چُوریاں اور چوریاں

یہ موسم سرماکی ایک سرداورتاریک رات تھی،لوگ اپنے اپنے گھروں میں سورہے تھے ۔ادھیڑعمر جیدا رات گئے چوری کی نیت سے روانہ ہوا تواس نے اپنے جوان بیٹے نیدو کوبھی ساتھ لے لیا۔آج جیدا بہت خوش تھا کیونکہ چوری اس کاخاندانی پیشہ تھا اورآج اس کابیٹانیدوبھی اپنے باپ دادا کے پیشے سے وابستہ ہوجائے گااورپھر نیدو کے بچے بھی بڑے ہوکر چوریاں کریں گے ۔باپ بیٹا دبے پاؤں چلے جارہے تھے جبکہ دھندنے ان کاکام مزید آسان کردیا تھا۔انہیں وقفے وقفے سے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں مگریہ کتے ان سے کافی فاصلے پرتھے۔راستے میں انہوں نے ایک چوکیداربھی دیکھا جو خود کو شدید سردی سے بچانے کیلئے لکڑیاں جلائے بیٹھا تھا ،جیدے اورنیدو کی مہارت جبکہ کانوں پرگرم چادر کے سبب چوکیدارنے ان کے قدموں کی چاپ نہیں سنی۔ کچھ دورجاکر جیداایک گھر کی عقبی دیوار کے پاس رک گیا اوراس نے نیدوکواشارے سے کہا دیوار پھلانگ کراندرچلو ۔ باپ اپنے بیٹے کی تربیت کیلئے دیوار پھلانگ کرصحن میں اترگیا اورپھر نیدوبھی اپنے باپ کی نقل کرتے ہوئے اس کے پیچھے دیوار پھلانگ کرصحن میں آگیا۔گھر والے گھر میں نہیں تھا جیدے کااندازہ درست رہا ،اس نے نیدوکوبڑے فخر سے بتا یا،میں پچھلے اٹھارہ برس سے اس گھر میں چوریاں کررہا ہوں اورکبھی کسی کے قابومیں نہیں آیا اورایک چوری کے بعدجب دوبارہ چوری کی نیت سے اس گھرمیں آتاہوں تویہ ہربار سامان سے بھراہوتاہے ،ا،دھر جیداشیخیاں ماررہا تھااوراُدھرنیدو کاضمیر اسے جھنجوڑرہا تھا ۔نیدونے اپنے باپ سے کہا،''اباتمہاری اٹھارہ برس سے مسلسل چوریوں کے بعدبھی ہماراگھرخالی جبکہ یہ گھرہر قسم کے سامان سے بھراپڑا ہے ''۔ ابامیں چور بنوں گااورنہ اپنے کسی بچے کوچوربناؤں گا ،نیدونے باپ کواپنا فیصلہ سنادیا ۔جوبات جیدے کواٹھارہ برسوں میں سمجھ نہیں آئی وہ نیدونے ایک رات میں سمجھ لی تھی ۔نیدونے اپنے باپ کواشارہ کیا اورخوددیوار پھلانگ کرتاریک گلی میں اترگیا مگر اُس کے ادراک اورانکارنے اس کااندر روشن کردیا تھا۔نیدو کے روشن ضمیر نے اسے تاریک راہوں پر جانے سے بچالیا۔جیدا باہر آیاتواس نے نیدوکواپنے سینے سے لگالیا اوراس کی آنکھوں کابندٹوٹ گیا۔مگر ہرنیدوکاضمیر روشن نہیں ہوتا اورنہ ہرجیدے کواپنے نیدوکی بات سمجھ آتی ہے۔پاکستان کے کئی بدعنوان جیدے اپنے بچوں کوکرپشن کرنے کی تربیت دے رہے ہیں مگران کے بچوں میں سے کوئی بھی نیدونہیں جس کاروشن ضمیر انہیں تاریک راہوں پرجانے سے روک دے ۔جس خاندان کاایک فرد اقتدارمیں ہو اس کے تمام افراد سرکاری مراعات سے مستفید ہوتے ہیں جبکہ اسلامی تعلیمات کی روسے اس کاتصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ارباب اقتدار کے ساتھ ساتھ ان کے ماں باپ اوربیوی بچوں کوبھی ڈپلومیٹ پاسپورٹ ملتا ہے ۔پاکستان پرافراد نہیں خاندان حکومت بلکہ بادشاہت کرتے ہیں۔

پاکستان میں موروثی سیاست کی پذیرائی بدقسمتی کی علامت ہے ،شخصیت پرست درحقیقت بت پرست ہیں۔چندخاندانوں کوبار بارآزما نے اوران کی بدعنوانیاں کی منظرعام پرآ نے کے باوجود عوام کامائنڈ سیٹ تبدیل نہیں ہوا ۔پاناما پیپرز میں آف شورکمپنیوں کے مالکان کانام منظرعام پرآگیامگراس کے باوجود ان کی سیاسی طورپرپیروی اوروکالت کرنے والے افرادکی آنکھیں نہیں کھلیں۔انہیں بھی اپنے گناہ بے لذت کاحساب دیناہوگا ۔ بدعنوان عناصربدعنوانی کی عادت بھی اپنے بچوں کو ورثہ میں منتقل کررہے ہیں یعنی یہ ڈی این اے میں شامل ہوگئی ہے ۔چندمخصوص سیاسی خاندان اپنے بچوں کوجس طرح مسنداقتدارپربراجمان ہونے اورعوام کے جذبات سے کھیلنے کیلئے خصوصی طورپر تیارکرتے ہیں اس طرح وہ اپنی بری عادات بھی ان میں منتقل کررہے ہیں۔آزاد وخودمختارعدلیہ اورآزاد ومتحرک میڈیا کے ہوتے ہوئے بدعنوانی میں کمی نہ آناایک بڑاسوالیہ نشان ہے۔شہریوں کا بدعنوان عناصر سے اظہاربیزاری کیلئے سوشل میڈیا پر پوسٹ لگانایابھڑاس نکالنا کافی نہیں کیونکہ بدعنو انی اوربدانتظامی سے نجات کیلئے بدعنو انوں کامحاسبہ ناگزیر ہے۔حکمران اشرافیہ ونڈکھاؤ تے کھنڈکھاؤ کے محاورے کی روشنی میں دوسروں کے زبانیں بندکرنے کیلئے ان کی مٹھیاں گرم کرتے اورجیبیں بھرتے ہیں۔ججوں اورصحافیوں میں ''قلم ''کی قدرمشترک ہے،کچھ بزدل لوگ اس قلم سے اپنے ہاتھوں کوقلم کربیٹھتے ہیں جبکہ کچھ سرفروش اپنے قلم کی کاٹ سے ظلم اورظالم کاسرقلم کرتے ہیں۔پاکستان میں جسم فروشی سے زیادہ قلم فروشی عام ہے ،جسم فروشی میں ملوث عناصر کے نام اورکام سے ہرکوئی آگاہ نہیں ہوتا مگرقلم فروشوں کی تحریر وں سے ان کے مردہ ضمیروں کا صاف پتہ چل جاتا ہے ۔ہمارے معاشرے میں کس کس طبقہ کے متعلق کیاکچھ کہاسنا جاتا ہے یقینا اس طبقہ کے لوگ وہ باتیں بخوبی جانتے ہیں۔خاموش اکثریت کی خاموشی نے پاکستان کوشہرخموشاں یعنی قبرستان بنادیا ہے جہاں لوگ زندہ نعشوں کی طرح جی رہے ہیں۔اگرسراٹھاکرجینا ہے توخاموش اکثریت کوچپ کاروزہ توڑنااورمصلحت کادامن اپنے ہاتھ سے چھوڑناہوگا۔پاکستان بنانے کیلئے ہمارے باپ دادانے اپنااوردشمن کاخون بہایاتھا آج اس وطن کوبچانے کیلئے مجھے اورآپ کواپنااوراس کے دشمنوں کاخون بہاناہوگا ۔

نظام کی تبدیلی کیلئے خاموش اکثریت کوووٹ کاحق استعمال کرناہوگا کیونکہ گھروں میں بیٹھ کرکڑھنے اورباریاں مقررکرکے کھیلنے والے سیاستدانوں کوخالی کوسنے سے کچھ نہیں ہوگا۔اوورسیزپاکستانیوں کوبھی ووٹ کاسٹ کرنے اورانتخابی سیاست میں امیدوارکی حیثیت سے شریک ہونے کاحق دیا جائے۔دوہری شہریت گناہ نہیں مگر دوہری شخصیت والے ناسور ہیں۔اگرقاتل ،بدعنوان ،بدقماش اورجعلی ڈگریوں والے منتخب ایوانوں میں بیٹھ سکتے ہیں توپھردوہری شہریت والے باشعور اوورسیزپاکستانیوں کاراستہ کیوں بندہے۔ پاکستان سے پیسہ باہرمنتقل کرنے والی اشرافیہ کے مٹھی بھرلوگ تواقتدار کے ایوانوں میں دندناتے پھرتے ہیں مگر بیرون ملک میں محنت مشقت کرکے اپناپیسہ پاکستان بجھوانے یعنی آئی سی یومیں پڑی قومی معیشت کیلئے آکسیجن کابندوبست کرنیوالے اوورسیزپاکستانیوں کواپنے ملک کے امورمملکت میں کوئی کرداراداکرنے کاحق نہیں دیاجاتا ۔اوورسیزپاکستانیوں کوووٹ دینے اورلینے کاحق دیاجائے کیونکہ صرف ووٹ کی پرچی سے موروثی سیاست ،کرپشن کلچر اورگلے سڑے نظام کے پرخچے اڑائے جاسکتے ہیں۔پاکستان میں باری باری برسراقتدارآنیوالی سیاسی قیادت کے کردارپرانگلیاں اٹھائی جاتی ہیں ،ان میں سے کسی کادامن صاف نہیں ہے لہٰذاء یہ ایک دوسرے کااحتساب نہیں کرسکتے۔احتساب کیلئے خالی ایجنڈے نہیں بلکہ ڈنڈے کی ضرورت ہے اورعدلیہ یانیب کے ڈنڈے سے کوئی نہیں ڈرتا،جس وقت تک فوج نیب کی پشت پرنہیں ہوگی اس وقت تک بے رحم احتساب نہیں ہوسکتا ۔پاناما پیپرز کومنظرعام پرآئے کئی ماہ ہوگئے مگر ابھی تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ۔متفقہ ٹی اوآرز کیلئے پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی ،اس کے کئی اجلاس اورمذاکرات ہوئے مگر حکومت اوراپوزیشن پارٹیوں کے درمیان ٹی اوآرز پراتفاق ہوا نہ ہوگا۔

ریاست ماں ہوتی ہے کچھ بچے ماں کی آغوش میں بیٹھ کر نہ صرف زندگی بھر چُوُریاں کھاتے بلکہ اپنی ماں کے گھر میں بار بار چوریاں بھی کرتے ہیں اورپھر ان کے بچوں کوبھی ''ماں'' کے وسائل پرڈاکے مارنے کیلئے تیارکیا جاتا ہے ۔کچھ چورخاندان پاکستان کوچھ دہائیوں سے لوٹ رہے ہیں مگر اﷲ تعالیٰ کی خصوصی مہربانی سے یہ ابھی تک آباد ہے اورانشاء اﷲ صبح قیامت تک قائم ودائم رہے گاجس طرح جیدے کی مسلسل اٹھارہ برس تک چوروں کے باوجودمتاثرہ گھرآباداورسامان سے بھراہواتھا۔پاکستان کے قومی وسائل میں نقب لگانے اوراسے توڑنے والے عبرتناک انجام سے دوچارہوئے مگر ان کاانجام دیکھنے کے باوجودکچھ نااہل لوگ اپنے پیشرولٹیروں کی تقلید کررہے ہیں ،یقینا ان کاانجام بھی ان کے پیشرو چوروں سے مختلف نہیں ہوگا۔پاکستان میں انصاف کاہنٹر صرف کمزوروں پربرستا ہے جبکہ طاقتور قانون کوروندتے ہوئے آگے چلے جاتے ہیں مگر اس طرح کی صورتحال میں خونیں انقلاب کا امکان بڑھ جاتا ہے۔اگرحکمران اشرافیہ کی روش نہ بدلی توایک دن خونیں انقلاب کاسیلاب انہیں بہالے جائے گا۔لوگ حکمرانوں سے زروجواہر نہیں صرف اپناجائز حق مانگتے ہیں جواس ملک میں نہیں ملتا ۔پاکستان ہمارے انتھک مزدوراورکسان کی محنت اورمشقت کے بل پرچل رہا ہے اوریہ دونوں طبقات سب سے زیادہ استحصال کاشکار ہیں۔حکمران ،وزراء اورارکان اسمبلی پرہرماہ کئی ارب روپے صرف ہوتے ہیں جبکہ مزدورکیلئے چودہ ہزارماہانہ مقررکرکے اسے پل پل مرنے کیلئے چھوڑدیاجاتا ہے۔پاکستان میں کوئی بھی سیاسی پارٹی بناسکتا ہے مگرمزدوروں کواپنے حقوق کیلئے ٹریڈیونینز بنانے کاحق نہیں دیا جاتاکیونکہ زیادہ تر فیکٹری مالکان حکمران یابااثرسیاستدان ہیں اوروہ عدلیہ کے احکامات کوبھی تسلیم نہیں کرتے۔حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ عنہ جس وقت خلیفہ منتخب ہوئے توانہوں نے اپنی تنخواہ ایک مزدورکی ماہانہ آمدنی کے برابرمقررفرمائی جس پران کے معتمدساتھیوں نے کہا کہ اس میں آپ کاگزارہ نہیں ہوگا توامیرالمومنین نے فرمایا اگرایساہواتومیں مزدوروں کی اجرت بڑھادوں گا ۔مزدوروں کی تنخواہ ارکان اسمبلی کے برابر کی جائے جوخودکوعوام کاخادم قراردیتے ہیں یاپھر عوامی نمائندوں کی تنخواہ مزدوروں کے برابرکردی جائے ۔

اس دورمیں ایس ایچ او کے بغیر کوئی تھانہ نہیں چل سکتا تو وزیراعظم کے بغیر ملک کس طرح چل سکتا ہے۔اگر نظریہ ضرورت کے تحت سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کے دورمیں چودھری پرویز الٰہی کوڈپٹی وزیراعظم مقرر کیا جاسکتا ہے توآج ناگزیر ضرورت کے تحت ایساکیوں نہیں کیا جاسکتا۔سیاستدان اپنے اپنے مفادات کیلئے آئین میں ترمیم کیلئے فوراً متفق اورمتحدہوجاتے ہیں جس طرح پرویز مشرف دورکی بعض ترامیم ختم کرنے کیلئے میاں نوازشریف ،آصف علی زرداری،اسفندیارولی اورفضل الرحمن نے سرجوڑے تھے تواب قائم مقام وزیراعظم کے انتخاب یاتقررکیلئے پارلیمانی قیادت کیوں متحد نہیں ہوسکتی ۔پاکستان کاحکمران طبقہ دوسروں کواختیارات کی منتقلی تودرکنار کسی کوشریک اقتداربناناپسندنہیں کرتا ۔دانالوگ اپنی زندگی میں وصیت تیار کرکے رکھ دیتے ہیں اس طرح ان کے بچوں کوپریشانیوں کاسامنا نہیں کرناپڑتاتوجب میاں نوازشریف کوعلم تھا کہ ان کے آپریشن سے انہیں مسلسل کئی ماہ تک بیرون ملک قیام کرناپڑے گااورپاکستان کے امورمملکت متاثرہوں گے توان کافرض تھا وہ وزرات عظمیٰ کے آئینی اختیارات کسی اہل اورقابل پارلیمنٹرین کومنتقل کرکے لندن جاتے تو ا س طرح پاکستان کوبے یقینی اورپاکستانیوں کوبے چینی سے بچایاجاسکتاتھا۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126602 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.