علم چونی

دھوکادہی سے بچنا چاہیے۔
علمِ لَدُنّی کے بارے میں تو آپ نے سنا یا پڑھا ہوگا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاکردہ وہ علم ہے کہ جس کے حصول میں نفس اور حق تعالیٰ کے درمیان کوئی واسطہ نہ ہو۔آج میں آپ کو ایک ایسے علم کے بارے میں بتانے جارہا ہوں جس کاتذکرہ تو بہت سنا ہوگا مگر اس انداز سے نہیں ۔وہ علم علم چَوَنّی ہےجس کا تعلق تقریبا زندگی کے تمام شعبہ جات سے ہے۔جی ہاں!بچے سے لے کر بوڑھے تک اس علم سے مستفیض ہورہے ہیں خاص طور پر کاروباری حضرات اس علم کے بہت بڑے سکالر اور پی۔ایچ۔ڈی ہولڈر ہوتے ہیں ۔

اگر آپ بھی اس فانی دنیا کے باسی ہیں تو علم چونی سیکھنا ہوگا ورنہ آۓ روز اس علم سے جہالت کی بنا پر ماتم کرتے نظر آئیں گے۔آپ کسی غرض سے بازار جائیں تو کم وبیش ہر دکاندارآپ کو ایسی نظروں سے دیکھ رہا ہوگا جیسے قصاب بکرے کودیکھتا ہے اور شاید آپ کی حالت ایسی ہو جیسے بکرا چھری کو دیکھتا ہے۔بازاروں،مارکیٹوں،شاپنگ مالزوغیرہ ہرجگہ ایسی نفاست سے گاہک کو دھوکہ دیا جارہا ہے کہ گاہک کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔کسٹمر اگرچہ پروفیسر ،ڈاکٹر یا انجنئیر ہو ،اگر علم چونی کا ماہر نہیں ہے تو کبھی بھی گھر میں درست راشن درست ریٹ پر لے جانے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔

مثال کے طور پرآم فروخت کرنے والے نے اچھے آم سامنے سجاۓہیں جبکہ گلے سڑے اپنی طرف ہوں گے۔جوں ہی گاہک نے خریداری کی حامی بھری تو ایک سامنے سے اور دو نیچے سے اٹھا کر دھڑام سے ترازو پر مارے اورگرہ لگاکر گاہک کے ہاتھ میں تھما دیے۔گھر جاکر آنکھ کھلی تو پتہ چلا کہ موصوف آم کے نام پر کوڑا خرید لاے ہیں اور وہ بھی کلو کی بجاے تین پاؤ ہے۔ایک چھابڑی والے سے لے کر شاپنگ مال تک ہر جگہ یہی صورت حال ہے۔میرا خیال ہے اس دور میں کمانے اور گھر چلانے کے لیے اتنے علم کی ضرورت نہیں جتنا علم لوگوں کے دھوکے سے بچنے کے لیے چاہیے۔گھر چلانا اتنا مشکل نہیں جتنا گھر بچانا مشکل ہے۔مہنگائی،غربت کے نام پر لوٹ مار جاری ہے اور شاید ہر شخص مزے سے لٹ رہا ہے کیونکہ آج مجھے دھوکہ ہواہےتو کوئی بات نہیں ،کل مجھ سے بھی سامان لینے آے گا پھر میں بھی بتاوں گا۔
اگرمان لیا جاۓ کہ تعلقات کی بنیاد پر درست اشیادرست ریٹ پر مل جاتی ہیں تو شاید ایسےشخص کو خوش فہمی کا ڈساہوا کہا جاۓ۔موجودہ نام نہاد ترقی یافتہ دور میں اگر تعلقات کی بنیاد پر ایسا ہوتا تو کوئی بھی دھوکہ کا شکار نہ ہوتابلکہ کمانے کی بجاۓ تعلقات ہی بنا لیے جاتے۔

ہم بچپن سے سنتے آۓ ہیں کہ گوشت خریدو تو شام کے وقت اور سبزی خریدنا ہوتو صبح کے وقت خریدنی چاہیے کیونکہ قصاب اچھے گوشت کو اس وقت تک چھپا کر رکھتا ہے جب تک باسی یا ناکارہ گوشت فروخت نہ ہوجاۓ۔اسی طرح بازار جانے سے قبل بے شمار نصیحتوں کا بوجھ اٹھاۓ اور انہیں یاد کرتے ہوے بازار کا رخ کیا جاتا تھا مگر واپسی پر ان دکانداروں سے شکار ہوکر گھر سے ڈانٹ کھانا پڑتی تھی۔

ہم لوگوں کو اس لیے دھوکہ دیتے ہیں کہ ہمارا مال بک جاۓ اور ہمیں زیادہ سے زیادہ نفع ہوتاکہ اپنے بچوں کا پیٹ پالا جاسکے لیکن یادرکھیں کہ شریعت نے تو کافر کو بھی دھوکہ دینے سے منع فرمایا ہے ہم اپنے مسلمان بھائی کو دھوکہ دے کر کیسے اپنی کمائی میں برکت لاسکتے ہیں۔دھوکہ دے کر کماۓ گئے روپے ظاہرا تو زیادہ نظر آتے ہوں گے مگر حقیقت میں وہ زیادہ نہیں کیونکہ پیسے کم ہوں یا زیادہ ان میں برکت دینے والی ذات اللہ تعالی کی ہے۔

آپ نے دیکھا ہوگا کہ بارہ سے پندرہ ہزار روپے کمانے والا اگر مزید پیسوں کا متمنی ہے تو پچاس ہزار والا بھی ایک لاکھ کمانے کا خواہشمند ہوگا۔اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ لاکھوں روپے کمانے والےکے گھر کا چولہا نہیں بجھنے دیتا تو چند ہزار روپے کی نوکری کرنے والا بھی پیٹ بھر کرسوتا ہے۔ہمارے اسلاف کا یہ طریقہ کار نہیں رہا۔آئیے آپ کی خدمت میں ایک واقعہ پیش کرتا ہوں کہ پہلے کے لوگ کیسے کمائی کرتے تھے۔چنانچہ حضرت سیدنا شیخ ابوعبداللہ خیاط علیہ الرحمۃ کے پاس ایک آتش پرست کپڑے سلواتا اور ہربار اجرت میں کھوٹا سکہ دے جاتا۔آپ علیہ الرحمۃ چپ چاپ لے لیتے۔ایک بار آپ علیہ الرحمۃ کی غیر موجودگی میں شاگرد نے آتش پرست سے کھوٹا سکہ نہ لیا۔جب واپس تشریف لاے تو معلوم ہوا تو شاگرد سے فرمایا ،"تو نے کھوٹا درہم کیوں نہیں لیا؟کئی سال سے وہ مجھے کھوٹا سکہ ہی دیتا رہا ہے اور میں بھی جان بوجھ کر لیتا ہوں تاکہ یہ وہی سکہ کسی دوسرے مسلمان کو نہ دے آۓ۔"

حدیث مبارک ہے:"من غش فلیس منا"یعنی جس نے دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں یعنی ہمارے طریقے پر نہیں۔ممکن ہے کہ اگر ہم ایمانداری کے ساتھ اپنا کاروبار کریں تو اللہ تعالیٰ ہمارے ان چند روپوں میں ایسی برکت ڈال دے جو لاکھوں روپے ناجائز کمانے والوں کے مال میں نہ ہو۔اللہ تعالیٰ ہمیں امت مسلمہ کی خیرخواہی نصیب فرماۓ اور درست ریٹ پر درست اشیا کو فروخت کرنے کی توفیق رفیق مرحمت فرماے۔آمین بجاہ النبی الامین ﷺ
از ابوالحسن مدنی
22رمضان المبارک1437
abul hassan madani
About the Author: abul hassan madani Read More Articles by abul hassan madani: 3 Articles with 2119 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.