مقروض ملک کے صدر کے لیے 34گاڑیوں کا پروٹوکول

صدر مملکت ممنون حسین

اسلامی جنہوریہ پاکستان کے صدر قبلہ ممنون حسین صاحب ایک شادی میں شرکت کے لیے اسلام آباد سے لاہور تشریف لے گئے۔ رپورٹ کرنے والوں نے رپورٹ کی کہ اسلام آباد ائر پورٹ پر ان کا استقبال چیف سیکریٹری پنجاب کیپٹن (ر) زاہد سعید اور آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا سمیت دیگر اعلیٰ حکام نے کیا۔ صدر گرامی محترم ممنون حسین کے ایئر پورٹ سے نکلتے ہی اسلام آباد سے آئی ان کی گاڑیوں کے ساتھ چیف سیکریٹری اور آئی جی پنجاب کے پروٹوکول اور سیکورٹی کی گاڑیاں بھی شامل ہوگئیں ۔ اس دوران ٹریفک پولیس کی گاڑیاں اور موٹر سائیکل اسکواڈ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ صدر محترم جب گورنر ہاؤس پہنچے تو پروٹوکول کی گاڑیوں کی مجموعی تعداد34 ہوگئی تھی۔

ہر گاڑی کا ایک چلانے والا تو ضرور ہوگا اور کم از کم ہر گاڑی میں تین سے چار افراد تو لازمی بیٹھے ہوں گے۔ اگر یہ تعداد چار بھی شمار کرلی جائے تو افرادی قوت جو پروٹوکول اسکواڈ کے ساتھ تھا اس کی تعداد 134بن جاتی ہے۔ اب آتے ہیں ان غریب پولیس والوں کی جانب جو لاہور ائر پورٹ سے گورنر ہاؤس تک تھوڑے تھوڑے فاصلے پر صدر گرامی کی حفاظت کے لیے معمور کیے گئے ہوں گے۔ ان گاڑیوں میں کتنا پیٹرول لگا ہوگا، اس کی مالیت کیا ہوگی،صدر صاحب کو ایئر پورٹ سے گورنر ہاؤس تک پہنچنے میں کتنا وقت لگا ہوگا، زیادہ سے زیادہ آدھاگھنٹہ ، بلکہ اس سے بھی کم، اس لیے کہ وی وی آئی پیز کا اسکواڈ ہوائی گھوڑے پر سوار ہوتا ہے، مجال نہیں کہ اس کے راستے میں دور دور تک کوئی پرندہ پر بھی مار سکے۔اس آدھے گھنٹے میں ملک و قوم کا کتنا سرمایہ بلا وجہ اور غیر ضروری طور پر پھونک دیا گیا۔ تمام تر اخراجات جمع کیے جائیں تو آدھے گھنٹے میں ہزاروں نہیں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے جل کر خاک ہوگئے۔ پھر صدر صاحب گورنر ہاؤس سے شادی ہال بھی تشریف لے گئے ہوں گے، واپس گورنر ہاؤس بھی آئے ہوں گے اور پھر جیسے اسلام آباد سے آئے اسی طرح واپس بھی تشریف لے گئے ہوں گے۔ شادی میں شرکت سرکاری تقریب نہیں بلکہ یہ ان کا نجی اور ذاتی فعل ہے۔ اس پر سرکار کا سرکاری پروٹوکول اور ملک و قوم کا سرمایا کیا انصاف کے زمرے میں آتا ہے؟

چند گھنٹے قبل سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ صاحب نے گورنر ہاؤس میں اپنے عہدے کا حلف اٹھا یا۔اپنے ابتدائی کلمات میں انہوں نے دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی فرمایا کہ میرے پرٹوکول کو کم رکھا جائے اور یہ کہ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنے میں ایسے وقت کا انتخاب کریں گے کہ ٹریفک میں کم سے کم خلل واقع ہو۔ یہ بہت ہی اچھی بات ہے خدا کرے نئے وزیر اعلیٰ اپنی اس خواہش پر عملی طور پر عمل کرانے میں کامیاب بھی ہوجائیں۔ بات صدر مملکت کے پروٹوکول کی کر رہا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کے بڑے لوگوں کو تھریڈ ہوتے ہیں، ان کی حفاظت متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے، انہیں ہر قیمت پر ان ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا میں ہر جگہ ، ہر ملک اور ہر شہر میں دہشت گردی عام ہے۔ ہمارے ملک میں دہشت گردی کے جتنے واقعات ہوچکے اور جس قسم کے تھریڈ موجود ہیں ان کے پیش نظر وی وی آئی پیز کی حفاظت انتہائی اہم اور ضروری ہے لیکن ضرورت سے بڑھ کر کوئی کام کرنا کسی بھی اعتبار سے مناسب نہیں۔ ہمارا ملک غریب ملکو ں کی فہرست میں آتا ہے، ہمارے وسائل محدود ہیں، ہم پہلے ہی بہت مقروض ہیں ، ہماری معیشت قرض پرکھڑا ہوئی ہے۔ ہمارے وزیر خزانہ قرض لینے میں ماہر القادری ہیں ، قرض کے حوالے سے جس کسی حکومت، ادارے سے گفتگو کرتے ہیں اسے اس طرح شیشے میں اتارلیتے ہیں کہ عالمی بنک ہو یا آئی ایم ایف اسحاق ڈار کی باتوں میں فوری آجاتے ہیں اور پاکستان کو قرض کی قسط منظور ہوجاتی ہے۔ جو بظاہر تو اچھا عمل لگتا ہے لیکن ہمارا ملک اور قوم قرض کے ظالم پھندے میں مسلسل جکڑتی جارہی ہے۔ اﷲ سے دعا ہی کرسکتے ہیں کہ پروردگار ہمیں ایسے حکمراں نصیب فرما ں جو اس ملک کو اس قوم کو تمام طرح کے قرضوں سے نجات دلا سکیں، موجودہ حکومت سابقہ حکومتوں کے نقشے قدم پر رواں دواں ہے۔ انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ پاکستانی قوم مقروض ہے بلکہ ہر پیدا ہونے والا پاکستانی بچہ مقروض پید ا ہورہا ہے۔ ہمیں قرض جیسی لعنت سے کب چھٹکارا نصیب ہوگا ، اس کے دور دور آثار بھی نظر نہیں آرہے۔

دکھ اورافسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمراں جب تک حکومت میں نہیں ہوتے بلکہ حکومت کے حصول کی جدوجہد کے مرحل میں ہوتے ہیں اس وقت انہیں وی وی آئی پیز کا پرٹوکول زہر نظر آتا ہے، اس پر کڑی تنقید کرتے ہیں، اس بات کا اعلان بھی کرتے ہیں کہ اگر ہم حکومت میں آگئے تو پروٹوکول کے اس رواج کی زنجیریں توڑ ڈالیں گے،جیسا کہ سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ نے آج ہی اعلان فرمایا۔ سادگی اختیار کریں گے، کشکول پھینک دیں گے، قرض نہیں لیں گے ، لیکن جب وہی سیاسی پنڈت اس منصب پر فائز ہوجاتے ہیں،انہیں پروٹوکول ضروری محسوس ہونے لگتا ہے،اپنی جان کی زیادہ فکر اور قوم کی فکر سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ ان کی آنکھیں اس قسم کے پروٹوکول کو دیکھنا بند کر دیتی ہیں، قرض کا حصول ملک و قوم کے مفاد میں محسوس ہونے لگتا ہے۔ کشکول توڑ نا تو دور کی بات یہی کشکول فخر کی علامت نظر آرہا ہوتا ہے۔ قرض کی قسط منظور ہونے پر فخر اور خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔

میں نے اپنی بات کو پروٹوکول سے شروع کیا تھا لیکن پاکستان قرضو ں کی صورت حال پر ختم کرتا ہوں ۔ہفتہ 30جولائی 2016 کی رپورٹ جو ایک اخبار نے شائع کی اس کے مطابق ’پاکستان کو ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف سے ایک ارب 34کروڑ ڈالر کا قرض ملنے کے بعد بیرونی قرضوں کا حجم 50ارب 85کروڑ ڈالر سے بڑھ کر52ارب 19کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا ہے جو ملک کی مجموعی پیداوار کے مقابلے میں 30فیصد کے لگ بھگ ہے ۔بیرونی قرضوں کے مطابق اب ملک کا ہر شہری 313.896ڈالر (25205.89روپے) کا مقروض ہوگیا ہے۔ پاکستان کے ذمے آئی ایم ایف کے قرضے کا حجم 4ارب35لاکھ ڈالر سے بڑھ کر 5کروڑ 20لاکھ ڈالر تک پہنچ گیا ہے‘۔ قرضوں کی صورت حال سابقہ حکومتوں کے ادوار میں اس قدر دِگرَگُوں نہ تھی۔ماہرینِ اقتصادیات کا کہنا ہے کہ بیرونی قرضوں سے پیداوری صلاحیت بڑھ نہیں رہی ۔ مستقبل میں پاکستان کو بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں سخت مشکلات کا سامنا ہوگا۔ یہی نہیں بلکہ حکومت وقت کے ذمے اندرونی قرضو ں کا حجم 3600ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ ایسی صورت حال ملک و قوم کے لیے ، معیشت کے لیے کسی بھی طرح مناسب نہیں۔ قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ملک کے حکمرانوں کو بلاوجہ کے اخراجات سے گریز کرنا چاہیے۔ یہ شان و شوکت سب آنی جانی چیزیں ہیں۔ کون سا حکمراں اپنے ساتھ یہ شان و شوکت اور یہ پروٹوکول لے گیا، سب کچھ یہی رہ جانا ہے ۔ملک و قوم کی فکر اور اس کی فلاح و بہبود کو اپنی ترجیحات میں رکھنا ہی دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔ (30جولائی2016)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1292089 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More