’ہمپہ الزام ہے یہ، چور کو کیوں چور کہا‘۰۰۰

عجیب بات ہے اب سچ بولنے پر بھی پابندیاں عائد کی جارہی ہیں ۔کہنے کو تو یہ ایک جمہوری ملک ہے اور آئین و قوانین کے مطابق یہاں ہر شخص کو اپنی بات اور اپنے خیالات کے اظہار کی آزادی ہے
بابائے قوم مہاتما گاندھی کا قتل کس نے کیا اورقتل کا مقدمہ کس پرچلااورکس نے عدالت میں یہ بیان دیا تھا کہ میں نے گاندھی کا قتل اس لئے کیا کہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے معاملے میں جانبداری برت رہے ہیں اور ہر موقعے پر مسلمانوں کی حمایت کرتے ہیں ۔اس سوچ نے میرے سینے میں نفرت بھڑکادی اورمجھے اس بات پر آمادہ کیا کہ میں ایسے شخص کا وجود ہی کیوں نہ مٹادوں جوہندوہوتے ہوئےبھی ہندوؤں کی محالفت کرتا ہے ۔یہ سوال جس سے بھی پوچھا جائے تو کیا وہ ناتھورام گوڈسے کے علاوہ بھی کسی کا نام لے سکتا ہے ؟یہ سچ ہے کہ تاریخ سے ذرا بھی دلچسپی رکھنے والا ہر شخص یہ جانتا ہے کہ مہاتما گاندھی کا قاتل گوڈسے ہے ۔اور یہ بھی سچ ہے کہ گوڈسے کا جب بھی ذکر ہوگا ، آرایس ایس سے اس کے گہرے روابط کا بھی تذکرہ ہوگا ،اتنا ہی سچ یہ بھی ہے کہ جب کوئی فرد اچھے یا برے کام انجام دیتا ہے تو اس کا کریڈٹ صرف اسے ہی نہیں ، اس تنظیم یا جماعت کو بھی جاتا ہے جس سے وہ وابستہ ہوتا ہے ۔اس تناظر میں گوڈسے کے ساتھ آرایس ایس کا تذکرہ بھی ناگزیر ہوجاتا ہے ۔

گذشتہ کئی دنوں سے یہ خبرگرم ہے کہ راہل گاندھی کو عدالت عظمیٰ نے اس بات پر سرزنش کی ہے کہ انہوں نے کچھ عرصہ قبل ایک انتخابی مہم کے دوران مہاتما گاندھی کے قتل کیلئے آرایس ایس کو ذمہ دار قرار دیا تھا ۔اس معاملے میں جسٹس دیپک مشرا اور جسٹس آرایف نریمن کی بنچ نے یہ اشارہ دیا تھا کہ انہیں ہتک عزت کے مقدمے کا بھی سامنا ہوسکتا ہے اوراپنی بے گناہی ثابت کرنے کی مکمل ذمہ داری بھی انہی کی ہوگی ۔عجیب بات ہے اب سچ بولنے پر بھی پابندیاں عائد کی جارہی ہیں ۔کہنے کو تو یہ ایک جمہوری ملک ہے اور آئین و قوانین کے مطابق یہاں ہر شخص کو اپنی بات اور اپنے خیالات کے اظہار کی آزادی ہے ۔لیکن یہ آزادی لامحدود نہیں ۔کسی کی بھی آزادی وہاں جاکر ختم ہوجاتی ہے جہاں کسی کی عزت و آبرو خطرے میں پڑجائے اور اس کے نقصانات کا آغاز ہوجائے ۔راہل نے گاندھی جی کے قتل کی ذمہ داری آرایس ایس پر ڈالی، جس کے جواب میں راجیش مہادیو کٹے نےبھیونڈی کی عدالت میں ہتک عزت کا مقدمہ درج کروایا تھا، جسے رد کرنے کیلئے راہل ممبئی ہائی کورٹ پہنچے لیکن وہاںسے مایوسی کے بعد انہوں نے عدالت عظمیٰ میں عرضی داخل کی ۔عدالت نے راہل کو نصیحت کی کہ وہ اس معاملے میں افہام و تفہیم سے کام لیتے ہوئے معافی مانگ کر معاملے کو رفع دفع کردیں ، لیکن راہل نے معافی سے انکار کردیا ہے اور تادم تحریر اپنے بیان پر قائم ہیں ۔

اب ذرا تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھتے چلیں ۔منگل ۱۹؍جولائی کے اخبارات نے جہاں راہل کے تعلق سے یہ خبر شائع کی ہے وہیں یہ دو خبریں اور بھی موجود ہیں ۔ایک خبر وشوہندوپریشد کے پروین توگڑیا کے تعلق سے ہے جس میں انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ دو سے زائد بچوں والوں سے ساری بنیادی سہولتیں چھین لی جائیں ۔توگڑیا کی یہ باتیں کیا آئین و قانون کی روسے درست ہیں ، کیا انہیں ملک کے موجودہ قوانین اور آئین پر اعتماد نہیں ہے جس میں ظلم و جبر کی کوئی گنجائش نہیں اور وہ عوام پر ظلم و جبر کا مشورہ دے رہے ہیں ۔اس طرح کی اشتعال انگیز باتیں کیا دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتیں ۔دوسری خبر شیو سینا سے راجیہ سبھا کے رکن سنجےراوت سے متعلق ہے ، انہوں نے ایک قدم اور آگے بڑھ کر اسلامی مبلغ ذاکر نائیک کا موازنہ مشہور ڈان داؤد ابراہیم سے کیا ہے اورحکومت کو مشورہ دینے کی جسارت کی ہے کہ وہ ملک میں موجود داؤد ابراہیم کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرے ، ساتھ ہی یہ چیلنج بھی کیا ہے کہ اگر حکومت میں صلاحیت ہے تو وہ پہلے داؤد کو چھوڑ کر اس دوسرے داؤد ذاکر نائیک کو گرفتار کرے جو اس ملک میں ایک اور پاکستان بنانے کے خواب دیکھ رہا ہے۔

توگڑیا اور راوت دونوں کا معاملہ صرف اور صرف منھ زوری کا ہے ۔وہ دونوں کھلے عام اپنے شرپسندانہ بیانات سے ملک کی اس قدیم گنگا جمنی تہذیب کو تہس نہس کرنے پر تلے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں ہولناک ہندو مسلم تصادم پھوٹ سکتا ہے ۔کیا ان کے خلاف سرکاری اور عدالتی سطح پر سخت ترین مواخذے کی ضرورت نہیں ہے ؟

لیکن ذرا ٹھہریئے اور اس نکتے پر غورکیجئے کہ ہم سے کہاںغلطی ہورہی ہے ، اس کی اصلاح کرلینی ضروری ہے ، کچھ کمی اپنے اندر بھی ہے ۔راہل گاندھی کے خلاف راجیش مہادیو کٹے نے پٹیشن دائر کی تو عدالت نے اپنا کام کیا ، لیکن توگڑیا ، راوت اور ان جیسے کتنے منھ زور ہیں جو آئے دن اسی طرح کی ہذیانی باتیں کرکے نفرت کی آندھی چلاتے ہیں ۔لیکن ان کے خلا ف کسی نے بھی قانونی چارہ جوئی نہیں کی تو پھر عدالت ان سے کیوں مواخذ ہ کرے ،کیونکہ احتساب کا کام عدالت کا نہیں انتظامیہ کا ہے ۔ہم بس اخباروں میں شور مچاتے ہیںاور سڑکوں پراحتجاج کرتے ہیں ۔ضرورت ہے کہ ہم ایسے تمام شرپسندوں کے خلاف جگہ جگہ عدالتوں میں عرضداشت داخل کریں اور ان کا ناطقہ بند کردیں ۔
 
vaseel khan
About the Author: vaseel khan Read More Articles by vaseel khan: 126 Articles with 95026 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.