وطن پرستی کا ڈھونگ

1925میں آرایس آیس کا قیام عمل میں آیاڈ ناگپور سے شروع ہوئی یہ تحریک بلاشبہ آزادی کی تحریک نہیں ہے، نہ آزادی سے اس جماعت کے افراد کو کوئی سروکار رہا۔ ایک خاص مقصد اور خاص فکر پر اس کا ڈھانچہ تشکیل دیا گیا جو واضح ہے۔ نصف النہار پر چمکنے والے سورج کی طرح ان کے عزائم اورمقاصد کسی فرد و بشر پر مخفی نہیں ہیں۔ کوئی ایک ثبوت آج تکایسا نہ پیش کیا جاسکا جو آرایس آریس کے ملک کی آزادی میں ادنیٰ سے کردار کو ثابت کرسکے۔اسجماعت کے قیام سے آج تک اس کا کوئی بھی فرد کسی ایسی سرگرمی میں شامل نظر نہیں آتا جو ان کی وطن پرستی اور بڑے بڑے دعووں کی لاج رکھتاہو۔ 1925سے لے کر ہندوستان کی آزادی تک ایک بھی چہرہ انکے پاس نہیں اور نفاذ قوانین میں کہیں ان کا کوئی حصہ یا شرکت تلاش کرنا بھوسے کےڈھیر میں سوئی تلاش کرنے کے مثل ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جو عالم آشکارہ ہیں۔ اگر کسی کو شک ہو، کوئی یہ خیال کرے کہیہ کلمات ناواقفیت میں کہے گئے، ان کی بنیاد نفرت ہے تواس کے لئے تحقیق کا میدان ہے۔ پڑھیںآرایس ایس کی تاریخ، جانیںکیشوا بلی رام ہیڑگیوار کو جس نے اس فکر کو پیدا کیا،آشنا ہوں اس کے مقاصد سے تو سب کچھ مثل آئینہ ہوجائے گا۔ سارے خدشات ہوا ہو جائیں گے اور اگر اس جماعت کے جرائم کی فہرست پرنظر ڈالی جائے تو اسی جماعت کے فرد ناتھو رام گوڈسے نےمہاتما گاندھی، ہندوستان کی آبرو، امن کا جیتا جاگتا نمونہ، محبت کا علمبردار، پیارو وفا کے لئے، ملک کی آزادی کے لئے اپنے ہی طرز وانداز سے مشکل اصولوں پر زندگی گذرانے والے شخص کو موت کی نیند سلا دیا اور اگر فسادات کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو اس جماعت کے افرادبہت سے فسادات ملوث پائے گئے۔ بابری مسجد کو شہیدکرنا، ناگپور میں فساد اور مکہ مسجد بم دھماکہ یہ اس جماعت کے زریں کارنامے ہیں جو آج دو بول کہہ کر اپنی ساری کرتوتوں پر پردہ ڈال رہی ہے۔ اگر ان لوگوں کا تعلق ذرہ برابر بھی ملک کی صلاح وفلاح بہبودو ترقی سے ہوتا تو اس جماعت کو آزادی کے بعد تین مرتبہ ممنوع کیوں قرار دیا جاتا؟ سوال یہ ہے کہ جب ملک آزاد ہو چکا، اپنا آئین، اپنا دستور رکھتا ہے تو کیا محب وطن وہ ہوگا جو اس کے آئین تسلیم نہ کرے؟ جو اسکے قوانین پر انگلی اٹھائے اور اپنی منشا و مقصد کی خاطر کشت و خون کی ندیاں بہانے سے بھی گریز نہ کرے؟ اپنی سوچ و فکر کو ہر انسان پر تھوپے، چاہے آئین اور دستور کے موافق ہو یا مخالف مگر یہ لوگ 67سالوں سے جمہوریت کاقتل کرتے آئے ہیں، جو ان کامقصد اصلی ہے۔ عام انسانوں کے جذبات سے کھیلنا، ملک کیسالمیت کو ٹھیس پہنچانا ان کی فطرت ثانیہ ہے۔ اگر واقعتا یہ افراد ملک کی پوجا کرنے والے ہیں تو کہاں تھے جب ملک کی خاطر ملک کے ہونہار نونہال اپنی توانائیاں صرف کررہے تھے؟ اپنی جانیں لٹارہے تھے؟ اور زمین کے سینہ کو اپنے خون سے رنگین کررہے تھے؟ اس کے حسن کو دوبالا کررہے تھے؟ ان کے کون سے کارنامے ہیں یہ بھی پیش کریں۔ یقینا ان کے کارنامے تو ہیں مگر اپنے مقاصد کی تکمیل کی خاطر ملک ان کی نظر میں کبھی محترم ہی نہیں تھا۔ آزادی کے بعد جتنے معرکہ ہوئے اس میں یہ کہیں نظر نہیں آتے۔ آئیں کیوں ان کا مقصد ہندتو کا قیام ہے اور وہ معرکہ ہندوستان کی آبرو، اس کےوقار کے لئے لڑے گئے ہندتو کے لئے نہیں، اس میں آرایس ایس کا کردار چہ معنی دارد؟ سچائی تو یہ ہے کہ یہ لوگ ہندتو کا قیام بھی نہیںچاہتے۔ اگر انہیں ہندتو کا قیام مقصود ہوتا تو کیا یہ سیاسی دنگل میں بی جے پی کی شکل میں اترتے؟ جو جمہوری اقدار کی مضبوطی کا ذریعہ ہے، جو عوامی رائے کامظہر ہے۔ ان کا مقصد خالصتا اپنی بالا دستی، سنگھ کیبرتری ثابت کرنا، اس کے لئے جو چیز معاون و مددگار ہوتی ہے اسے لے کر آگے بڑھتے ہیں، راستے میں حائل ہونے والی ہر چٹان سے نبردآزما ہوتے ہیں، چاہے وطن پرستی کی، یاوطن دوستی کی انہیں تو اپنے مقصد کا حصول درکار ہے، اس کے لئے عوام خواص کا استحصال کس طرح کرنا ہے، وہ ساری منصوبہ بندی ان کے ذہنوں میں ہے۔ان کی خوبی یہ ہے کہ انہوںنے اپنی باتوں کومذہبی پیرائے میں عوام کے سامنے اس انداز میں پیش کیا کہ ان کے جذبات سے کھلواڑ کیا جائے اور مذہبی اقدار کے نفاذ کا حربہ استعمال کرکے اپنی بالادستی ثابت کی جائے، چوںکہ عام انسانجذباتی ہوتا ہے اور اگر اس کے جذبات کا استعمال کرنا ہو یا استحصال کرنا ہو دونوں صورتوں میں مذہب سے بڑا کوئی ہتھیار نہیں۔ اسی ہتھیار کو لے کر آرایس ایس اور بی جے پی ترقی آگے کی راہ پر چلی ہے مگر حقائق تو حقائق ہیں، کب تک پوشیدہ رہ سکتے ہیں سچائی کوکب تک ذہنوں میں داخل ہونے اور قلوب میں راسخ ہونے سے روکا جاسکتا ہے اور کتنے جال ہیں جو حقائق سے روکنے کے لئے بنے جائیں گے۔ اسی کا حصہ یہ بھارت ماتا کے نعرے پر ہورہا واویلا بھی ہے کیوں کہ لاکھ کوششوں کے باوجود اپنی سوچ وفکر کو سادہ لوح افراد کے قلوب میں پیوست کرنے میں آرایس ایس ناکام رہی ہے، اس لئے مسلمانوں کے خلاف عوام کو بھڑکانا یہ ثابت کرنے کےلئے ہے کہ مسلمان ملک سے محبت نہیں کرتا۔ اس سے عشق نہیں کرتا اور اسے اپنی ماں تسلیم نہیں کرتا۔ یہ وہ طرز ہےجسے عام انسانوں کے جذبات کو ہوا دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مقصد ملک سے محبت یا ملککی عبادت نہیں بلکہ مقصد برتری کا ثبوت ہے۔ آرایس ایس یہ واضح طور پر سمجھ چکی ہے کہ دوسال میں بی جے پی کی عظیم الشان حکومت میں جتنےحربہ ہوسکتے تھے آزمائے جاچکے، حکومت کا وقار بھی مجروح ہوتا چلا گیا اور ان کے مقاصد بھی بروئے کار نہ لائے جاسکے۔ اب پھر سے عوام کا استحصال نئے انداز سے کرکے وہی ماحول تیار کرنے کامنشا و مقصد رکھتے ہیں۔ اگر یہواقعتا وطن پرست ہوتے تو بھیاجی جوشی کی زبان یہ زہر نہ اگلتی کہ ترنگے کی جگہ بھگوا اور قومی ترانہ کو) بھارت ماتا کی جے (سے بدل دیا جائے۔ان الفاظ نے ان کے مقاصد کیا ہیں؟ اور در پردہ کیا ہے اس کو واضح کردیاہے۔اگر یہ شخص ملک کا پرستار ہے تو ترنگے کو نوچنے کی بات کیوںکرتا ہے؟ کیوں اس کے آئین کے ساتھ یہ بدترین مذاق کرتا ہے؟ وہ ترانہ جو اس قوم کی پہچان ہے اسے بدلنا چہ معنی دارد؟ اس قوم کے افراد سے محبت کا ثبوت جس کا نونہال مادر وطن کی خاطر 25گولیاں اپنے سینہ پر کھاکر ترنگے کو اپنے خون سے یک رنگ کر گیا اور ملک کے دشمنوں کو بے نقاب کرنے کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کرگیا اب بھی تمہیں اس کے محب وطن ہونے کی سند چاہئے آخر کیوں؟ اس ڈھونگ کا مقصد کیا ہے؟ ایک شخص ملک کی خاطر اپنے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کرالیتا ہے، تماس کے بیٹے کی وطن سے محبت پر شک کرتے ہو؟ یہ کون سا کھیل ہے جو تم کھیل رہے ہو؟ یاد رکھو الفاظ کے جال میں زیادہ دنوں تک ہندوستانیوں کو نہیں الجھایا جاسکتا۔ اب ان پر حقائق منکشف ہونے لگے ہیں۔ اب وہ سچ اور جھوٹ کو پہچاننے لگے ہیں جو تمہارے لئے خطرے کی گھنٹی ہے، جو تمہاری سیاسیبساط کو تباہ کرنے کے لئے کافی ہے۔ ملک کے ہندوں نے بھی تنزیل کی لاش دیکھی ہے، انہیں بھی اس کی قربانی کا مفہوم معلوم ہے، تمہارا یہ ڈھونگ زیادہ دن چلنے والانہیں ہے۔اور اس بات کو خیال میں رکھو ملک پر جب جب کوئی مصیبت آئی ہے تب تب ہندوستانی متحد ہوئے ہیں۔ آج ملک پر انتشار کے بادل چھائے ہوئے ہیں اختلاف کی جو تخم ریزی تم نے کی ہے اس سے پودا نہیں اگنے والا۔ 30فیصد افراد کی حمایت سے تمہارے بے لگام ہونے نے ہندوستانیوں کی آنکھیں کھول دیں اور تمہارے وطن پرستی کے ڈھونگ کی ہوا آنے والے انتخاب میں ہندو مسلمان مل کر نکالیںگےاور تمہیں بتائیں گے وطن سےمحبت کیا ہوتی ہے اور ہردن انہیںبیوقوف نہیں بنایا جاسکتا، ہروقت انہیں اپنے مفادات کی خاطراستعمال نہیں کیاجاسکتا وہ دونوںہندستانی ہونے کے معنی اور فرض جانتے ہیں۔

rahat ali siddiqui
About the Author: rahat ali siddiqui Read More Articles by rahat ali siddiqui: 82 Articles with 76004 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.