حقیقی سیاسی تبدیلی ووٹنگ اور جمہوریت ہی کے مرہون منت ہے

انسان سماجی حیوان ہے بغیراجتماعی عمل کے وہ تمدنی حوالے سے ترقی کی راہ پہ گامزن نہیں ہو سکتا۔لہذا جمہوری عمل در اصل اسی اجتماعی عمل کو جاری وساری رکھتا ہے۔

جمہوری نظام کی اساس ووٹ ہے، اگر ووٹ نہیں تو جمہوریت نہیں اور جمہوریت نہیں تو اکثریت آزادی اظہار رائے سے محروم ہو جاتی ہے اور آمریت کی ہولناکیاں معاشرے کا شیرازہ بکھیر دیتی ہیں۔ووٹ ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس کی مدد سے معاشرے کے سیاسی نظام کے اندر اپنا اثر رسوخ پیدا کیا جا سکتا ہے۔

ووٹنگ جمہوری معاشرے میں لوگوں کو غیر فعالیت سے نکال کر فعال بنانے کاایک اہم آلہ ہے اسی آلے کی مدد سے لوگوں میں تنظیم اور مل جل کر کام کرنے کی صلاحیت پیدا کی جا سکتی ہے، جو قوم زیادہ سے زیادہ ووٹنگ میں حصہ لیتی ہے وہ اجتماعی طور پہ مضبوط سے مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے، اور پھر وہ اپنی عوامی طاقت سے ظالموں کے تختے الٹ دیتی ہے۔ ۔ایک مفکر کا قول ہے کہ’’طاقت اقلیت کے ہاتھوں کی بجائے تمام لوگوں کے پاس ہو‘‘ووٹنگ اور جمہوریت ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس کی مدد سے طاقت تمام لوگوں کے ہاتھوں میں آ جاتی ہے۔

یونیورسل ڈکلریشن آف ہیو من رائٹس کے مطابق’’ ووٹنگ تمام شہریوں کا بنیادی حق ہے جن کی عمریں اٹھارہ سال ہو چکی ہیں۔‘‘ یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی انسان اس جگہ رہنا نہیں چاہتا جہاں اس کے نقطہ نظریہ یا خیالات کو اہمیت نہ دی جائے۔ جیسا کہ آزاد اور غلام انسان میں فرق ہوتا ہے آزاد انسان اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہے اور خود سے سوچ کے فیصلہ کر سکتا ہے جب کہ ایک غلام نہیں کر سکتا۔ لہذا ووٹنگ آزاد اور غلام قوم میں تفریق کرتی ہے۔ اگر ایک قوم ووٹنگ کے حق سے محروم ہے تو یہ طے ہے کہ وہ آزادی اظہار رائے کے حق سے محروم ہے، اور اسے آزاد قوم نہیں کہہ سکتے۔۔

ووٹنگ صرف جمہوریت کے لئے اہم ہی نہیں بلکہ خودجمہوریت ہے۔کوئی بھی جمہوری نظام بغیرشہریوں کی مدد اور ووٹ کے نہ چل سکتا ہے اور نہ مضبوط ہو سکتا ہے۔جب جمہوریت کی تعریف کی جاتی ہے تو ووٹنگ کو اس میں شامل کیا جاتا ہے۔ووٹنگ کا عمل شہریوں کی طرف سے امیدوار وں کے لئے اظہاررائے ہے۔ جس کی بدولت وہ حکومت کے اداروں کی تشکیل میں دخیل ہوتے ہیں۔ منتخب ہونے والے امیدوارشہریوں کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں،اس عمل سے سے اقلیت کی اجارداری کو کنٹرول کیا جاتا تاکہ وہ اکثریت کے حقوق پامال نہ کر سکے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ ووٹنگ کا حق شروع میں صرف امراء اور جاگیرداروں کے لئے تھا، بعد ازاں اس حق کو مزید تبدیل کرتے ہوئے صرف مردوں کو یہ حق دیا گیا چاہے وہ کسی طرح کی جائیدادکے مالک نہ ہوں۔لیکن اب وقت کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی یہ حق دے دیا گیا ہے۔یہ تبدیلیاں اس وجہ سے آئیں کہ لوگوں نے ووٹ ڈالنا بند نہیں کیا،یقیناً آج کے دور میں مال وجائیداد کے ذریعے الیکشن جیتنے کا رواج اور رحجان موجود ہے،لیکن ایک مسلسل جمہوری عمل لوگوں کو جرات اظہار دیتا ہے، اور وہ امراء اور جاگیرداروں کے سرمایہ سے مرعوب نہیں ہوتے، بلکہ اپنے اجتماعی حقوق کے لئے لڑتے ہیں۔

اگر عوام چاہتی ہے کہ ایسا سیاسی اور معاشی نظام وجود میں آئے جو ان کے تمام مسائل کو حل کرنے والا ہو تو انہیں ووٹ کی اہمیت کو سمجھنا پڑے گا، کیونکہ اسی ووٹ کی طاقت سے وہ بہتر سے بہتر لوگوں کو منتخب کر کے انہیں اقتدار میں جانے کا حق دے سکتے ہیں۔اگر لوگ ووٹ نہیں دیں گے یا صحیح لوگوں کو نہیں دیں گے تو پورے معاشرے کواس کے نتائج بھگتنے پڑتے ہیں، اگر ووٹ کی اہمیت کو نہیں سمجھیں گے اور درست طریقے سے ووٹ نہیں کریں گے تو جمہوری روئیے معاشرے سے ناپید ہو جائیں گے، آمریت اور سرمایہ پرست گروہ کامیاب ہو جائیں گے اور استحصال اور بے انصافی کا سلسلہ ختم نہیں ہو گا۔جیسے اس وقت ہمارے ملک کا حال ہے۔

ووٹنگ لوگوں کے اندر یہ صلاحیت پیدا کرتی ہے کہ وہ حکومت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کریں ۔جب ہم ووٹ دیتے ہیں تو طاقت ہمارے ہاتھوں میں رہتی ہے، جب ہم ووٹ نہیں ڈالیں گے تو یہ طاقت ہمارے ہاتھوں سے نکلتی جائے گی۔ہمیں جمہوری نظام نے ایک زبردست موقع فراہم کیا ہے اور ہم اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ ہمارے ہاتھوں میں جمہوریت نے یہ طاقت دی ہے کہ ہم ہر اس شئے کو بدل ڈالیں جسے ہم پسند نہیں کرتے یا جو ہمارے اجتماعی مفادات کے خلاف ہے۔

آج کی دنیا میں لوگ ووٹ سے اپنے آپ کو الگ رکھتے ہیں، آدھی سے زیادہ آبادی ووٹنگ میں دلچسپی نہیں لیتی، بہت سے لوگ حکومتوں سے ناراض ہوتے ہیں اور ووٹ کی پرواہ نہیں کرتے، الیکشن کے دن قطع تعلق کر لیتے ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے ان کے جو بھی مسائل ہوں انہیں ووٹنگ ضرور کرنی چاہئے۔ کیونکہ ووٹنگ ہی سے آپ اپنے حالات کو بدل سکتے ہیں، حکومت کو بدل سکتے ہیں۔ آپ کی کنارہ کشی یا عدم دلچسپی کا کوئی اثر نہیں ہو گا، لیکن آپ کے ووٹ سے ضرور اثر پڑے گا۔

دنیا کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جمہوریت کو اپنانے والی اقوام نے اپنے اندرونی نظاموں کو اس طرح استوار کررکھا ہے کہ ان کے حکمران ان کی خواہش کے خلاف حکومتی پالیسیاں نہیں بنا سکتے۔انہیں جوابدہ ہونا پڑتا ہے۔مگر ہمارے ملک کی حالت یکسر مختلف ہے،ایک پاکستانی شہری جس کی عمر اٹھارہ سال ہو وہ ووٹر بن سکتا ہے۔اور الیکشن کے عمل میں شریک ہو سکتا ہے۔لیکن پاکستان کے شہریوں کو الیکشن کا بہت کم تجربہ ہے، کیونکہ پہلے تئیس سال بغیر الیکشن کے ملکی سیاسی نظام چلتا رہا،جبکہ(1970-2010) قوم کو چار دفعہ آمریت کا تجربہ کرنا پڑا۔ پاکستان کا سیاسی نظام ابھی تک تجربات سے گذر رہا ہے۔ایک سروے کے مطابق پاکستان میں عام طور پہ ووٹرز کی سات قسمیں پائی جاتی ہیں، پارٹیوں سے وفاداری نبھانے والے ووٹرز، اخلاقی قدروں کے متلاشی ووٹرز، مختلف نوعیتوں کی مدد کے متلاشی ووٹرز، قانون و سیاست سے دلچسپی رکھنے والے ووٹرز، ملکی و قومی ترقی کے متلاشی ووٹرز، مسالک وبرادریوں کو سپورٹ کرنے والے ووٹرز اور بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ووٹرز‘‘

ہمارے ہاں چونکہ تعلیم اور سیاسی شعور کی انتہائی کمی ہے جس کی وجہ سے اکثرووٹرز کو تمام مسائل کا پتہ نہیں ہوتا،وہ صرف عام قسم کی معلومات پہ انحصار کرتے ہیں، یا مختلف قسم کے پرو پیگنڈے، یا بحث و مباحثہ یا میڈیا خبروں سے متاثر ہوتے ہیں۔ اور اس غفلت اور بے شعوری کے ساتھ ساتھ ووٹنگ کے اوپر بہت سے دوسرے عوامل بھی اثرا انداز ہوتے ہیں جن میں جنسی امتیاز،مذہبی،نسلی ولسانی امتیاز، معاشی بد حالی وغیرہ فرقہ وارانہ اور مسلکی، تشدد پسندی بھی الیکش کے عمل کو متاثر کرتی ہے۔اس کے علاوہ عام طور پہ لوگ اپنا آپ کو ووٹر رجسٹرڈ کروانے کی بھی زحمت نہیں کرتے۔

ہمارے ہاں خاص طور پہ خواتین کی حالت زار کافی افسوسناک ہے، دیہی علاقوں میں ہوں یا شہری خواتین ہوں سیاسی حوالے سے ان کی شرکت تسلی بخش نہیں۔قبائلی رسم ورواج ودیگر سیکورٹی کے مسائل انہیں اس سے دور رکھتے ہیں۔ایک خبر کے مطابق تازہ ترین الیکشن میں نو ہزار پولنگ اسٹیشنوں میں سے پانچ سو ایسے تھے جہاں خواتین نے ووٹ نہیں ڈالا۔ ہمارے ہاں حالت تو یہ ہے کہ جو خواتین ووٹ ڈالنے بھی جاتی ہیں تو ان میں اکثریت خواتین کے ووٹ کے لئے امیداوار کا نام اور اس کا نشان اس کا خاوند یا گھر کا کوئی مرد تجویز کرتا ہے ،وہ اپنی مرضی سے اپنے ووٹ کا ستعمال نہیں کر سکتی۔نہ ہی انہیں اتنی معلومات میسر ہوتی ہیں کہ وہ حکومت کی پالیسیوں، امیدواروں کے کردار اور دیگر معاشی و سیاسی حوالے سے پالیسیوں کی معلومات تک رسائی رکھیں، زیادہ تر خواتین کی آبادی ان پڑھ ہے، جیسا خاوند، والد یا بھائی نے کہا ویسا کرنا ہے، جسے انہوں نے کہا ووٹ دینا ووٹ دیتی ہیں، اگر انہیں کہا جاتا ہے کہ ووٹ کے لئے نہیں جانا تو وہ اس کی جرات نہیں کرسکتیں۔

ہمارے ہاں المیہ ہے کہ سیاسی میدان میں حقیقی جمہوریت کا نام و نشان نہیں ہے، سیاسی پارٹیاں لوگوں کی جمہوریت یا ووٹ کے حوالے سے کیا تربیت کریں گی خود ان کے اندر جمہوری رویئے موجود نہیں، پارٹیوں پہ نسل در نسل خاندانی تسلط ہوتا ہے ، یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ یہ خاندانی پارٹیاں ہیں نہ کہ جمہوری پارٹیاں۔لہذا یہ نام نہاد جمہوری لیڈر اور پارٹیاں دھن، دھونس اور دھاندلی کے ذریعے الیکشن میں کامیابی حاصل کر کے ملک کو ہر آنے والے سال میں مزید تباہی سے دوچار کر رہی ہیں، اس کی سب سے بڑی ذمہ دار ہماری پوری قوم ہے، ہم نے باصلاحیت، ایماندار، قابل اور انسانیت کا درد رکھنے والے افراد کی بجائے، اپنے ذاتی، لسانی، قبائلی، برادری کے مفادات کو مقدم رکھا ہوا ہے، لہذا اس کا خمیازہ بھی ہم بھگت رہے ہیں۔

جھوٹے اور کرپٹ سیاستداں جن کے جھوٹ کو میڈیا صبح و شام ٹی وی سکرین پہ دکھاتا ہے لیکن ہم آنکھیں چرا کر پھر انہیں ووٹ دیتے ہیں یا بالکل ہی ووٹنگ کے عمل سے الگ ہو جاتے ہیں، یہ دونوں طرز عمل درست نہیں، آپ ووٹ کریں صحیح قیادت کو صحیح امیدوار کو، آگے بڑھیں اپنے اس حق کی طاقت کو خوب استعمال کریں۔ہم اپنے ووٹ کی طاقت سے ان چوروں، جھوٹوں اور ملک و قوم کے غداروں کو اپنے سیاسی نظاموں اور اداروں سے فارغ کر سکتے ہیں۔

معاشرے کے ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ آج کے دور کے تقاضوں کا ادراک کریں اور یہ سمجھیں کہ اگر وہ ووٹ کا حق استعمال نہیں کریں گے، تو ان کی معاشی و سیاسی مشکلات میں کمی نہیں آئی گی، وہ اپنے ووٹ سے اپنا حق لے سکتے ہیں، ووٹ کی طاقت سے وہ سماجی انقلاب کا خواب شرمندہ تعبیر کر سکتے ہیں، اگر ووٹ نہیں دیں گے تو صرف مالدار، طبقہ، سرمایہ پرست طبقہ ملکی اقتدار و اداروں پہ قابض رہے گا اور غربت و افلاس اور بے انصافی معاشرے میں پھیلائے گا۔

مزدوروں ، کاشکاروں، اور دیگر شعبوں کے جسمانی اور دماغی محنت کرنے والے افراد کو اپنی اپنی تنظیمیں بنانی چاہئیں اور اپنے نمائندے الیکشن میں کھڑے کر کے انہیں اسمبلی میں پہنچانا چاہئے تاکہ وہ وہاں پہنچ کر ان کے لئے بہتر پالیسیاں بنانے میں کردار ادا کر سکیں۔ ہمیں معاشرے میں ووٹ کی اہمیت کے بارے میں ہر سطح پہ تربیت کا اہتمام کرنا چاہئے، تاکہ ہر سطح کے افراد کو اس کی اہمیت کا احسا س ہو سکے کیونکہ صرف یہ ایک واحد ذریعہ ہے جس سے ہم اپنے تعلیمی، سیاسی، معاشی، سماجی نظاموں کو بدل سکتے ہیں۔اور استحصالی طبقات سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔
Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 136962 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More