امن و آشتی کی آواز !

دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن ضرب عضب کو دوسال مکمل ہوچکے ہیں۔اس حوالے سے اپنے تحریر کو حتمی شکل دے رہا تھا کہ کراچی میں دہشت گردی کی ایک واردات میں امن و آشتی کے ایک اور چراغ کے بجھنے کی افسوسناک خبر آگئی ۔ معروف صوفی قوال امجد صابری کودن دیہاڑے قتل کردیا گیا ۔ اس خبر نے پوری قوم کو غم میں ڈبو دیا ہے۔ اس واقعہ کے بعد لوگوں کے ذہنوں میں کراچی کے امن کے حوالے سے خدشات اٹھنا ایک فطری عمل ہے۔ وہ سوچنے لگے ہیں کہ کہیں دہشت گرد دوبارہ تومنظم نہیں ہورہے کیونکہ امجد صابری کے قتل سے ایک روز قبل چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے کو بھی دیدہ دلیری سے اغوا کرلیا گیا تھا۔جس کے بارے میں ابھی تک کوئی سراغ نہیں لگایا جاسکا۔ یقینا یکے بعد دیگرے ان واقعات سے دہشت گردی کے خلاف کوششوں کو دھچکا پہنچا ہے۔ تاہم ان سے یہ تاثر نہیں لیا جاسکتا کہ دہشت گرد پھر سے منظم ہورہے ہیں البتہ ان واقعات کو دہشت گردی کی جانب سے ’’مایوسانہ ردعمل‘‘قرار دیا جاسکتا ہے۔ جو ہمارے سیکورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک چیلنج ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے عوام انتہائی بہادر اور مصیبت و مشکل کی بھنور میں پھر سے ابھرنے والی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ حالیہ واقعات ان میں بددلی پیدا کرنے کی ایک کوشش ہے جس میں دہشت گرد کبھی کامیاب ہوں گے نہ وہ ایسے ہتھکنڈوں سے آپریشن ضرب عضب کی مجموعی کامیابیوں اورنتائج پراثرانداز ہوسکتے ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف افواج پاکستان کا ہر بڑھتا قدم پاکستان کے استحکام کا باعث ہے۔دہشت گردی کے ان اکا دکا واقعات کے باوجود ضرب عضب آپریشن کے موثر ہونے کا اعتراف نہ صرف مختلف طبقوں کی طرف سے کیا جارہا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی افواج پاکستان کی کامیابیوں کو سراہا گیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف افواج پاکستان اور قوم کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو اپنی سرزمین سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ خاص طور پر آرمی پبلک سکول پشاور کے معصوم بچوں پر حملے کا زخم بہت گہرا ہے۔ تاہم دہشت گردوں کو عبرت کا نشان بنا دیا گیا ہے۔ حملے میں ملوث بہت سے دہشت گرد مارے گئے جبکہ متعدد کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا ہے۔ اس آپریشن کا پس منظر کوئی ڈھکا چھپا نہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ 9/11کے بعد جب اتحادی افواج نے افغانستان پر چڑھائی کی تو بہت سے عسکریت پسند وں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ لے لی اور بتدریج ایسی سرگرمیاں شروع کردیں جن سے پاکستان میں آگ اور خون کا کھیل شروع ہوگیا۔ تحریک طالبان کے علاوہ ازبک، چیچن، ترکمانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے یہاں مکمل کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم قائم کرلیا جہاں سے وہ ملک بھر میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتے تھے۔شمالی وزیرستان سے اٹھنے والی دہشت گردی کی ان سرکش موجوں نے ملک کے کونے کونے میں تباہی و بربادی کی انتہاء کردی۔ پاک افواج پر حملے کئے گئے۔ بھرے بازاروں میں عام شہریوں جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں، کو نشانہ بنایا گیا۔سرکاری و نجی املاک تباہ و برباد ہوگئیں۔ترقی کا پہیہ رک گیا۔ معیشت نیم دیوالیہ ہوگئی اورعالمی سطح پر پاکستان کے تشخص کو شدید نقصان پہنچا۔ خیبرپختونخوا اور فاٹا کے بہت سے علاقوں میں سول انتظامیہ دہشت گردوں کے سامنے بے بس نظر آنے لگی۔ دہشت گردی کا سلسلہ ملک بھر میں پھیل گیا۔ اسلام آباد کچہری، راولپنڈی ، پشاور، لاہور، کراچی، اٹک، کوئٹہ سمیت ملک کا کوئی کونہ محفوظ نہ تھا۔ ہزاروں شہری بم دھماکوں اور خود کش حملوں میں شہید ہوگئے۔ 16دسمبر2014ء کو دہشت گردوں نے آرمی پبلک سکول پشاور کے معصوم بچوں اور اساتذہ پر ایسا ہولناک حملہ کیا کہ پوری دنیا تڑپ کر رہ گئی۔اس کے بعد پاکستانی قوم ایک مرتبہ پھر ملی جذبے سے اٹھی۔ اس واقعہ کے بعد آل پارٹیز کانفرنس میں انتہائی اہم فیصلے کئے گئے۔ ملک کی پوری سیاسی و عسکری قیادت نے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم کیا اور یوں 15 جون 2014ء کو اس آپریشن کا آغاز کیا گیا۔ دہشت گردوں کا کلی خاتمہ کرکے پاکستان کے مستقبل کو محفوظ بنانا اس کی حتمی منزل قراردی گئی۔آپریشن میں پاک فوج کے علاوہ پاک فضائیہ کے لڑاکا طیاروں نے بھی دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر بمباری کرکے انہیں تباہ و برباد کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ آپریشن کے آغاز سے اب تک سارھے تین ہزار کے قریب دہشت گرد مارے جا چکے ہیں جبکہ ایک ہزارسے زائد ٹھکانے اورکمین گاہیں تباہ کی جاچکی ہیں۔ علاوہ ازیں بھاری تعداد میں اسلحہ، ہتھیار اور سیکڑوں ٹن باروی مواد برآمد بھی برآمد کیا گیا ہے۔4302کلومیٹر کے علاقے کو کلیئر کیا جاچکا ہے جبکہ آپریشن کے دوران بہت سی نجی جیلیں، زیرزمین راستے اور پناہ گاہیں ملیں اور دہشت گردوں سے بھارتی تعداد میں اسلحہ اور بارود برآمد ہوا۔ ضرب عضب کے دوران پاک فوج کے490 بہادر افسروں اور جوانوں نے جرات و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔ قوم کو یقیناًاپنے ان شہداء اور غازیوں کی قربانیوں پر فخر ہے۔آپریشن ضرب عضب کا دائرہ دوسرے علاقوں تک اس لیے بڑھایا گیا تاکہ وہاں موجود ان کے سہولت کاروں کو مالی مددگاروں کے گرد بھی گھیرا ڈالا جائے۔

کراچی میں بدامنی اور وہاں کی سیاسی پیچیدہ صورتحال کے باوجود رینجرز نے موثر طور پر جرائم پر قابوپایا اور کئی ٹارگٹ کلرز کو قابو کیا۔ پہلی دفعہ کراچی کے لوگوں کو تحفظ کا احساس ہوا تھا۔ دہشت گردوں کے خلاف ان کامیاب کارروائیوں پر یقیناًہمارے دشمن انتہائی مایوسی کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف ہتھکنڈوں سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ بہت سے جاسوس اور نیٹ ورک غیرملکی عناصر کے ملوث ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں افغانستان کی جانب سے طورخم بارڈر پربلااشتعال فائرنگ کا سلسلہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس سجادعلی شاہ کے بیٹے کا اغواء اور قوال امجدصابری کی ٹارگٹ کلنگ بھی ضرب عضب کی کامیابیوں کا ردعمل ہیں۔یہ صورتحال ہم سے تقاضا کررہی ہے کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھیں اور انجام کو پہنچتے دہشت گردوں کے حالیہ ہتھکنڈوں سے ہرگز نہ گھبرائیں۔ بحیثیت قوم ہمیں اپنے دشمنوں کو پیغام دینا ہے کہ وہ اپنے مذموم ہتھکنڈوں کے ذریعے امن و آشتی کی آوازوں کو دباسکتے ہیں نہ دہشت گردی کی بیخ کنی کیخلاف قومی عزم کو کمزور کرسکتے ہیں ۔
 
Ibn-e-Shamsi
About the Author: Ibn-e-Shamsi Read More Articles by Ibn-e-Shamsi: 2 Articles with 706 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.