گؤ رکشا کے نام پر اب عورتیں بننے لگیں نشانہ!

دادری ہو یا بابری،ملک کے حالات ہیں کہ سدھرنے کا نام نہیں لے رہے!شاید یہ کہنا زیادہ مناسب ہو کہ حالات کو سدھرنے دیا ہی نہیں جا رہا! اچھے دن انسان کے آئے ہوں یا نہ آئے ہوں، گایوں کے ضرور آگئے۔ دیکھیے نہ جہاں گایوں کو انسان پر ترجیح دی جائے، وہاں گایوں کے اچھے دن ہوئے کہ نہیں! حالات اس وقت یہ ہیں کہ ایک زخم بھرتا نہیں کہ نئی اور تازہ خبر ایک نیا گھاؤدے جاتی ہے۔گذشتہ دنوں دادری میں جس ’اخلاق‘ کا جنازہ نکالاگیا تھا، اب تک اس کو انصاف کیا ملتا، الٹا اس کے گھر والوں پر شکنجہ کسے جانے کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ جگہ جگہ گائے کے گوشت کا نام لے کر ایک آتنک مچا ہوا ہے، جس کے ذریعے اقلیتوں کو حراساں کرنے کی مسلسل کوششیں کی جا رہی ہے۔حال ہی میں (26جولائی 2016) کو اس سلسلے کا ایک اور افسوس ناک بلکہ شرم ناک واقعہ رونما ہوا ہے، جس کی ویڈیوں بھی یو ٹیوب پر موجود ہے اور جس پر ایوان میں ہنگامہ آرائی بھی ہوئی، ویسے عوام ہنگامہ آرائی نہیں مسائل کا حل چاہتے ہیں۔اس خبر کو پڑھ کر برجستہ یہ چند سطریں معرضِ وجود میں آگئیں جو ہدیۂ قارئین کی جا رہی ہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ’مندسور‘ جو کہ مدھیہ پردیش کی راجدھانی بھوپال سے 300 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک قصبہ ہے، وہاں پولیس کی آنکھوں کے سامنے، دو مسلم خواتین کو بیف رکھنے کے الزام میں زدوکوب کیاگیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ خواتین کے ساتھ انتہائی نازیبا حرکتیں کی گئیں جس پر عوام کی ایک بڑی تعداد محض تماش بیں بنی رہی۔ اطلاعات کے مطابق پولیس نے دونوں خواتین کو ریلوے اسٹیشن پر بیف کی اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیا اور کہا جا رہا ہے کہ جب گؤ رکشا سمیتی کے اراکین خواتین سے مار پیٹ اور گالی گلوچ کر رہے تھے تو پولیس والے بھی وہیں موجود تھے۔ تماشہ بینوں نے ’نظارے کا پورا لطف اٹھایا ‘اور کسی نے خواتین کے ساتھ ہو رہی اس مار پیٹ کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔واقعے کا جو ویڈیوں وائرل ہوا ہے، اس کے مطابق خواتین کے ساتھ گؤ رکشک سمیتی کے اراکین نے زد و کوب کا سخت معاملہ کیا اور پولیس نے اپنی ’ڈیوٹی نبھاتے ہوئے‘ آخر میں بیچ بچاؤ کرنے کی معمولی سی کوشش کی۔حیرام کن تو یہ بھی ہے کہ پولیس کی طرف سے خواتین کو پکڑے جانے کے بعد بھی اسٹیشن پر موجود لوگ خواتین کے ساتھ مار پیٹ کرتے رہے اور خواتین کوہاتھوں اور لاتوں سے مارتے رہے اور پولیس کی نظروں کے سامنے تقریباً آدھے گھنٹے تک یہ سب کچھ جاری رہا۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ خواتین کے پاس 30 کلو گوشت ملا ہے، جس کے متعلق مقامی ڈاکٹروں کی تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ گوشت بھینس کا تھا، گائے کا نہیں۔ویسے ایک اور بات بتادیں کہ اتنا سب ہونے کے بعد بھی خواتین کے خلاف کارروائی جاری رکھنے کی بات کہی گئی ہے، بہ ایں وجہ کہ ان کے پاس گوشت فروخت کرنے کا اجازت نامہ نہیں تھا، جب کہ ان کے ساتھ مار پیٹ کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ہاں ریاست کے وزیرِ داخلہ کا کہنا ہے کہ کوئی بھی قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا، اس پورے معاملے کی جانچ کی جائے گی۔ان دونوں خواتین کا ایک مختصر انٹرویو بھی یوٹیوب پر آیا ہے، جس مین ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس تیش کلو نہیں فقط 12-15کلو گوشت تھا اور جس کی پرچی وغیرہ ان کو گھیرنے والوں نے پہلے ہی پھاڑ دی تھی۔ وہ دونوں ان سے منت سماجت کرتی رہیں کہ گوشت گائے کا نہیں ہے آپ چاہیں تو اس کی جانچ کروالیں، لیکن کسی نے ان کی ایک نہیں سنی اور پچاس ساٹھ آدمیوں نے مل کر انھیں بری طرح پیٹا۔ حد تو یہ ہے کہ حقیقت پتہ چل جانے کے بعد بھی کہ گوشت گائے کا نہیں تھا، پولیس نے ان مار پیٹ کرنے والوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا، اس لیے کہ اسے تو ’جناکروش‘ کا نام دے کر ٹالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ نیز ان خواتین نے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے جن سے گوشت خریدا تھا ان قصائیوں کو بلایا‘ تو پولیس نے ان قصائیوں سے 10,000 اور ان خواتین سے 6500روپئے لے کر انھیں جانے دیا، جس کی انھیں کوئی رسید بھی نہیں دی گئی۔

یہ اس سلسلے کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے قبل بھی حال ہی میں گجرات کا ایک ویڈیو سامنے آیا تھا جس میں چار دلتوں کو مردہ گائے کی چمڑی نکالنے کے جرم میں کار سے باندھ کر پیٹا گیا تھا۔ہماری سمجھ سے پرے ہے کہ آخر کب تک گایوں کے نام پرحالات کو اس طرح بے قابو ہوتے ہوئے دیکھا جاتا رہے گا اور کب اس کی روک تھام کی کوئی صورت نکلے گی۔ ایک بات تو یہ ہے کہ اس طرح انسانی قدر و قیمت کو کم کیا جا رہا ہے، دوسرے اس طرح اقلیتی طبقے کو نشانہ بنا کر مسلسل انھیں ٹارچر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جس پر مناسب شرح میں کوئی احتجاج بھی سامنے نہیں آرہا ہے، یہی وجہ ہے کہ دادری کے اخلاق معاملے میں جب کہ یہ باتیں ابتدا ہی میں صاف ہونے لگی تھیں کہ وہ گوشت بھی گائے کا نہیں تھا، اب پھر اس کے خاندان کے ساتھ سختی کا معاملہ کیا جا رہا ہے اور خبریں یہاں تک آئی ہیں کہ دوسری بار کی جانچ میں گوشت کا نمونہ ہی تبدیل کر دیا گیا۔

اس طرح بات صرف ان دو خواتین کی یا اخلاق کے خاندان یا چند دلتوں کی نہیں، بلکہ پوری انسانیت کی ہے۔ انسانی خون کی یہ ارزانی دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ ہم ترقی کی باتیں کرنے والے آج بھی کس ماحول میں جی رہے ہیں۔قانون کی بالا دستی کا یہ عالم ہے کہ ٹھوس ثبوت کے سامنے آنے سے پہلے ہی ایک گروہ پولیس کے سامنے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور اس کی کوئی باز پرس بھی نہیں کی جاتی، اس طرح حالات نہ بگڑیں تو کیا ہو۔ملک کی سالمیت کے لیے نہایت ضروری ہے کہ ہر شہری کا دل امن کے حوالے سے مطمئن ہو، اس لیے کہ جب امن غارت ہوتا ہے تو پھر بدامنی پھیل جاتی ہے، جس کے برے نتائج کو الفاظ میں بیان کرنا شاید ضروری نہیں۔ہماری دلی تمنا اور درخواست ہے کہ اس طرح کی گنڈہ گردی پر قدغن لگانے کے لیے ٹھوس اقدمات کیے جائیں اور کہیں ٹھوس ثبوت کی روشنی میں قانون کی خلاف ورزی سامنے آئے تو عدالت اس کا فیصلہ کرے،ورنہ اس طرح کسی خاص گروہ کے بے قابو ہوجانے پر اس کی باز پرس نہ کرنا حالات کو مزید خراب کر سکتا ہے۔ آج ایک گروہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچی، وہ بے قابو ہو گیا، کل کسی اور گروہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی اور وہ بے قابو ہو جائے گا، اگر یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو قانون اور ملک کی کیا درگت ہوگی؟اب بھی وقت ہے سنبھل جائیے، ورنہ جب کوئی عمومی وبا آتی ہے تو وہ سب کو بلا امتیاز اپنی لپیٹ میں لیتی ہے۔ اگر کسی کے گھر میں آگ لگ جائے تو چنگاری تو پڑوسی کے گھر تک پہنچ ہی جایا کرتی ہے!
Maulana Nadeem Ahmed Ansari
About the Author: Maulana Nadeem Ahmed Ansari Read More Articles by Maulana Nadeem Ahmed Ansari: 285 Articles with 307437 views (M.A., Journalist).. View More