لسبیلہ میں ایک اور آئل ریفائنری کا قیام

لسبیلہ میں پارکو کے ساتھ حکومت پاکستان اور عرب امارات رواں سال ایک آئل ریفائنری بنانے جارہی ہے ایسے کئی ،منصوبے اس وقت ضلع لسبیلہ میں جس پر مقامی لوگوں کے خدشات باقی ہیں اور ابھی تک انھیں دور نہیں کیا گیا ۔ اس ریفائنری کے قیام کے فیصلے پر بھی لوگوں کے ذہنوں میں یہی سوال ہیں کہ انھٰیں اس سے کیا حاصل ہوگا ۔ھھھھھھھ

گذشتہ سال جناب وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف نے بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں ملک کی سب سے بڑی آئل ریفائنری کا افتتاع کیا جس کی تعمیر میں سات سو پچاس ٧٥٠امریکی ڈالر لاگت آئی اور بائیکو گروپ کی یہ ریفائنری ایک لاکھ بیس ہزار بیرل روزانہ تیل تیار کرسکتی ہے جس میں 1.6ملین ٹن تیل 2.4 ملین ٹن ڈیزل اور 1.1ملین ٹن ایل پی جی سالانہ تیار ہوسکتی ہے۔ جب ایک علاقے میں ایک اتنا بڑا پروجیکٹ شروع ہوتا تو وہاں کے قدیم باشندوں کے دلوں میں یہ رمک پیدا ہوتی ہے اور انھیں ایک امید دکھائی دیتی ہے کہ اس سے انکی زندگیوں میں تبدیلی آئے گی اور وہ اس سے استفادہ حاصل کریں گے۔ اس پروجیکٹ میں انکے لیئے روزگار کے مواقع پیدا ہونگے اور سی ایس آر فنڈ سے انکے لیئے صحت اور تعلیم کے بڑے منصوبے شروع ہونگے اور انھیں سہولیات میسر ہونگی ۔ اسی پروجیکٹ کے ایک اور پروجیکٹ حبکو پاور کے نام سے بھی جوکہ ملک کا ایک بہت بڑا پروجیکٹ اور سالانہ اربوں کی آمدن حاصل کررہا ہے۔ ضلع لسبیلہ میں اٹک سیمنٹ کپنی ، حبکو پاور ، بائیکو جیسے بڑے اداروں کے علاوہ کہم وبیش چار سو سے زائد صنعتیں لسبیلہ میں قائم ہیں ۔ اس کے علاوہ ماربل سٹی اور ایشیاء کی سب سے بڑی شپ بریکنگ یارڈ بھی لسبیلہ ہی میں جہاں سے اربوں روپے صنعتکار منافع حاصل کررہےط ہیں لیکن لسبیلہ کے لوگوں کے لیئے یہ سب سراب ہے اور اس سے کچھ بھی لسبیلہ کے لوگوں کو استفادہ نہ ملا اور تو اور سی ایس آر فنڈ بھی آج تک معلوم نہیں کہ کہاں خرچ ہورہا ہے ۔اس وقت ایک اور پروجیکٹ ڈی جی خان سیمنٹ اور حبکو کول پاور بھی لسبیلہ میں قائم ہورہے ہیں جن پر لوگوں کے خدشات ابھی باقی ہیں اور محکمہ ماحولیات کی جانب سے ہونے والی شنوائی میں لوگوں نے ان اداروں کے خلاف بھرپور اجتجاج کیا اور حبکو کول پاور کے حق میں اور ًمخالفت میں عوام کا بھرپور طاقت کا مظاہرہ دکھائی دیا اب حال ہی میں وفاقی وزیر پیٹولیم شاہد خاقان عباسی نے ایک بتایا کہ پاکستان کی سب سے بڑی ایک اور آئل ریفائنر ی ضلع لسبیلہ میں حبکو اور بائیکو کے پاس متحدہ عرب امارات اور حکومت پاکستان کے اشتراک سے پارکو لگا ئے گی یہ 2007کا منصوبہ ہے جس پر 2012میں کام شروع ہونا تھا لیکن اس وقت شروع نہ ہوسکا اور اب حکومت نے اس پر کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جوکہ رواں سال میں مکمل ہوگا اور اس سے دو لاکھ پچاس ہزار بیرل روزانہ تیل تیار ہوگا ۔یہ منصوبہ پانچ سال کی مدت میں مکمل ہوگا اور اس منصوبے کے لیئے 250میگا واٹ کا بجلی گھر بھی بنایا جائے گا ۔ اس بات کو سننے کے بعد ہم لسبیلہ کے قدیم باشندوں کے ذہن میں جوکہ آئین پاکستان کی روسے اس ملک کے شہری ہیں اور ہمیں بھی مساوی حقوق حاصل ہیں تو ان حقو ق کی پاسداری کب ممکن ہوگی ۔ کیا ریاست اس بات کا تحفظ ممکن بنائے گی کہ لسبیلہ جو اس وقت دو پورٹ گوادر اور کراچی کے درمیان ہونے کی وجہ سے صنعتکاروں کا محور ومرکز بنا ہوا اور لسبیلہ کے قدیم باشندوں کی اراضیات کو ملک کے وسیع تر مفاد میں اُونے پونے لیکر بڑے بڑے پروجیکٹ شروع کیئے جارہے اور 1970سے لیکر آج تک ان صنعتکاروں نے لسبیلہ کے باشندوں کے لیئے سی ایس آر فنڈ سے ایک اچھا اسکول ، ایک اچھا اسپتال ، کوئی واٹر سپلائی اسکیم یا کوئی اسکالر شپ کا پروگرام تک شروع نہیں کیا ۔ سوائے چند اسپتالوں میں کچھ نام کی ادویات اور کچھ فری میڈیکل کیمپس کے اور کوئی سرگرمی نظر نہیں آتی ۔ تمام باتیں ہم لسبیلہ والوں کے لیئے ٍٍرف سراب ہی ثابت ہوئی اور آج بھی یہی سوال ہمارے ذہنوں میں ہیں کہ
اس پروجیکٹ میں لسبیلہ کے باشندوں کے حقوق کا تحفظ کیسے ممکن ہوگا ؟

یہ پروجیکٹ اپنے سی ایس آر فنڈ سے لسبیلہ کے لوگوں کو کونسا بڑا صحت ، تعلیم کا کوئی بڑا منصوبہ کتنے عرصے میں قائم کرکے دے گا؟

یہ وہ سوال ہیں جو آج بھی ہمارے ذہنوں میں ہیں اور ہم آواز اُٹھائیں تو ہمیں ترقی مخالف جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ علاقہ جہااں اتنے بڑے ،منصوبے اور اتنی صنعتیں وہاں ایک اسپتال تک ایسا نہیں جہاں لوگوں کا بروقت علا ج ممکن ہو سرکاری اسپتالوں میں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ کوئی ایسا اسکول نہیں جو ملک کے بڑے اداروں کا مقابلہ کرسکے ۔ وہ ضلع جس میں ایک بہت بڑی آئل ریفائنری ہے وہاں تحصیل بیلہ میں ایک فلنگ اسٹشن تک نہیں جس علاقے میں اتنے بڑے بڑے پروجیکٹس جہاں حبکو پاور ہے جہاں ہزاروں میگا واٹ بجلی پیدا ہوتی ہے اور وہاں لوگ بجلی ناقص نظام لوڈشیڈنگ اور وولٹیج کی کمی کی وجہ سے سراپا اجتجاج ہیں ۔جہاں اُوتھل اور بیلہ کے لوگ مین ٹرانسمیشن لائین تبدیل نہ ہونے کی وجہ سے ہفتوں ہفتوں بجلی سے محروم رہتے ہیں اور اس ٹرانسمیشن لائین جو کہ اپنی مدت بیس سال قبل پوری کرچکی ہے صرف سات ارب فراہم نہ کرنے کی وجہ سے تبدیل نہیں ہو پارہی حالانکہ اس سے دو انڈسٹریل زون زیرو پوائنٹ اور اُوتھل بھی فحال ہوسکتے ہیں ۔ زمینداروں نے بجلی کے ناقص نظام سے تنگ آکر کروڑوں کے مقروض ہونے کے بعد مایوس ہوکر زمینیں بیچنا شروع کردی ہیں ۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان پروجیکٹس کے ساتھ عوام کے لیئے بھی پروجیکٹس ، منصوبے لائیں جائیں جس سے برائے راست مقامی لوگ مستفید ہوں اور ان پروجیکٹس میں ریاست یہ واضع کرے کہ مقامی لوگوں کو کیا فائدہ ہوگا اور اسے کیسے ممکن بنایا جائے گا۔مقامی لوگوں کے حقوق کا تحفظ کیسے ہوگا ۔

Asim Kazim Roonjho
About the Author: Asim Kazim Roonjho Read More Articles by Asim Kazim Roonjho: 2 Articles with 1258 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.