پراکسی وار ابھی ختم نہیں ہوئی

آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے چند روز قبل یہ بیان دیکرکہ جنگوں کے انداز بدل رہے ہیں اوردُشمن دہشت گردی اور آسان اہداف کا نشانہ بنا کر ہمیں خوفزدہ کرنا چاہتا ہے،بالآخر میرے ا س موقف کی تائید کی ہے کہ پاکستان کو جس جنگ کا براہ راست نشانہ بنایا جارہا ہے وہ درحقیقت ’’فورتھ جنریش وار فیئر‘‘ ہے۔یعنی دُشمن ملک پر براہ راست فوجی یلغار کرنے کی بجائے اس میں دہشت گردی کے ذریعے ایسے حالات پیدا کر نا جسکے باعث اسمیں امن و امان کی صورت حال انتہائی مخدوش اورمعیشت برباد ہوجائے ۔لوگ خوف و ہراس اور بے یقینی کی فضاء میں زیست بسر کرنے پر مجبور ہوجائیں ۔ اس جدید طرز جنگ کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اس میں دُشمن ملک میں ریاست کے خلاف ایسے انتہا پسند گروپ کھڑے کئے جاتے ہیں جو اس ملک کی پولیس، فوج اور دیگر ریاستی اداروں پر پے درپے حملے کر کے اسکے دفاعی انفراسٹرکچر کو ناقابل تلافی حد تک نقصان پہنچا تے ہیں اور اسے اس نہج پر لے آتے ہیں جسکے باعث اسکے دفاعی ادارے ملک میں امن و امان کے قیام اوراسکی سرحدوں کے دفاع کی قابلیت و صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں۔ یوں یہ ملک باآسانی ایک ایسی سول سول وار کی جانب دھکیل دیا جاتا ہے جس سے دوبارہ اُبھر پانا اسکے بس میں نہیں رہتا۔ ہمارے سامنے اس پراکسی یا فورتھ جنریشن وار فئیرکی حالیہ مثال شام ہے جسے انہی خطوط پر کام کرتے ہوئے تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا گیاہے ۔ اس سے قبل سوختہ بال یمن ، لیبیااور عراق کو بھی اس طرح بربادی کی طرف دھکیلا جا چکا۔ مسلم دُنیا کا ایک اور بڑا ملک ترکی ان دنوں بربادی کے اسی راستے کا نیا مسافر نظر آتا ہے ۔ اتا ترک انٹرنیشنل ائیرپور ٹ پر ہونے والا حالیہ بم دھماکہ، جس نے 36افراد کی جان لی اور 100سے زائد افراد زخمی ہوئے ،اور اس سے قبل ہونے والی دہشت گردی کی دیگرکاروائیاں بھی یہی نوید سنارہی ہیں کے ترکی کو بھی بتدریج اسی وار فئیر کا نشانہ بنایا جارہے ۔ اسی دوران عراق میں مسجد میں ہونے والے بم دھماکے میں 14افراد کی ہلاکت یہ امر طشت ازبام کر رہی ہے کہ مسلم دُنیا کی فورتھ جنریشن وار فئیر کے ذریعے تباہی کے پیچھے ایک مربوط اور منظم عالمی سازش کارفرما ہے جس کے ڈانڈے لا محالہ امریکہ اور اسرائیل سے جاملتے ہیں ۔

جنرل راحیل شریف نے اسے جنگ کو پراکسی وار کا نام بھی دیا ہے اور کہا کہ پاکستان ہر قسم کی پراکسی وار کے خلاف ہے ۔ پاکستان نہ تو کسی کے خلاف کوئی پراکسی وار لڑنا چاہتا ہے اور نہ ہی کسی کو پاکستان کی سرزمین پر پراکسی وار لڑنے دیگا۔ چند روز قبل نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جنرل راحیل شریف نے یہ بھی کہا کہ اندرون و بیرون ملک شکست خوردہ دہشت گرد اور ان کے ہمدرد مایوسی کا شکار ہیں ۔دہشت گرد ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتے ہیں ۔دُشمن کے مذموم مقاصد ناکام بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں ۔ ضرب عضب میں پاکستانی قوم دُنیا کی سب سے زیادہ سخت جان قوم بن کر اُبھری ہے ۔ اُن کا یہ بیان اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ پاکستان کو بھی گزشتہ ایک دھائی سے زائد عرصہ کے دوران اسی فورتھ جنریشن وار فئیر کا نشانہ بنایا گیا ہے، تاہم اسے معجزہ سمجھ لیں یا پھر قدرت کی جانب سے ایک امداد غیبی کہ پاکستان اس عفریت کے چنگل سے جان چھڑانے میں بڑی حد تک کامیاب رہا ہے ،جس سے پوری دُنیا کے سامنے افواج پاکستان کی پیشہ ورانہ صلاحیت اور پاکستانی قوم کی او لالعزمی نکھر کر سامنے آئی ہے ۔ تاہم اس امر کو پس پشت نہیں ڈالنا چاہیے کہ ہمیں ہنوز پوری کامیابی حاصل نہیں ہوئی ۔ پاکستان میں لڑی جانے والی پراکسی وار افغانستان سے لڑی جارہی ہے جسمیں بھارت اور اسرائیل دو اہم کھلاڑی اور امریکہ بہادر انکا سرپرست ہے ۔یہ تینوں ممالک یقینا انگشت بدنداں ہیں کہ جس جال کو انہوں نے بڑی عرق ریزی سے تیار کیا پاکستان اس سے کیونکر بچ نکلنے میں کامیاب رہا۔ اس ضمن میں گزشتہ سال شام کے ایک اخبار میں شائع ہونے والا سنتھیا ہال نامی ایک صحافی کا بھارتی خفیہ ایجنسی کے ایک اعلیٰ افسر کے ساتھ ہونے والا ایک مبینہ انٹرویو قابل توجہ ہے ، جسمیں یہ بھارتی افسر کہتا ہے کہ ’’اگر ہمیں اپنے ’’اثاثے ‘‘ پاکستان کے خلاف چھوٹے ایٹم بمبوں سے بھی مسلح کرنے پڑے تو ہم ایسا کرینگے ۔ہم انہیں(پاکستانیوں ) کو ایک ایسا سبق دینے جارہے ہیں جو یہ اپنی آئندہ زندگی میں ہمیشہ یاد رکھیں گے ۔ہم اسکے لئے ہر انتہا تک جائیں گے ۔صحافی لکھتی ہے کہ جب میں نے پوچھااگر پاک چین اکنامک کاریڈور کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچ گیا تو انڈیا کا اس پر ردعمل کیا ہوگا تو اس انڈین افسر نے کہا کہ کیا آپ کو بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر کا یہ بیان یاد نہیں کہ ہم اپنے فائدے کیلئے پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کو استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرینگے ۔ میرا اگلا سوال یہ تھا کہ آپ پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کو کس طرح استعمال کرینگے ؟ اس پر اس افسر نے کہا کہ ہمیں یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ تحریک طالبان پاکستان اب اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی مزیدکاروائیوں میں ہماری موٗثر مدد کرسکے ،اسلئے ہم کچھ عرصہ سے مشرق وسطیٰ میں کام کر رہے ہیں ۔ ہم یقینا وہاں سے مدد حاصل کرینگے ۔ اگر ہمیں ’’انہیں‘‘ چھوٹے ایٹم بمبوں سے بھی مسلح کرنا پڑا تو ہم ایسا کرنے سے ہرگز گریز نہیں کرینگے ۔ بھارتی وزیر اعظم کا حالیہ بیان کہ انہوں نے سرحد پر انڈین فوجیوں کو فری ہینڈ دے دیا ہے اس امر کی بھرپور غمازی کرتا ہے کہ بھارت نے ’’ کولڈا سٹارٹ ڈاکٹرائن‘‘ کو ابھی تک طاق نسیا ں نہیں کیا۔ اسلئے ہمیں الرٹ رہنے کی ضرورت ہے ۔ بھارت افغانستان سے میدان جنگ پاکستان منتقل کرنے میں ناکامی پر سخت سیخ پا ہے اور اس صورت حال میں پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحد پر دباؤ بڑھانے کا خواہشمند نظر آتاہے ۔یہ امر بھی تحقیق طلب ہے کہ کیا پاکستان میں پراکسی وار کو برقرار رکھنے کے لئے بھارت واقعی مشرقی وسطیٰ میں موجود اپنے ’’اثاثوں ‘‘ کو پاکستان میں متحرک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا پھر اسکا نیا پلان کچھ اور ہے ؟ یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ امریکہ پاکستان کا دوست نہیں ۔یہ حقیقت اب ہمارے ارباب اختیار کو بھی سمجھ آجانی چاہیے کہ گزشتہ ایک دھائی کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کی جتنی بھی کاروائیاں ہوئیں ان کی پلاننگ ، اسلحہ اورفنڈز کی فراہمی اور دہشت گردوں کی تربیت افغانستان سے ہی ہوئی ،جہاں بھارت اور اسرائیل امریکہ کی سرپرستی میں پاکستان کے خلاف کام کر رہے ہیں ۔ سابق امریکی سیکرٹری ڈیفنس رابرٹ گیٹس اپنی کتاب (Memoirs of a Secretary at War)میں یوں رقمطراز ہیں ’’اگرچہ کہ میں امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کا کانگریس اور میڈیا کے سامنے دفاع ہی کرونگا تاکہ یہ مزید خراب نہ ہوں ۔میں نہیں چاہتا کہ کراچی سے افغانستان جانے والی ہماری سپلائی لائن کو کوئی خطرہ لاحق ہو۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ پاکستانی ہمارے اتحادی نہیں ہیں ۔

چنانچہ ہمیں بھی اسلام آباد میں امریکہ ایمبیسی میں موجود امریکی میرینز کی فو ج ظفر موج سمیت ملک بھر میں موجود امریکی سی آئی اے اور بلیک واٹر کے ایجنٹوں کو پاکستان سے چلتا کرنا چاہیے۔
 
Ahsan Zad
About the Author: Ahsan Zad Read More Articles by Ahsan Zad: 3 Articles with 1972 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.