قرآن و سنت میں شرعی وسیلے

وسیلہ کے غلط تصور سے عقیدہ توحید میں بہت زیادہ بگاڑ پیدا ہوتا ہے- جو لوگ وسیلہ کے مسئلے پر ٹھوکر کھائے ہوئے ہیں، وہ اپنی دعاؤں اور حاجات کو بلا جھجھک غیر اللہ کے سامنے پیش کرتے ہیں اور ان کے وسیلے سے نجات کے طلب گار ہوتے ہیں- وسیلے کے مفہوم پر غور کیا جائے تو اس کی دو اقسام معلوم ہوتی ہیں-
1/ شرعی وسیلہ جو کتاب و سنت پر مشمل ہے-
2/ غیر شرعی وسیلہ جو انسان کو شرک کی اتھاہ گہرائیوں میں گرا دیتا ہے-

وسیلے کا لغوی معنی قرب حاصل کرنا ہے- شریعت میں وسیلہ کا مطلب ہے کہ جس چيز کے ذریعے مطلوب کا قرب حاصل کیا جائے یعنی وسیلہ ایک واسطہ اور سبب ہے- قرآن و سنت میں شرعی وسیلے کی جن انواع کا پتہ چلتا ہے، وہ تین ہیں-

اسماء الحسنی اور صفات الہیہ کا وسیلہ:
جب کبھی انسان کوئی دعا کرے تو اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کے پاکیزہ ناموں کا واسطہ دے کر اس سے سوال کرے- جیسے کوئی انسان اللہ کی رحمت کا امیدوار ہو تو اس کی صفت الرحمن الرحیم کے واسطے سے دعا کرے- کوئی بیمار ہو تو اس کی صفت الشافی کے وسیلے سے دعا کرے جیسا حدیث شریف میں آتا ہے:

" اذھب الباس رب الناس واشف انت الشافی۔۔۔۔۔۔۔"
( بخاری، کتاب المرضی، باب دعاء العائد لمریض، حدیث: 5675)

اسی طرح:

" یا حی یا قیوم برحمتک استغیث"
( سنن ترمذی، کتاب الدعوات، باب 91، حدیث: 3524)

اس طرح اسم اعظم کے وسیلے سے دعا کرنا جیسے:
" الم، اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم، والھکم الہ واحد لا الہ الا ھو الرحمن الرحیم"
(سنن ابی داؤد، کتاب الوتر، باب دعاء، حدیث: 1496)

قرآن کریم میں ارشاد الہی ہے کہ:

" وللہ الاسماءالحسنی فادعوہ بھا" الاعراف:180
( یعنی اللہ تعالی کے اچھے اچھے نام ہیں- اس لیے اس کو ان کے ساتھ پکارو)

دعاؤں میں نیک اعمال کا واسطہ دینا:
جب کوئی شخص اپنی دعا میں اللہ رب العزت کو اپنے نیک اعمال کا واسطہ دے کہ اے اللہ! فلاں وقت میں نے نیکی کا فلاں کام کیا تھا- تو اس کو جانتا ہے- میں التجا کرتا ہوں کہ میرا یہ مسئلہ حل فرما دے- اس کی دلیل وہ مشہور و معروف قصہ ہے جو صحیح بخاری اور دیگر کتب حدیث میں آیا ہے کہ: " جب تین آدمی غار میں پھنس گئے- باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ تھا- غار کے منہ پر پتھر رکھا ہوا تھا- اس وقت انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور اپنے اپنے نیک عمل کے واسطے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے لگے- ان میں سے ایک کہنے لگا کہ میرے والدین نے مجھ سے دودھ مانگا- رات کا وقت تھا جب میں دودھ لے کر ان کے پاس پہنچا تو وہ سوچکے تھے- میں نے انہیں بے آرام نہ کیا اور ساری رات ان کے سرہانے رہا کہ جب وہ بیدار ہوں تو میں انہیں دودھ پیش کروں- اے اللہ میری اس نیکی کے بدلے غار کے منہ سے پتھر ہٹا دے- چنانچہ پتھر کچھ ہٹ گیا- دوسرے نے اپنے پاکیزہ کردار کی بات کی- اس کی ایک عزیزہ کسی ضرورت کے تحت پریشان ہوکر اس کے پاس آئی- قریب تھا کہ وہ اپنی نفسانی ضرورت پوری کر لیتا لیکن محض اللہ کے خوف سے وہ برائی کے ارتکاب سے باز رہا- اس شخص نے اپنا یہ نیکی کا کام اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیا- چنانچہ پتھر مزید ہٹ گیا- تیسرے شخص نے اپنی امانت و دیانت کا ایک واقعہ پیش کیا اور اس کے وسیلے سے رحمت خداوندی کا امیدوار ہوا- لہٰذا پتھر پوری طرح غار کے دھانے سے ہٹ گیا"- اس طرح ان لوگوں کو اپنے نیک اعمال بارگاہ رب العالمین میں بطور وسیلہ پیش کرنے کے بعد مصیبت سے نجات ملی-
( بخاری، کتاب احادیث انبیاء، باب حدیث الغار، حدیث: 3465)

یہ حدیث شریف اس بات پر دلالت کرتی ہے دعا کرتے ہوئے اپنے نیک اعمال اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیے جاسکتے ہیں- ان کے وسیلے سے دعا بھی ہوسکتی ہے اور یہ زیادہ مستحب ہے-

cont....
Asim
About the Author: Asim Read More Articles by Asim: 11 Articles with 25313 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.