اتحادی سیاست اور غیر اتحادی ؟

سیاسی اتحاد کیا ہوتا ہے پہلے اس کی لفظی معنی دیکھ لیں، کوئی بھی ایسا سیاسی اتحاد جس میں مختلف رنگ و نسل کے گروہ یا پھر سیاسی جماعتوں کے درمیان کسی مخصوص ایجنڈا کے تحت محدود مدت کے لیے مل کر سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، اکثر نظریاتی طورپر چھوٹی چھوٹی جماعتوں کے درمیان اقتدار حاصل کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں اتحادی سیاست کی تاریخ اتنی پرانی ہے جتنا پاکستان کا وجود پرانہ ہے، جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے تب سے لے کر اب تک بہت سے اتحاد بنے پھر ٹوٹے۔ یہ اتحاد کبھی انتخابات سے پہلے تو کبھی بعد میں بنتے ہیں اتحادوں کے ذریعہ کبھی کسی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جاتی تھی تو کبھی وقت کے حکمرانوں کو اپنی حکومت بچانے کے لیے اتحادی سیاست کا سہارا لینا پڑتا تھا، کبھی جمہوریت کی بحالی کے لیے اتحاد بنے تو کبھی وطنِ عزیز میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے بھی اتحاد بنے توکبھی قومی مفادات کی خاطر اتحاد بنے اگر یہ کہا جائے کہ اتحادی سیاست کے بغیر پاکستان کی سیاسی تاریخ ادھوری ہے تو غلط نہ ہوگا۔ ابھی بھی پاکستان کے سیاسی حالات کشیدگی کا شکار ہیں، پانا ما لیکس ٹی او آرز کمیٹی پر حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں میں اختلاف پاہا جاتا ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتیں کسی ایک نکتہ متفق ہونگی یا نہیں اور حکومت احتجاجی سیاست سے کیسے نمٹے گی یہ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ یہاں پر قارئین کو اس بات سے آگاہ کرنا ضروری ہے کہ حالیہ دنوں میں سندھ حکومت کے خلاف بنائے گئے اتحاد کا ذکر ہم نہیں کر رہے ہمارا مقصد صرف اپنے قارئین کو ان اتحادوں کے بارے میں بتانا ہے جو تاریخی حساب سے اہمیت کے حامل ہیں۔

سیاسی اتحاد کیا ہوتا ہے پہلے اس کی لفظی معنی دیکھ لیں، کوئی بھی ایسا سیاسی اتحاد جس میں مختلف رنگ و نسل کے گروہ یا پھر سیاسی جماعتوں کے درمیان کسی مخصوص ایجنڈا کے تحت محدود مدت کے لیے مل کر سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، اکثر نظریاتی طورپر چھوٹی چھوٹی جماعتوں کے درمیان اقتدار حاصل کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔

پاکستان میں اتحادی سیاست کی تاریخ اتنی پرانی ہے جتنا پاکستان کا وجود پرانہ ہے، جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے تب سے لے کر اب تک بہت سے اتحاد بنے پھر ٹوٹے۔

یہ اتحاد کبھی انتخابات سے پہلے تو کبھی بعد میں بنتے ہیں اتحادوں کے ذریعہ کبھی کسی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جاتی تھی تو کبھی وقت کے حکمرانوں کو اپنی حکومت بچانے کے لیے اتحادی سیاست کا سہارا لینا پڑتا تھا، کبھی جمہوریت کی بحالی کے لیے اتحاد بنے تو کبھی وطنِ عزیز میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے بھی اتحاد بنے توکبھی قومی مفادات کی خاطر اتحاد بنے اگر یہ کہا جائے کہ اتحادی سیاست کے بغیر پاکستان کی سیاسی تاریخ ادھوری ہے تو غلط نہ ہوگا۔ ابھی بھی پاکستان کے سیاسی حالات کشیدگی کا شکار ہیں، پانا ما لیکس ٹی او آرز کمیٹی پر حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں میں اختلاف پاہا جاتا ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتیں کسی ایک نکتہ متفق ہونگی یا نہیں اور حکومت احتجاجی سیاست سے کیسے نمٹے گی یہ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ یہاں پر قارئین کو اس بات سے آگاہ کرنا ضروری ہے کہ حالیہ دنوں میں سندھ حکومت کے خلاف بنائے گئے اتحاد کا ذکر ہم نہیں کر رہے ہمارا مقصد صرف اپنے قارئین کو ان اتحادوں کے بارے میں بتانا ہے جو تاریخی حساب سے اہمیت کے حامل ہیں۔

تاریخ کے جھروکوں سے کچھ اہم اتحادوں کا ذکر قارئین کی نظر پیش کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں اتحادی سیاست کا آغاز 1952 میں ہوا Democratic Youth League اور East Pakistan Communist Party نے مل کر مسلم لیگ کے خلاف اتحاد بنایا گیا، مگر یہ اتحاد اتنا کامیاب نہیں ہوا اس لیے تاریخ میں اس کا ذکر اتنا نہیں کیا جاتا، جتنا 1953 میں بنے The United Front کا کیا جاتا ہے یہ اتحاد چار پارٹیوں پر مبنی تھا جس میں عوامی مسلم لیگ، Ganatantrik Dal،Nizam-e-Islam او Krishak Praja Party شامل تھیں۔ یہ اتحادبھی مسلم لیگ کے خلاف بنا اس کی وجہ پارٹی میں اندرونی انتشار، لیڈر شپ کا بحران، ا نتظامی نا اہلی اور غیر ذمہ دارانہ رویہ تھا جس کی وجہ سے مسلم لیگ عوامی حلقوں میں اپنی مقبولیت کھو چکی تھی حسین شہید سہروردی جیسے منجھے ہوے لیڈر پارٹی چھوڑ کر عوامی مسلم لیگ میں جا چکے تھے۔

یہ اتحاد مشرقی پاکستان کی قانون ساز ا سمبلی کے انتخابات سے قبل بنایا گیا تھا جس کا مقصد بنگال کی عوام کو مسلم لیگ کا نعم البدل فراہم کرنا تھا، انتخابات میں The United Front نے 223 سیٹ جیت کر مسلم لیگ کو بری طرح شکست سے دو چار کیا تھا، مسلم لیگ صرف 9 سیٹوں پر انتخاب جیت سکی تھی۔ اس طرح سے نہ صرف مسلم لیگ انتخابات میں ہاری بلکہ ملک میں سیاسی طور پر ایسی درار پڑی کہ آگے چل کر ملک ٹوٹ گیا۔ اس اتحاد کے بعد اتحادی سیاست کی فضا جو قائم ہوی اس کے اثرات جنرل ایوب خان کے مارشل لا اور ون یونٹ کے لاگو کیے گیے نظام کے خلاف سیاسی حلقوں میں بڑی ہلچل مچا دی تھی، مادرِ ملت فاطمہ جناح جو قائدِ اعظم کے انتقال کے بعد سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر چکی تھی ایک بار پھر سے وہ بھی سیاست کے میدان میں سرگرم ہوگئی تھیں،، انہوں نے 1964 کے صدارتی انتخابات کے دوران ایوب خان کے خلاف Combined Oppostion کے نام سے ایک اتحاد بنا یا لیکن اس اتحاد کے خلاف منفی پرو پیگنڈا کیا گیا کہ اسلام خواتین کو حکومت کرنے کی اجازت نہیں دیتا شاید اس لیے فاطمہ جناح کو اور اس کے اتحادیوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس اتحاد کے بعد 30 اپریل 1967 نوابزادہ نصراللہ خان نے،Pakistan Democratic Movement کی بنیاد رکھی، اس اتحاد نے ایوب خان کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا بعد میں اس اتحاد کا نام بدل کر Pakistan Democratic Action Committee رکھا گیا یہ اتحاد جن مقاصد کے لیے بنایا گیا تھا وہ حاصل کرنے میں کسی حد تک کامیاب رہا۔ اتحادی سیاست کا یہ سلسلہ یہیں نہیں تھما گزرتے وقت کے ساتھ اتحادی سیاست کا کلچر ملک میں عام ہو گیا تھا، اس تجرباتی عرصہ میں کبھی جمہوری اتحاد بنے تو کبھی اسلامی اتحاد بنے ان میں سے کچھ اتحاد جن کے نقش اتنے گہرے ہو چکے ہیں کے ان کو بھولے سے بھی کوئی نہیں بھلا سکتا۔ 1971 میں ملک ٹوٹنے کے بعد پہلی مرتبہ 1977میں انتخابات منعقد ہوے تو اس میں اتحادی سیاست نے بھی خوب اپنے رنگ دکھائےPakistan Peoples Party کیخلاف 9نو سیاس و مذہبی جماعتوں نے مل کر Pakistan National Alliace کے نام سے ایک اتحاد بنایا گیا تھا PNA کا نصب العین تھا کے وہ ملک میں نظامِ مصطفی لاگو کریں گے اس تحریک نے عوامی حلقوں میں اچھی خاصی پذیرائی حاصل کی اور مذہب کو بھی سیاسی طور پرخوب استعمال کیا، لیکن اس کے با وجود انتخابات میں وہ نتیجہ حاصل نہیں کر سکے جن کی وہ توقعات کر رہے تھے صرف 36 نشستوں پرکامیابی ان کا مقدر ٹھری۔ انتخابات کے بعد ذلفقار علی بھٹو پر دھاندلی کا الزام لگا کر نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا اور ساتھ ہی اس کی حکومت کے خاتمے کے لیے ملک گیر احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکا لنا شروع کی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک سول نافرمانی میں بدل گئی، نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ حکومت کو کراچی،لاہور، حیدرآباد سمیت کچھ دیگر شہروں میں مارشل لا نافذ کرنی پڑی کچھ عرصہ سیاسی کشیدگی چلتی ر ہی لیکن پھر حکمران جماعت او ر PNA کے درمیان مذاکرات ہوے، حکومت اور PNA کئی باتوں پر متفق ہو چکے تھے کہ ضیاء الحق نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ملک میں مارشل لا نافذ کر دی، اس طرح ایک اور اتحاد بھی اپنے انجام کو پہنچا۔ ا بھی ملک ایک منتخب کردہ وزیرِ اعظم کوپھانسی دینے کے بعد سمبھلا ہی نہیں تھا کے جمہوریت کی بحالی کے لیے6 فروری 1981 میں MRD تحریک کی بنیاد رکھی گئی اس تحریک کا بنیادی مقصد جمہوریت کی بحالی تھا اس تحریک کی قیادت نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے کی تھی . MRDتحریک 10 سے زیادہ سیاسی جماعتوں پر مبنی اتحاد تھا اس تحریک میں متعد د سیاسی رہنما ؤں نے جیل کی ہوا بھی کھائی اور سیاسی کارکنوں نے بھی اس تحریک کے دوران خوب کوڑے کھائے یہ تحریک شروع میں پنجاب اور سندھ میں خاصی مقبول رہی لیکن کچھ عرصہ بعد یہ تحریک صرف سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی تھی ۔ پاکستان کی تاریخ ایسے سیاست دانوں سے بھری ہوی ہے جن کی سیاست صرف اپنے ذاتی مفادات کے گرد گھومتی رہتی ہے، اس سے زیادہ اُن کی نظر میں سیاست کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سیاسی اتحاد بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں آج تک ملک کو اتحادی سیاست سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا البتہ نقصان ضرور اٹھانا پڑا ہے۔ اب تھوڑا مزید اتحادوں کی بات ہو جائے ملک میں اگلا اتحاد جو تاریخ کا حصہ بنے جا رہا تھا وہ بھی اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا اس اتحاد کا نام اسلامی جمہوری اتحاد تھا۔ اس اتحاد کی بنیاد غلام مصتفی جتوئی نے رکھی تھی لیکن اس اتحاد کا سب سے ابھرتا ہوا سیاستداں نواز شریف تھا اور یہ اتحا د بھی PNA کی طرح 9 سیاسی و مذہبی پارٹیوں پر مبنی تھا یہ اتحا د 1988 کے الیکشن سے پہلے وجود میں آیا، اِس اتحاد کو غیر جمہوری قوتوں کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔اسلامی جمہوری اتحاد کو الیکشن کے دواران پنجاب میں کامیابی نصیب ہوی جس کی بدولت وہ پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب رہے جب کہ قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کو 94 نشستوں پر انتخاب جیت کر مرکز ی حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ اس طرح سے یہ اتحادی انتخابی معر کہ بھی اپنے انجام کو پہنچا۔ اِس انتخابی معرکہ کے بعد وطنِ عزیز میں قبل از وقت 1990 کو اگلا انتخابی میلہ سجا اٰس انتخابی دنگل میں دوبڑے اتحاد بنے Peoples Democratic Alliance اور اسلامی جمہوری اتحاد جو کہ پہلے سے بنا ہوا تھا۔IJI کی قیادت نواز شریف جب کے PDA کی قیادت بے نظیر بھٹو کر رہی تھیں۔ اس انتخابی معرکہ میں غیر جمہوری قوتوں کا خوب بول بالا رہا اور سیاست دانوں میں پیسہ بھی خوب بانٹا گیاغیر جمہوری قوتوں کا من چاہا اسلامی جمہوری اتحاد انتخابات میں 106 نشستوں پر الیکشن جیت کر مر کز میں حکومت بنا لی جب کہ اس کے مدِ مقابل Pakistan Democratic Allianceکو صرف 45 سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوی۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اسی عرصہ کے دوران آرٹیکل 58- 2 B کا بھی خوب استعمال ہوتا رہا حکومتوں کو مدت پوری کرنے سے پہلے فارغ کرنے کا رجحان بھی کچھ زیادہ ہی رہا اور ساتھ ہی اتحادی سیاست کا میلہ بھی سجتا رہتا تھا۔ بیچ میں چھوٹے چھوٹے اتحاد بنتے رہے لیکن یہاں پر بڑے اتحادوں کی بات کی جا رہی ہ اس لیے چھوٹے اتحادوں کا ذکر کرنا اتنا ضروری نہیں۔ اگلا اتحاد 1997 کو Grand Democratic Alliance نصراللہ خان کی صدارت میں نواز شریف کی حکومت کے خلاف بنایا گیا تھا لیکن دو سال بعد مشرف نے اقتدار پر قبضہ حاصل کر کے GDA) (کا کام کر دیا اور اس طرح یہ اتحاد بھی اپنے انجام کو پہنچا۔ اور اس طرح حکومتوں کا وقت سے پہلے آنے جانے کا سلسلہ بل آخر 12 اکتوبر 1999 کو اس وقت ااپنے نجام کو پہنچا جب مشرف نے ایک اور جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ حاصل کر لیا، جنرل مشرف کا اقتدار کا مرکز بھی دوسرے جرنیلوں کی طرح ان کی اپنی ذات تک محدود تھا۔وقت نے ایسی ستم ظریفی دکھائی کہ جو سیاسی جماعتیں کل تک غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ مل کر ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کیا کرتی تھیں،وہ آج ایک دوسرے کے اختلاف بھلا کر جمہوریت کی بحالی کے لیے 15 سے زیادہ سے زیادہ سیاسی جماعتوں پر پر مبنی اتحادبنانے پر مجبور ہو گئی تھیں۔

اس اتحاد کا نام (ARD) The Alliance for the Restoration of Democracy رکھا گیا تھا، اس اتحاد کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ملک کی دو سب سے بڑی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون پہلی مرتبہ کسی ایک اتحاد میں شامل ہوی تھیں، اس سے پہلے ہمیشہ یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی حکومتوں کو کمزور کرنے میں اپنی قوت صرف کیا کرتی تھیں، خیر جمہوریت کو تو بحال ہونے میں وقت لگ گیا تھا لیکن اس دوران ایک اور انتخابی میلہ 2002 کو سجا اس مرتبہ بھی ہمیشہ کی طرح مذہبی جماعتوں کا اتحاد بنا جس کا نام متحدہ مجلس عمل رکھا گیا اِس اتحاد میں ملک کی چھ مذہبی جماعتیں شامل تھیں جن میں جمیعت علما ء اسلام (ف) اور جماعتِ اسلامی جیسی نامور مذ ہبی جماعتیں شامل تھیں۔ ہر چھوٹے بڑے اتحاد کا مقصد اقتدار حاصل کرنا ہوتا ہے جس میں کبھی کبھی وہ کامیاب بھی ہو جاتے ہیں، MMA کسی حد تک کامیاب رہی(سرحد) خیبر اور بلوچستان میں مسلم لیگ ق کے ساتھ اتحادی حکومت بنانے میں MMA کامیاب رہی اور مرکزی حکومت میں بھی 57جنرل نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے تیسرا نمبر حاصل کیا۔ اسی الیکشن کے دوران ایک اور بھی اتحاد بنا تھاجس کا نام National Alliance تھا یہ اتحاد کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکا صرف 16 نشستوں پر کامیابی ان کا مقدر ٹھری۔

معاشرہ چاہے تعلیم یافتہ ہو یا ان پڑھ سیاستداں جذبات کے ذریعہ لوگوں کے ذہن پر قابو پا لیتے ہیں 2008 کے انتخابی معرکہ میں جذباتی سیاست کھیلی گئی جس کی بدولت پیپلز پارٹی ایک بار پھر اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب رہی2008 کے انتخابات میں کوئی نیاں اتحاد نہیں بنا البتہ متحدہ مجلس عمل جو پہلے بنا ہوا تھا وہ بھی ا پنی مقبولیت بر قرار نہیں انتخابات کے بعد اتحادی حکومت وجود میں آئی جس میں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم عوامی نیشنل پارٹی اور جے یو آء(ف) شامل تھیں اس اتحادی حکومت کی ایک خاص بات یہ تھی کہ جماعتیں ملک کے وسیع تر مفاد میں کبھی حکومت کا حصہ بننے آتی تو کبھی جاتی رہتی تھیں یہ اتحادی حکومت اپنی غیر معیاری کار کردگی کی وجہ سے عوام میں بھی کافی غیر مقبول رہی اس لیے اپنی حکومت بحال نہ رکھ سکی اور شکست سے دو چار ہو کر حکومت سے حزبِ اختلاف میں آ گئی۔

2013 کے الیکشن میں کوئی اتحاد نہیں بنا البتہ کہیں کہیں مختلف جماعتوں کے درمیان سیٹ ایڈ جسٹمینٹ کی گئی تھی اور 2013 کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نون قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کر نے میں کامیاب رہی، 2013 کے انتخابات کا سب سے مثبت پہلو پاکستان تحریک انصاف کا ابھر کر سامنے آنا تھا پاکستان تحریک انصاف پہلی مرتبہ اتنی بڑی سطح پر کامیاب ہوی تھی، تحریک انصاف کی سیاست کا منفی پہلو یہ ہے کہ وہ اسمبلی سے زیادہ احتجاجی سیاست کو اپنا مرکز سمجھتی ہے۔

عید کے بعد ملکی سیاست میں کون سا بھونچال مچے گا یہ تو آنے والے دن بتائیں گے لیکن سیاسی پنڈتوں کے نزدیک حکومت کے خلاف ایک بڑا محاذ بنے گا، جس میں پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ق لیگ سمیت دیگر جماعتیں جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی، عوامی مسلم لیگ، پاکستان عوامی تحریک شامل ہونگی اور متوقعہ طور پر ایم کیو ایم بھی اس اتحا کا حصہ بن سکتی ہے۔ کئی موقعوں پر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اِس بات کا عندیہ دے چکے ہیں کہ عید کے بعد حکومت کے خلاف دمادم مست قلندر ہوگا اور اس بات کا بھی کئی جگہوں پر سندیسہ دے چکے ہیں کہ اب کی بار ساتھ والے کنٹینر میں بلاول بھٹو زرداری ان کے ساتھ ہونگے یہاں پر یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی نے پاکستانی آئین کے آرٹیکل 62 63 کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان میں وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ موجودہ صورتِ حال یہ بتا رہی ہے کہ نواز شریف کی وطن واپسی پر اصل سیاست شروع ہو گی۔ اب دیکھنا ہے کہ کیا یہ اتحاد صرف حکومتی عہدیداروں کے احتساب کے لیے ا ور کرپشن کے خلاف بنایا جائے گا یا پھر ہمیشہ کی طرح ذاتی مفادات کی آڑ میں اپنے مخالفین کی کردار کشی کے لیے بنایا جائے گا۔

یہاں پر اپنے قارئین کو ا س با ت سے آگاہ کرنا ضروری سمجھتے ہو ے، انہیں یہ بتانا ضروری ہے کہ مختلف ادوار میں حکومتوں کو وقت سے پہلے بھگانے میں ہمیشہ اتحادی سیاست نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
اتحادی سیاست میں عام آدمی خال خال ہی دکھائی دیتا ہے کیونکہ سیاستدانوں کے نزدیک اتحادی سیاست کے لیے عوام سے زیادہ اتحادی جماعت کے رکن اہم ہوتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کے خلاف عید کے بعد متوقع Grand Alliance بھی کیا پرانے اتحادوں کی طرح غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھوں یر غمال ہو گا کہ نہیں یہ بات کہنا قبل از وقت ہوگی۔ لیکن اتحادی سیاست کی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ اتحاد جن مقاصد کے لیے بنائے جاتے ہیں اکثر وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں البتہ اتحادی سیاست حکومت کو مدت پوری کرنے سے پہلے بھگانے میں ہمیشہ کلیدی کردار ادا کرتی آئی ہے۔ چند سوال جو ذ ہن میں گردش کرتے رہتے ہیں کہ کیا اس اتحاد سے عوام کو کوئی فائدہ پہنچے گا یا نہیں یا پھر ہمیشہ کی طرح عوام کو مکمل نظر انداز کر لیا جائے گا؟ او ر س کے ملکی سیاست پر کیا منفی اثرا ت پڑیں گے اور کون سے وہ مثبت اثرات ہونگے جو آگے چل کر ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکیں گے؟ کیا سیاستداں ماضی سے سیکھ کر آگے بڑھیں گے یا پھر ہمیشہ کی طرح ایک دوسرے کے خلاف مشکلات پیدا کر کے مظلومیت کے نوحے پڑھتے رہیں گے۔؟ یہ وہ چند سوال تھے جو ذہن میں گردش کر رہے تھے پچھلے کچھ دنوں سے ان سوالوں کے جواب آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

ہم امید کرتے ہیں اس مرتبہ جو اتحاد بننے جا رہا ہے وہ ذاتی عناد سے پاک ہوگا اور خالص سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے ہوگا اور جمہوریت کے خلاف کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔

Asad Lashari
About the Author: Asad Lashari Read More Articles by Asad Lashari: 17 Articles with 14397 views By profession I am student of Media studies at Sindh Madressatul Islam University Karachi .. View More