روہت کی خودکشی: انصاف کا انتظار

ہندوستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاںکچھ طبقات پر ظلم و ستم کی بوچھاررہی، درندگی اور حیوانیت کا ہدف انہیںبنایا گیا، انہیںعام انسانوں کے برابر سمجھنا جرم گردانا گیا، مذہبی عقائد و احکامات تک ہر ایک خاص طبقہ کی اجارہ داری رہی اور چند برادریوں کے لئے تخلیق ہی میں نقص کے قصہ گھڑے گئے، ان سب کے باوجود جنگ آزادی نے اکثر دوریوں کو پاٹ دیا اور آپسی نفرتوں کو محبت میں تبدیل کردیا اور لمحہ بھر کے لئے اس وقت ایسا لگتا ہے جب بابا بھیم رائوامبیڈکر نے ہندوستان کے پہلے وزیر قانون کے لئے حلف نامہ پڑھا کہ وہ سب گذرے زمانے کی بات تھی جس میں دلتوں کو تعلیم سے روکا جاتا تھا اور انہیں پاس بھی نہیں کھڑا ہونے دیا جاتا تھا، اب سب کچھبدل چکا ، بابا کی انتھک جدوجہد نےاس نظریہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا، اس کو فنا کردیا، جواب کتابوں میں تاریخ کا بدترین روپ ہوگا، لوگ جسے بھلانے کی کوشش کریں گے۔ اب برابری ہوگی، مساوات اور اخوت ، بھائی چارگی کے نغمہ فضائوں میں سنائی دیں گے۔ مگر یہ خیال حقیقت اور سچائی کا جامہ نہ پہن سکا اور آج بھی معاشرہ اور سماج اس طرح کے واقعات سے دوچار ہے، لوگ کتوں سے بوس و کنار میں، ان کے ساتھ کھانے پینے میں کوئی جھجھک اور شرم محسوس نہیں کرتے مگر دلتوں کے ساتھ انہیں بیٹھنا بھی گوارا نہیں ہوتا، ان سے گفت و شنید تو دور کی بات ہے،ان کے ساتھ قیام و طعام کا تصور بھی محال ہے۔ کیا وہ انسان نہیں؟ کیا ان سب چیزوں سے ان کے جذبات مجروح نہیں ہوتے ہوں گے؟ قلب کو ٹھیس نہیں پہنچتی ہوگی؟ آئینۂ دل چور چور نہیں ہوتا ہوگا؟تصور کیجئے یہ رویہ آپ کے ساتھ ہوتا، اگر اس برتائو کا شکار آپ ہوتےتو آپ کے قلب و جگر پر کیا بیتتی؟ آپ کے احساسات و جذبات کیا ہوتے؟ اسپس منظر میں سمجھنے کی کوشش کیجئے، کیا ان کا حق نہیں ہے کہ انہیں انسان سمجھا جائے، اخوت و رواداری کا سلوک کیا جائے، محبت و ہمدردی کے جذبات ان کے تئیں قلوب میں ہوں یہ سوالات آج بھی قلب میںنشتر کی طرح چبھ رہے ہیں اور جمہوریت کا مفہوم پوچھ رہے ہیں، جمہوری نظام کی قدریں معلوم کر رہے ہیں۔ کیا انہیں ان کے حقوق مل چکے؟ کیا آج ان کا استحصال نہیں ہے؟آج بھی ان کے ساتھ دوہرا رویہ کیوں؟ ان کی پسماندگی پر سنجیدہ اقدامات کیوں نہیں ہوتے؟ یہ چیزیں سامنے ہوتے ہوئے بھی نظر کیوں نہیں آتیں؟ اس حقیقت کو ایک دلت، سنجیدہ، ذہین، فعال، جفاکش، محنتی، نوجوان طالب علم کی خودکشی نے پھر سے ہمارے سامنے لا کھڑا کیا کہ ہندوستان میں تعلیم پر بھی اعلیٰ طبقات کی اجارہ داری اور سرمایہ داروں کا تسلط ہے اور کب تک رہے گا؟ پیدائش سے مرنے تک زندگی کے ہر لمحہ کو جنگ کی طرح لڑنے والا فوجی ہار گیا، جیت ہوگئی اس بدتر نظام کی جہاں تمام تر ترقیوںکے باوجود بھی لوگ ذات پات، رنگ و نسل کے تعصب سے اوپر نہیں اٹھ پائے۔اس دائرہ کو نہیں توڑ پائے جو جہالت کی رسموں نے ان کے ارد گرد بنایا تھا، روہت کی خودکشی نے ایک بار پھر سوا ل کھڑا کردیا کہ 66 ویں یوم جمہوریہ منانے کے باوجود ہماری جمہوری قدریں محفوظ نہیں، جمہوریت کا عملی جامہ کیا ملک پوری طرح پہنے ہوئے ہے؟ یا اس لباس کو چند مطلب پرستوں نے تار تار کردیا۔ حقائق سامنے ہیں، دلائل وشواہد کی ضرورت بھی نہیں ہے، کس طرح دلتوں پر ظلم و ستم کی تاریخ رقم کی گئی ہے، عزتوں سے کھیلا گیا اور پستی و ذلت ان کے مقدرمیں لکھ دی، جو قدم آگے بڑھتے انہیں موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے۔ ابتک جو ہوتا تھا لیکن چند ایام قبل اسواقعہ نے جمہوریت کے دامن پر ایک ایسا داغ لگایا جسے مٹا نا انتہائی مشکل ہے۔ روہت وامیلا کی خودکشی کی وجوہات پوری طرح سامنے ہیں۔ اگر اس کے اندر بی جے پی مخالف اثرات ظاہر ہونا ہوتے، اس کے اندر کا حق پرست چھپا رہتا تو یقینا وہ ایسےبھیانک انجام سے دوچار نہ ہوتا، اے بیوپی کے افراد سے الجھنا، مظفرنگر پر بنی حقیقت پر مبنی فلم دیکھنا، یہی وہ اسباب ہیں جنہوں نے ایک فطین نوجوان طالب علم کو ہندوستان سے چھینا اور ایک قوم کے ساتھ ساتھ تمام اقلیتوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی، ان کے قلوب چکنا چور کردئیے ورنہ کیا وجہ ہوسکتی ہےجب یونیورسٹی نے اسے کلین چٹ دیدی، دتاتریہ کا خط جانا، اور اسمرتی کی طرف سے اخراج کا خط آنا پورا قصہ دو دو چار کی طرح واضح اور کھلی کتاب ہے۔ اگر وہ پہلے بھیمحروم تھا تو اسے کلین چٹ کیوں دی گئی؟ پھر فواً اس کا وظیفہ روکلینا چہ معنیٰ دارد؟ دتاتریہ کا خط لکھنا جن کا تعلق بی جے پی سے ہے اور اس خط پر جواب کیا تحقیقات کی ضرورت نہیں تھی کیا اسمرتی ایرانیکو ایک مرتبہ یونیورسٹی سے اس ضمنمیں کچھ معلومات نہیں کرنی چاہئے تھیں؟ جس مقام پر پہنچ کر روہت خودکشی پر مجبور ہوا وہ شرمناک ہے،وہ ہندوستان کے لئے کتنے نمایاں کارنامے انجام دیتا، اپنے معاشرے اور سماج کا نمونہ اور آئیڈیل ہوتا، وہ خانوادہ جس نے اس مقام تک اپنے نونہال کو پہنچانے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا ان پر کیا بیت رہی ہوگی؟ اس کا کوئی تصور تو کرے۔ جگر پھٹ جائے گا، کلیجہ منہ کو آجائے گا، کیا روہت کا جرم اس کے سوا بھی کچھ اور ہے کہ وہ بی جے پی طلبہ ونگ کے خلاف تحریک چلا رہا تھا، کیا پسماندہ طبقہ کے ایک فرد کی حق گوئی ان افراد کو ہضم نہیں ہوئی اور اسے دنیا چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جس ملک میں ایک کثیر تعداد دلتوں کی ہے اور ان کی پسماندگی ثابت شدہ ہے ان کے حوصلے کو مہمیز لگانا حکومت کا کام ہے یا ان کے حوصلوں کو چور چور کرنا، ریزرویشن پر ہورہی بحث بھی موجودہ حکومت کو دلت مخالف پالیسی کی دلیل ہے۔ دس دن گذر چکے آج تک روہت کے معاملے میں انصاف نہیں ہوااور آگے بھی امیدیں کم ہی نظر آتی ہیں، طلبہ کا احتجاج مسلسل جاری ہے، مگر انہیں پولیس کی زیادتیوں کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں لگ رہا ہے،انصاف مانگنے والوں کو لاٹھیاں اور ظلم کرنے والوں کو داد و تحسین، پھر سے وہی ہوا جو ہوتا رہا ہے۔ مرکزی وزیر تعلیم نے اپنے خطاب میں کہہ دیا کہ ٹی ایم سی اس پر ووٹ بینک کی سیاست کر رہی ہے۔ ایک جانکو سیاسی مفاد کا بہانہ بنا کر انصافسے محروم کردیا جائیگا، آج سے چند ماہ پہلے ایک دلت کو کتا کہا گیا تھا۔ اگر اسی وقت کارروائی ہوتی تو کیا یہاں تک نوبت آتی؟ حکومت کی دوہری پالیسی کا بھی عجیب حال ہے۔ ایک طرف شک کی بنیاد پر زندگی کا اکثر حصہ جیل میں گذر جاتا ہے اور دوسری طرف جرم عیاں ہونے کے باوجود بھی کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟ جمہوریت کا جشن تو ہم نے منایا، زبان پر قومی ترانہ تھا، دل میں روہت کی یادیں، آنکھوں سے ٹپکتے آنسو جمہوریت پر لگے اس داغ کا ماتم تو ہمیشہ منایا جاتا رہے گا۔ اور جب جب یہ تاریخآئے گی اس کی یادیں قلوب کو جھنجھوڑ جائیں گی، آنسو تو ہمارےوزیر اعظم کے بھی بہے مگر ان کے آنسو میںسچائی سے زیادہ ایک ماہراداکار کی اداکاری نظر آئی۔ اگر ان آنسوئوں میں سچائی ہوتی تو وہ اس طالب علم کے گھر جاتے اور اس کو انصاف دلاتے، وزیر تعلیم اور یونیورسٹیکے اعلیٰ حکام کے خلاف کارروائی ہوتی، مگر کچھ بھی نہیں۔ کیا روہتکی جان کی قیمت چند آنسو ہیں؟ نہیں اور ہرگز نہیں بلکہ انصاف ہی اس کیقیمت ہوگی۔نوجوانانِ وطن اس کو انصاف دلانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، اگر چہ ان کو توڑنے کی کوشش کی جارہی ہے، پولیس کی سختیاں انہیں جھیلنی پڑ رہی ہیں، اس طرح کا واقعہ۔ اگر کسی پولیس والے کے بیٹے کے ساتھ ہوتا تو پتہ چلتا یا کسی نیتا کے ساتھ ایسا سانحہ پیش آتا تو درد بڑھ جاتا۔ اب تو صرف ایک واقعہ لگتا ہے جو گذر گیا، اس کے دردکا احساس نہیں۔اگر انہیں درد کا احساسہوتو لاٹھیاں اٹھنے سے پہلے ہاتھ کانپ جائیں اور اداکاری سے پہلے جگر پھٹ جائے اور ان واقعات کو سیاست سے جوڑنے والے کی زبانیں گنگ ہوجائیں، یہ ایسا المناک حادثہ ہے جس نے جمہوریت کے دامن کو داغ دار کیا اس نوعیت سے کہ ظاہر ہے ایسے حادثات ہندوستان کو تعلیمی پسماندگی کی طرف دھکیل سکتے ہیں اور جمہوری قدروں کے لئے سم قاتل ہوسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں وزیر عظماور دیگر اعلیٰ حکام کو سیاسی مفادات سے آگے بڑھ کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کے مستقبل کو نظر میں رکھنے کی ضرورت اور جمہوریت پر لگے اس بدنما داغ کو اپنے آنسوسے دھونے کے بجائے انصاف کے ذریعہ اس زخم کو مندمل کرنے کی ضرورت ہے جو ہم ہندوستانیوں کے دل پر لگا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ہندوستان کے لئے، جمہوریت کے لئے، ہندوستانی ترقی کے لئے بڑی رکاوٹ ثابت ہوگا اور مورخ ان ملزمین کو کبھی معاف نہیں کرے گا اور ہندوستان کے باشعور افراد انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔ یہ باتیں فرقہ پرستوں کی سمجھ میںآتی ہیں یانہیں؟ یہ انتظار کتنا طویل ہوگا دیکھتے ہیں؟
rahat ali siddiqui
About the Author: rahat ali siddiqui Read More Articles by rahat ali siddiqui: 82 Articles with 76359 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.