انصاف کو ترسے یوپی کے مسلمان، بدلا ملائم مزاج

اتر پردیش ہندوستان کی وسیع و عریض ریاستوں میں سے ایک ہے اگر اسے سیاسی اعتبار سے ہندوستان کادل کہا جائے توبیجاناہوگا اس ریاست نے بہت سے سیاسی رہنماؤں کے قد بلند کئےاور ناجانے کتنے لیڈروں کا سیاسی قلع مسمار کر دیا تہس نہس کردیا جس کےسر پر یو پی کا تاج سجتا ہے اسکی سیاسی دنیا میں بڑی قدر و منزلت ہوتی ہے اور کیوں نا ہو یہ صوبہ کسی ملک سے کم نہیں ہے جہاں افراد کی تعداد)199,581,477( اتنی کثیر ہے کہ دنیا کے کئی ممالک اس سے کم تعداد اور کم رقبہ رکھتے ہیں اس لئے ہمیشہ سے اترپردیش کو فتح کرنا بڑا اہم سمجھا گیا اور سیاسی جماعتیں ایسی تدابیرمیں مشغول و مصروف رہیں جوانہیںاس صوبہ کی گدی پر براجمان کرسکیںاور وہ ہندوستان کے وزیر اعظم بننے کےخواب کو دیکھنے کے اہل ہوجائیں اپنی سیاسی حیثیت ثابت کرنے میں کامیاب ہوں اسی طرح ہمیشہ یہ بھی کہا جاتا رہا کہ اس صوبہ کو مسلمانوں کے بغیر فتح نہیں کیاجاسکتا یہاں اگرجیت کا پرچم لہرانہ ہے تو مسلمانوں کا ساتھ ضروری ہے۔اس فلسفہ کے بغیر یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا یہ تصوربھی نادانی اور بیوقوفی ہے کہ مسلمانوں کو چھوڑ کر یہاں حکومت قائم کرلی جائے گی جو پارٹیاں مسلمانوں کا استحصال کرتی رہیں انہیں یہاں اس کا خمیازہ ہمیشہ بھگتنا پڑا اور منصب عظمی پر فائز ناہو سکیں ان تمام احوال کو پرکھتے ہوئے ایک جماعت نے اپنا سفر شروع کیا اور مسلمانوں کیحمایت میں ایسے فیصلے کئے جو اپنے پرائے سب کو حیران کرنے والے تھے عقل حیران و ششدر اور آنکھیں خیرہ کرنے والے مناظر سامنے آئے کار سیوکوں پر گولی چلوانا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں تھا مگر سماجوادی پارٹی نے اپنی حکمت عملی کو پوری طرح انجام دیا اور اسی طریقۂ کار نے ایک نو آموز پارٹی کو وقار و عظمت کے اس مقام پر پہونچایا جو متصور نہیں ہے 1992 میں پیدا ہوئی یہ جماعت آج کئی تاریخیں رقم کرچکی ہے صوبہ کیگدی پر اس کے رہنما بیٹھ چکے ہیں یہی حکمت عملی سماجوادی پارٹی نے2012 کے انتخاب میں اختیار کی اگر اسکا انتخابی منشور دیکھا جائے تو اس کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے یا صرف اتنا کہدینا اس کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے وعدے یہاں تک تھے کہ مسلمانوں کو 17 فیصد ریز رویشن دیا جائےگا اور یہ حکمت عملی کامیاب ثابت ہوئی مسلمانوں نے اپنے چہیتے رہبر ملائم سنگھ یادو کا پوری طرح ساتھ دیا اور اس انتخاب نے ایک نوجوان کو ریاست کا وزیر اعلیٰ منتخب کردیا اب ان وعدوں کی تکمیل کا مرحلہ آن پہونچا جو کئے گئے تھے تو تیور بدلے، طریقہ بدلا، طرز عمل تبدیل ہوا، یقیناً سماجوادی پارٹی نے کچھ وعدوں کو پایۂ تکمیل تک پہونچایا مگر ریزرویشنکے نام پر مسلمانوں نے خود کو ٹھگا ہوا ہی محسوس کیا سلسلہ آگے بڑھتا رہا ایک عجیب و غریب طریقۂ کار اس دوران سماجوادی نے اختیار کیا جس کے پس منظر میں دیکھا جائے تومسلمان انصاف سے پوری طرح محرومہوئے خاص و عام سب کے ساتھ یہی برتاؤ ان کے درد کا مداوا نہیں ہوا انکےآنسوں کی قیمت لگائے گی، ان کی ہمدردی کو سکوں کی کھنک کا غلام سمجھا گیا، کون بھول سکتا ہے 2013 کی وہ بھیانک راتیں وہ قلب و جگر کو چیرنے والی چیخ و پکار، ذہن و دماغ کو ہراساں کرنے والا ماحول جوان دوشیزاوں کا خوف کے عالم میں راتوں کوجاگنا، گھروں سے اٹھتا ہوا دھواں، ہر طرف بلند ہوتی آہ و بکا کی آوازیں، جن لوگوں نے دیکھا وہی اس کربناک درد انگیز منظر کی حقیقت سے واقف ہیں 70 لوگوں کی جانیں گئیں 100 زیادہ زخمی ہوئے ہزاروں افراد کا مسکن اور ٹھکانہ ختم انصاف کے نام پر آج تک کیا ملا؟ لاشیں خریدی گئیں، معاوضہ کیبھیک دیدی گئی، انصاف کے نام پر کچھ بھی تو نہیں ایک رپورٹ آئی اسکو بھی ردّی کے ٹوکرے میں پھیکنے پر مجبور ہوئے اسی پر بس نہیں اگر ایک مسلمان افسر نے حق و انصاف کی آواز بلند کی ظلم جبروتشدد کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے تو اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، اس کی معصوم بیوہ چلاتی رہی انصاف کی دہائی دیتی رہی لیکن جس شخص پر قتل کا الزام تھا، اسے عہدہ سپرد کیا گیا، اسکی عزت افزائی ہوئی، اسکے حوصلوں کو بلند کیا گیا اور آج تک اس جانباز شہید مسلمان کو انصاف کے نام پر کچھ نا مل سکا تڑپ کر رہ گئی ایک محب وطن کی بیوہ، مگر ظالموں کےدل نرم نہیں ہوئے اور انصاف اسکی طرف متوجہ نہیں ہوا، پھر یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ غم اور بھی ہیں تلخ تجربات کا طویل ترین سلسلہ ہے جس کی دو چار کڑیاں پیش کی جارہی ہیں تاکہ حق اور حقائق سے کوئی آنکھیں چرانے کی جرأت نا کرسکے کون بھلا ہے دادری کا وہ دلدوز حادثہ؛ ایک مسلمان کو چند اوباشوں نے بڑی بے رحمی سے پیٹ کر مار ڈالا انتظامیہ سوئی رہی، پولیس کے کان پر جوں نہیں رینگی اور مسلمانوں کے مسیحا و ہمدرد کہے جانے والے افرادنے لاش کی قیمت لگانے کے سوا کوئی قابل ستائش کام انجام نہیں دیا، اخلاق کی موت کو کئی ماہ گذر گئے مگر انصاف کے نام پر کچھ نہیں بلکہیہ ثابت کرنے کی کوشش کے وہ مجرمتھا اگر وہ بالفرض سزا کا مستحق تھا تو کیا انصاف اوباوشوں کے سپرد کیا جاچکا عدلیہ اور انتظامیہ کی اس ملک میں کوئی ضرورت نہیں اگر ایسا نہیں تو کیوں شکنجہ نہیں کسا گیا اخلاق کے قاتلوں پر، آئینہ کی طرح صاف کیس میں اتنی تاخیر چہ معنی دارد ؛؟ اور بہادر افسر تنزیل احمد کا قتل اتنے بھیانک طریقے سے کہ دیکھنے والے کی روح کانپ اٹھیں اس محب وطن کے ساتھ کیا ہوا، سب جانتے ہیں ان تمام مواقع پر مسلمان انصاف سے محروم رہے ہیں۔ آخر کیوں؟ کیا سماجوادی نے اپنا طرز عمل بدل لیا ؟ کیا بی جے پی کی جیت نے اسے اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے پر آمادہ کیا ؟ مُلّا کہے جانے والے ملائم آخر اپنے اس عمل پر کیوں شرمندہ ہوئے جس پر ان کی سیاسی بساط قائم ہے۔ کارسیوکوں کی حفاظت کا جذبہ کیوں ان کے دل میں پیدا ہوا؟ راجیہ سبھا میں کیوں کسی مسلمان کا داخلہ نہیں ہوا؟، عظیم رہنما سماجوادی میں بڑی اہمیت کے حامل ملائم سنگھ کے بہت قریبی سمجھےجانے والے اعظم خان کو بے حیثیت کرتےہوئے اس شخص کو پارٹی میں کیوں شامل کرلیا گیا جو زہر کھانے کے لئے تیار تھا؟ مگر ملائم کے ساتھ بیٹھنے لے لئے تیار نہیں تھا، عظیم اتحاد سے ملائم نے وقت پر کیوں ہاتھ کھینچا ؟ یہ سب وہ سوالات ہیں جو اس بات کو عیاں و بیاں کرنے کے لئے کافی ہیں کہ سماجوادی نے بی جے پی کی شاندار فتح کو دیکھتے ہوئے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے اب مسلمانون کا اس کی نظر میں وہ مقام نہیں جو کبھی ہوا کرتا تھا اب تو ایک مخصوص طرز پر انہیں استعمال کرنا ہے اور وقت آنے پر ان کا استحصال کرنےسے بھی نہیں چوکنا ہے، غیر مسلموں کو پارٹی سے قریب کرنے کیکوشش کرنی ہے۔ متھرا کا سانحہ اس کی منھ بولتی تصویر ایک عرصۂ دراز تکاس جانب توجہ نہیں دی گئی، اسلحہ کا وہان ڈھیر لگ چکا مگر حکومت بے خبر ہے، پولیس اہلکاروں کی لاشیں اٹھیں انکے بیوی بچے آنسو بہانے پرمجبور ہوئے آخر اتنا وقت اور اتنا موقع کیوں فراہم ہوا کہ یہ عظیم حادثہ رونما ہو سکے ان تمام چیزوں کو دیکھتے ہوئے ہر ذی شعور ادراک کرلےگا کہ سماجوادی پارٹی کس سمت جارہی ہے۔اب عام مسلمانوں کو اس سے وہ امیدیں وابستہ نہیں رکھنی چاہئیں جو کبھی ہوا کرتی تھیں جو کارنامے اس جماعت نے مسلمانوں کے لئے انجام دئے وہ اب متصور نہیں، لیکن ملائم سنگھ یادوکو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ حکمت عملی انہیں تباہی کے دہانے پرلاکھڑا کرے گی ان کے سیاسی محل کو بے نور کردے گی وہ اپنی جماعت کو بی جے پی سمجھنے کی بھول قطعی نا کریں بی جے پی ابتدا سے اپنی مخصوص حکمت عملی پر عمل کرتیرہی، تنزلی ترقی ہار جیت کبھی بھی انہوں نے اپنے مخصوص انداز کو ترک نہیں کیا، اگر اج ملائم سنگھ یادواپنے طریقۂ کار پر توجہ نہیں دیتے، تو ان کا حال اس مثل کی مانند ہوجائے گا ”گھر کے رہے نا گھاٹ کے“ مسلمانوں کے اعتمادکو تو ٹھیس لگیہے غیر مسلموں کا اعتماد بھی بحال ناکرسکے، یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ ان کی آنکھیں کب کھلتی ہیں؛ انتخاب سے پہلے یا بعد !!!
rahat ali siddiqui
About the Author: rahat ali siddiqui Read More Articles by rahat ali siddiqui: 82 Articles with 75994 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.