ہوگئی تھی تو اس ہولناک جنگ کے بعد دنیا کو دوبارہ ایسی کسی بھی جنگ سے بچانے کیلیے 1945 میں اقوام متحدہ کا قیام بھی عمل میں آیا۔ مگر پھر بھی علاقائی سطح پر یورپ میں قیام امن کی ضمانت کے طور پر اس بات کی ضرورت محسوس کی گی کہ کوئی ادارہ ایسا ہونا چاہئے جو کہ یورپ کو نہ صرف جنگ سے محفوظ رکھے بلکہ یورپین ممالک کو معاشی طور پر استحکام بھی دے۔ اور اسی سلسلے میں فرانس کی طرف سے سب سے پہلا قدم اٹھایا گیا۔ 1950ء میں فرانس کے وزیر خارجہ رابرٹ شومین نے مغربی یورپ کے معدنی وسائل یعنی کوئلے اور اسٹیل کی صنعتوں کے انضمام کا خیال پیش کیا۔ اور اس تجویز کے تحت ایک سال بعد ہی معاہدہ پیرس پر مغربی یورپ کے چھ ممالک بیلجیم، فرانس، اٹلی، لسمبر گ، ہالینڈ اور جرمنی نے دستخط کرتے ہوئے European Coal and Steel Community (ECSC) کی بنیاد ڈالی تھی اور اس کے بعد یورپین یونین نے کامیابیوں کا ایک لمبا سفر شروع کیا ۔ کامن (مشترکہ) مارکیٹ کا قیام،مشتر کہ کرنسی، دفاع، انصاف اور داخلہ امور میں تعاون، لوگوں اور تجارتی سامان کی آزادانہ نقل و حرکت اور ایک کے بعد ایک یورپ کے بیشتر مملک کی اس میں شمولیت نے یورپین یونین کا دائرہ کار ناتیت وسیع کر دیا۔ اور دنیا بھر میں اسےعلاقائی تعاون اورمعاشی ترقی کے حوالے سے ایک مثال کے طور پر دیکھا گیا۔

جااں تک برطانیہ کا تعلق ہے تو بقیہ یورپ سے اس کے تعلقات میں ہمیشہ سے اتار چڑھاو رہا ہے۔ برطانیہ نے خود کو ہمیشہ یورپ کے معملات سے الگ رکھا مگر جنگ عظیم اول اور دوم کی وجہ سے برطانیہ کو نہ صرف یورپی سیاسی معملات میں شامل ھونا پڑا بلکہ ان جنگوں کے درمیان اور ان کے بعد کے حالات میں برطانیہ نے ایک اہم کردار بھی ادا کیا۔ ان جنگون کی وجہ سے یورپ میں کئی اتحاد بنے اور ٹوٹے۔ برطانیہ کو بھی اپنے دیرینہ دشمن فرانس سے بھی دوستی کرنی پڑی۔ برطانیہ نے فرانس کو جرمنی کی جارحیت سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1945 میں جنگ عظیم دوم کے بعد یورپ میں امن کیلیے اتحاد کی ضرورت کے تحت ہی یورپین یونین کی سوچ پیدا ہوئ ۔ مگر 1951 میں جب European Coal and Steel Community (ECSC) کی بنیاد رکھی گی تو برطانیہ اس میں شامل نہ ہوا۔ جبکہ یورپ کے دو بدترین دشمن فرانس اور جرمنی فراغ دلی سے اس کمیونٹی میں شامل ہو ے اور اپنی معیشتوں کی بحالی پر تیزی سے گامزن ہوے۔ چناچہ برطانیہ نے بھی 1961 میں اس کمیونٹی میں شامل ہونے کی درخواست دی مگر فرانس کے صدر چارلس ڈی گالے نے اس کی مخالفت کی۔ انہیں ڈر تھا کہ کہیں اس یورپی اتحاد میں برطانیہ کا اثر و رسوخ بہت ذیادہ رہے گا۔ انھوں نے برطانیہ پر الزام بھی لگایا کہ وہ یورپین اتحاد کے حق میں بالکل نیھں بلکہ وہ امیریکہ سے زیادہ قربت کا خواہش مند ہے۔ آاخرکار فرانس کے صدر چارلس ڈی گالے کے دورہ صدارت کے ختم ہونے کے بعد ہی1973 میں برطانیہ کی یورپی کمیونٹی میں شمولیت کی راہ ہموار ہوئی۔

European Economic Community (EEC)برطانیہ 1973 کا ممبر بنا۔ اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ایڈورڈ ھیتھ نے اس اقدام کو برطانیہ کیلے خوشحالی کا ایک نیا دوربھی قرار دیا مگر 1991 میں معائدہ میشٹرچٹ پر دستخط کے ساتھھ یورپین یونیین میں ایک کرنسی یورو کو رائج کرنے کا فیصلہ کیا گیا جسکا اصل مقصد تجارت میں امریکی ڈالر کی برتری کو ختم کرنا تھا تو اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم جان میجر نے برطانیہ کے یورپین کمیونٹی میں رہنے کی حمایت کی مگر برطانیہ میں یورو کرنسی کے نفاذ پر انکار کر دیا۔ یوں 2002 میں یورو برطانیہ میں اپنی جگہ نہ بنا سکا اور برطانیہ کے یورپین یونیین کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کی رکاوٹوں کا بھی آغاز ہو گیا۔ مختلف سیاسی اور معاشی معملات میں برطانیہ کی یورپین یونیین میں شمولیت اور اس کے تحت قوائد و ضوابط پر پابندی پر عمل کرنے سے متعلق برطانوی سیاسی پارٹیوں میں بھی اختلاف رہا۔

بریکزیٹ ریفرنڈم کے نتائج اور ان کے اثرات پر بات کی جاے تو یہ بات واضع ہے اس کا سب سے پھلا اثر خود برطانیہ کی سیاست پرنظر آیا۔ ان نتائج کے ساتھ ہی برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے استعفہ دیا۔ جبکہ دوسری طرف برطانیہ میں تقریبا 17 لاکھ لوگوں نے اس ریفرنڈم کو دوبارہ کرانے کی خواھش ظاہر کی۔ خاص طور پر برطانیہ کی نوجوان نسل ان نتائج پر خوش نہیں مزید اسکاٹ لینڈ جھاں ذیادہ تر لوگ برطانیہ کے یورپین یونیین میں رہنے کے حق میں تھے وہاں بھی اب ایک بار پھر برطانیہ سے ھی الگ ہونے کی مہم شروع ہو سکتی ہے۔ برطانیہ میں اس فیصلیے سے آگے مزید کیا اثرات مرتب ہوں گے یہ تو وقت ہی بتاے گا مگر یہ بات طے ہے کہ اس کی ابتدا ہی اچھی نہیں ہوئی۔ دوسری طرف خود یورپین یونین کےچھ بانی ممالک ممالک بیلجیم، فرانس، اٹلی، لکسمبرک، ہالینڈ اور جرمنی نے برطانیہ کے اس فیصلے کو نہ صرف فوری قبول کرلیا بلکہ برطانیہ سے کہاہے کہ وہ اب جلد سے جلد یورپین یونین سے نکلنے کے مراحل کا آغاز کرے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یورپین یونین کو برطانیہ کے نکلنے سے کو خاص فرق نہیں پڑتا۔ البتہ یورپین یونین کے بانی ممالک کو اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں یونین کے دوسرے ممالک میں بھی اس طرح کے ریفرینڈم کا آغاز نہ ہو جائے اور برطانیہ کے اس فیصلے سے یونین کے مستقبل پر کوئی اثر پڑے۔یورپین یونین نے1951 سے کامیابیوں کا ایک لمبا سفر طے کیا ہے اور اس پورے سفر میں سب سے ذیادہ جس چیز کا خیال رکھا گیا وہ تھا یورپ کا امن اور معیشت کی بحالی۔ بلاشبہ اس میں وہ کامیاب بھی رہے۔ اور ایک نئی سیاسی اور معاشی قوت بن کر ابھرے۔ یوپین یونین کو دنیا کے دوسرے خطوں مشلا مشرق بعید، جنوبی ایشیا، افریقہ، جنوبی امریکہ میں بھی ایک ماڈل کے طور پر دیکھا جا رہاہے تاکہ وہاں بھی اسی طرز کا باہمی تعاون تشکیل دیا جا سکے۔ دنیا کے بیشتر ممالک نے برطانوی ریفرنڈم (BREXIT)کے نتائج پر اور یورپین یونین کے مستقبل پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ آنے والا وقت یورپ کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔
Imran Ahmed Lakha
About the Author: Imran Ahmed LakhaCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.