کانگریس مکت بھارت ،کیا ہے معاملہ ؟

کیا ہندوستان کانگریس سے آزاد بھارت کی طرف گامزن ہے ؟یہ اور اس طرح کے کئی سوالات آج تیزی سے ملک اور بیرون ملک گردش میں ہے ۔اس طرح کے سوالات کو جنم دینے میں خود حکمراں جماعت نے کلیدی رول ادا کیا ہے ۔اگر مان بھی لیا جائے کہ کانگریس مکت بھارت بن جائے گا تو کیا ہوا ۔لیکن اس سے یہاں کی جمہوریت پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے ۔جمہوری کی تو شان ہی یہ ہے کہ آج کوئی اور پارٹی بسر اقتدار ہے تو کل کوئی اور یہ تو عوام کی منشا پر منحصر ہے اور ایسا ہونا جمہوریت کے لئے نیک فعال ہے ۔لیکن کچھ لوگوں کو خدشہ یہ ہے کہ کہیں موجودہ بر سر اقتدار حکومت کسی خاص طبقہ کی صرف نمائندہ جماعت نہ بن جائے ۔یہ اور اس طرح کی باتیں ہو رہی ہیں جسے ہم اپوزیشن کی ایک سوچی سمجھی چال بھی کہہ سکتے ہیں ۔عوام کو متنفر کرنے کے لئے ان کے دلوں میں خوف پید ا کرنے کے لئے یا انہیں حکمراں جماعت سے بد ظن کرنے کیلئے یہ اور اس طرح کی باتیں کی جارہی ہیں ۔اگر کانگریس کسی خاص مذہب کی نمائدہ جماعت نہیں ہے تو کوئی بتائے کہ آزادی سے سب سے زیادہ حکومت کرنے والی جماعت کے لیڈران جب کسی بھون ،پل،ترقیاقی کاموں کا افتتاح کرتے رہے ہیں تو اس وقت وہ بھی وہی کرتے تھے موجودہ حکومت کر رہی ہے یعنی ناریل پھوڑ نا اور ہون کرانا یہ سب کانگریس کی ہی تو مرہون منت ہے ۔اس کی روایات تو یہی ہے ۔اکبر کو اچھا ثابت کرنا اور اورنگ زیب کو برا بھلا کہنا اور تاریخ کے نصاب میں شامل کرنا یہ سب کس کے کارنامے تھے ۔بی جے پی کا تو اس وقت وجود بھی نہیں تھا ۔آزادی کے بعد سے ہی پورے ہندوستان میں فسادات کا لا متاہی سلسلہ جو چلا تھا وہ سب تو کانگریس کے دور میں ہی ہوا تھا ،بابری مسجد کا تالا کھلوانے سے لیکر اس کی شہادت اور ملیانا میں پولیس کے ہاتھوں مسلمانوں کی گرفتاری اور گولیوں سے بھون ڈالنے کا کام بھی تو کانگریس کے زمانے میں ہوا تھا ۔گزشتہ کانگریس حکومت میں جن کی سرکار مرکز سے لیکر ریاست آسام میں تھی انتہائی خطرناک فسادات ہوئے اور مہینوں ہوتے رہے اس کا ذمہ دار بھی تو کانگریس تھی انہوں نے کیا کیا ۔سوائے کیمپ میں منموہن جاکر مسلمانوں کے آنسوں پوچھنے کا کام کرنے گئے وہ بھی تب جب وہ لٹ پٹ چکے تھے اس کے بعد اس فسادات کا نتیجہ کیا نکلا ۔یہ اور اس طرح کے بہت سارے سوالات ہیں جن کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کانگریس کو ہم سیکولرپارٹی کہلانے کے لئے ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے ۔اب اگر کوئی مذہبی جماعت بر سر اقتدار ہے تو اس میں شک کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے اس لئے کہ وہ ابھی تک وہ نہیں کر رہی ہے جو کانگریس کر چکی ہے۔اب اگر بی جے پی نعرہ دے رہی ہے کانگریس مکت کا تو کیا ہوا اس میں کوئی قباحت نہیں بلکہ ان کی جگہ کوئی اور اقتدار کا مالک ہوگا اور اگر وہ بھی اسی کے نقش قدم پر چلے گا تو یہاں کی جمہور اسے بھی مکت بھارت بنانے میں ذرا بھی دیر نہیں کریں گے ۔کہا جا رہا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ’کانگریس سے آزاد بھارت‘ کا نعرہ دیا ہے اور گذشتہ روز جمعرات کو اسمبلی انتخابات کے جو نتائج سامنے آئے اس کے بعد یہ کہا جا رہا ہے کہ شاید ملک اسی سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔انڈیا پر کانگریس پارٹی کا برسوں سے راج رہا ہے لیکن اس وقت اس کی ملک کی محض چھ ریاستوں میں حکومت ہے اور وہ بھی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں۔اس کے برعکس بی جے پی کشمیر سے لیکر آسام تک اقتدار میں ہے اور مرکز میں حکمرانی کے ساتھ ہی ملک کی کئی اہم ریاستوں میں وہ اقتدار میں ہے۔سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ جہاں کانگریس کا دائرہ اتنی تیزی سے سکڑ رہا ہے وہیں بی جے پی کا دائرہ تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے اور وہ قومی پارٹی بن گئی ہے۔ریاست آسام میں اسمبلی انتخابات کے نتائج آتے ہی بی جے پی کے صدر امت شاہ نے بھی کہا کہ ’کانگریس سے آزاد بھارت‘ کی مہم میں ملک دو قدم آگے بڑھ گیا ہے۔لیکن ملک کے سینیئر صحافی اروند موہن اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ یہ انتخابی نتائج ’کانگریس سے آزاد بھارت‘ کی جانب بڑھنے کا عندیہ دیتے ہیں۔ان کا کہنا کہ ’کانگریس کو کافی نقصان ہوا ہے، آسام میں بی جے پی اور بنگال میں ترنمول کی جیت اہم ہیں لیکن کانگریس نے جو ووٹ حاصل کیے ہیں اور جو نشستیں حاصل کی ہیں، ان سے کانگریس سے آزاد بھارت کی جانب بڑھنے کی بات ثابت نہیں ہوتی ہے۔‘بی بی سی سے ایک خاص بات چیت کے دوران اروند موہن نے کہا: ’کانگریس پارٹی 125 سے زیادہ اسمبلی سیٹوں پر جیتی ہے اور اس کو ووٹ بھی زیادہ ملے ہیں۔ بی جے پی کو جتنی سیٹیں ملیں ہیں، اور کانگریس کو مجموعی طور پر جتنی سیٹیں ملی ہیں انہیں دیکھتے ہوئے یہ کہنا کہ ملک کانگریس سے آزاد بھارت کی طرف بڑھ گیا ہے، کتنا واجب ہے۔۔۔۔‘ان کا کہنا ہے تھا کہ ممتا، جے للتا کی جیت اور کیرالا میں بائیں جماعتوں کی جیت بھی اہم ہے۔ بی جے پی کسی شمال مشرقی ریاست میں پہلی بار حکومت بنانے جا رہی ہے۔آسام میں بی جے پی کی جیت کے کیا معنی ہوں گے؟ اس پر اروند موہن کا کہنا ہے کہ جس طرح سے بی جے پی نے آسام کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے اور آسامیوں کی شناخت کا مسئلہ اٹھایا ہے، اس سے خود اس کے لیے مسائل پیدا ہوں گے۔وہ کہتے ہیں:’اس طرح انتخابات جیتے تو جا سکتے ہیں لیکن 50 برس پرانے مسئلے کو حل کرنا اتنا آسان نہیں ہے، آگے کا راستہ آسان نہیں ہے۔ آسام میں کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں جانے والے رہنما ہیمنت بسوا شرما کو کو بھی سنبھالنا بی جے پی کے لیے مشکل ہو جائے گا۔‘اروند موہن کے مطابق بی جے پی نے بہار اور دہلی میں شکست کے بعد اپنی حکمت عملی میں کافی تبدیلیاں کی ہے اور بی جے پی اور سنگھ پریوار نے آسام میں اپنی پوری طاقت جھونک دی تھی۔بعض دیگر سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جس تیزی سے بی جے پی کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے اور کانگریس کا سمٹتا جا رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ بی جے پی جلد ہی کانگریس کی جگہ لے سکتی ہے۔
Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 101969 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.