روداد کرپشن

ہرکوئی کرپشن کرنے کے چکر میں ہے بس موقع ملنا چاہیے۔
ایک دن بینک میں جانا ہوا ۔کسی بڑےکام سے نہیں بلکہ بچوں کوعیدی دینے کیلئے نئے نوٹ لینے تھے۔تقریبا ایک گھنٹے کی محاذآرائی کے بعد نئے نوٹ لینے میں کامیابی حاصل ہوئی۔پہلے ٹوکن لینے کیلئے لائن میں کھڑا ہونا تھا پھر باری آنے پر ٹوکن حاصل کرکے نوٹ لینے کیلئے دوسری لائن میں کھڑا ہونا وہاں کا دستور تھا۔آج کی چند سطروں میں اسی روداد کو پیش کرنے جارہا ہوں۔بینک کا اصول تھا کہ شناختی کارڈ کی کاپی پر ٹوکن بناکردیاجاتا ہے۔

اولا میں ٹوکن لینے کیلئے لائن میں کھڑا ہوا۔گرمی کا یہ عالم تھا کہ اے۔سی ہونےکے باوجود پسینے آرہے تھے۔آدھ گھنٹے کے جہد مسلسل کے بعد جب میری باری آنے لگی تو لائن پر مقرر بواب تبدیل ہوگئے۔ان کی دیانت داری کا اس عروج پر تھی کہ جو جان پہچان والا آدمی آتا اسے گزرنے کی بے دریغ اجازت ہوتی اور ہم جیسوں کو زبردستی لائن میں کھڑا کیا جاتا۔میرے دائیں طرف ایک افسر براجمان تھے۔ان کے تقویٰ کا بھی جائزہ لیتے چلئے۔ ایک ہاتھ سے دراز میں سے دس بیس شناختی کارڈ کی کاپیاں نکال کر ٹوکن بنانے والے کو تھما دیں۔میں حیرت کا مجسمہ بنے اسے تاڑ رہا تھا اور اپنی باری پر پچھاڑیں ماررہا تھا۔ادھر بواب دیدہ دلیری سے اپنے کام میں مگن تھے۔

خداخدا کرکے جب مجھے بھیجا ٹوکن لینے بھیجا گیا تو افسر صاحب کسی اور کے ٹوکن بنانے میں مصروف تھے۔کھینچاتانی کرکے جب ہاتھ ان کے منہ تک پہنچایا تو شناختی کارڈ کی کاپی دینے میں کامیابی حاصل ہوئی۔مگر میں اناڑی اور وہ کھلاڑی تھے ۔ٹوکن بناکر انٹری کیلئے سب سے نیچے رکھ دیا۔خاموشی راہ نجات ہے کہ تحت پھر مہر سکوت لگائی ۔آخر انٹری کرنے والے نے میرے ٹوکن سمیت ساری کاپیاں کسی کے ہاتھ میں دے دیں۔میں چلانے لگا کہ میرے شناختی کارڈ کی کاپی اس میں موجود ہےمگر بے سود۔آخر اس سے لے کر ان کو کاپی پکڑائی ،انٹری ہوئی اور ٹوکن لے کر فریش نوٹ لینے دوسری لائن میں کھڑا ہوگیا۔یہاں بھی کچھ ایسا ہی حال تھا۔اپنوں کو منہ مانگی مرادیں مل رہی تھیں اور بیگانے کھڑےمنہ تک رہے تھے۔
خیر مجھ سے پہلے والے نے مطالبہ کیا کہ مجھے دس کے نوٹ کی اتنی کاپیاں چاہییں ۔فورا حکم کی تعمیل ہوئی اور اتنی کاپیاں ان کو دے دی گئیں اور جب میں نے مطالبہ کیا کہ حضور!ہم بھی ایک کاپی زائد لینے کے خواہشمند ہیں تو آواز آئی!نہیں مولوی صاحب!اتنی ہی ملیں گی جتنی ٹوکن پر لکھی ہوئی ہیں۔میں منہ مسور کر بینک کے گیٹ کی طرف چل دیا۔

قارئین کرام!دس روپے کے نوٹ کی زائد کاپی نہ ملنے پر مجھے افسوس ضرور ہوا مگر زیادہ افسوس اس بات پر ہوا کہ ہم بچوں کو خوش کرنے کیلئے کھرے نوٹ لیتے یا دیتے ہیں ۔اس میں ثواب نہیں مگر اتنے چھوٹے سے کام میں اتنی کرپشن کرنا کہاں کا انصاف اور دیانتداری ہے۔معمولی سے کام میں بواب سے لےکر افسر تک کرپشن میں ملوث ہیں تو باقی کاموں میں کیا حالت ہوگی اور دیگر اداروں اور محکمہ جات کا کیا عالم ہوگا۔ملک پاکستان کی خیرخواہی کا دم بھرنے والے اور ساری کرپشن کا سلطان حکومت کو بنانے والے ذرا غور کریں کہ جب ہمیں کسی عہدہ پر فائز کیا جاتا ہے یا کوئی کام ہمارے سپرد کیا جاتا ہے توہم کتنی دیانتداری سے کام لیتے ہیں۔پس پردہ ایک بات کرنا چاہتا ہوں کہ ہم سب کرپشن میں مبتلا ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ ہمیں موقع کم ملتا ہے اور جن کو ملتا ہے ان پر ساون کے بادل کی طرح برستے رہتے ہیں۔

گزارش ہے کہ اپنی اور اپنے ملک کی حالت زار پر رحم کریں اور دیمک کی طرح ملک کو چاٹنا بند کریں ورنہ کل تمہارا نام بھی ان غداروں میں آجائے گا جنہیں آج تک ملک پاکستا ن کی سرزمین کوسنے دے رہی ہے۔ہمارا اسلام تو یہ تعلیم دیتا ہےکہ دھوکہ کافر کے ساتھ بھی جائز نہیں مگر ہم اپنے ملک،ادارے اور خود کو دھوکہ دینے میں مصروف عمل ہیں۔خدارا اپنے منصب کا لحاظ کیجئے تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کو زوال نعمت سے محفوظ فرمائےکیونکہ مروی ہے کہ جو اپنی نعمت کی قدر نہیں کرتا اس سے وہ نعمت چھین لی جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ملک،قوم اور اپنے ساتھ مخلص ہونےکی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی
الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم
abul hassan madani
About the Author: abul hassan madani Read More Articles by abul hassan madani: 3 Articles with 2118 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.