سقوطِ ڈھاکہ ۔کل اور آج

۱۶ دسمبر۱۹۷۱؁ء کا دن ہماری تاریخ کا ایک المناک دن ہے کیونکہ اس دن پاکستان دو لخت ہوا ۔قیام پاکستان کے وقت ایک دوسرے پر جان چھڑکنے والے آج بندوقیں تانے ایک دوسرے کے مقابل کھڑے تھے۔اخوت اور بھائی چارے کا یہ ماحول نفرت میں کیسے بدل گیا؟رشتوں میں کیسے دراڑیں آنا شروع ہوئیں؟دل کے شیشے میں کیسے بال آیا؟یہ ایک طویل داستان ہے۔مگر یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا،اس آگ کو سلگنے میں کافی وقت لگا ۔بقول قابل اجمیری
وقت کرتا ہے پرورش برسوں۔حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

اس واقعے کو حادثہ بننے میں بھی کئی برس لگے۔کچھ اپنوں کی مہربانیاں تھیں اور کچھ دشمن کی چاپلوسی۔ایک وقت تھا جب ۱۹۰۶؁ء میں مسلم لیگ کاقیام بنگال میں عمل میں لایا گیا۔اس کے بانیان میں کثیر تعداد بنگالیوں کی تھی۔۱۹۴۰؁ء کو قائد اعظم کی قیادت میں شیربنگال مولوی فضل حق نے قراردادپاکستان پیش کی اور بنگالیوں نے سب کے ساتھ مل کر پاکستان بنایا مگرقیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد ان کے تیور مختلف تھے۔اب انہیں ایک لیڈر مل گیا تھا جو یہ کہ رہا تھاکہ’’مجھے ایوب خان نے مقبولیت کی ایسی معراج پر پہنچا دیا ہے کہ اب کوئی شخص میری مرضی کے خلاف نہیں جا سکتا۔‘‘ اب اس نے یہاں تک کہنا شروع کردیا تھا کہ’’میرا مقصد بنگلہ دیش کا قیام ہے،انتخابات ختم ہوتے ہی میں ایل ایف او کو پُرزے پُرزے کردوں گا،کون ہے جو انتخابات کے بعد میرے سامنے ٹک سکے‘‘ یہ لیڈر کون تھا؟ یہ شیخ مجیب الرحمن تھا جسے ہندوستان کی اشیر باد حاصل تھی۔ہم نے بھی اس کی باتوں کا ٹھٹہ اُڑایا اور اس کی جائز باتوں پر بھی کان نہ دھرے۔نتیجہ کیا ہوا کہ بنگالیوں کا احساس محرومی بڑھنے لگا۔یہی احساس محرومی سقوط ڈھاکہ کا سب سے بڑا سبب بنا۔اگرچہ دیگر عوامل بھی اس آگ کو بھڑکانے میں ممد ومعاون ثابت ہوئے مگر سب سے بڑا محرک یہی تھا۔۱۴،اگست ۱۹۴۷؁ء کو پاکستان وجود میں آیا تو قائداعظم محمد علی جناح نے اردو کو قومی زبان قرار دے دیا۔قائد اعظم کی جادوئی شخصیت کا اثر تھا کہ بنگالیوں نے اسے بغیر کسی چوں چرا کے قبول کر لیا مگر قائد اعظم کی وفات کے بعد بنگالیوں نے اس پر احتجاج کرنا شروع کردیا۔ان کا مؤقف تھا کہ پاکستان کی ۵۴فیصد آبادی بنگالیوں پر مشتمل ہے تو ملک کی زبان اردو کیوں؟ بنگالی رابندر ناتھ ٹیگور کو اپنا قومی شاعر سمجھتے تھے مگر ہماری نوکر شاہی نے رابندر ناتھ ٹیگور کی بنگالی قومیت کو فروغ دینے والی شاعری کو سیکولر قرار دے کرریڈیو اور ٹیلی ویژن پر اس کی نشر واشاعت کو روک دیا۔خواجہ ناظم الدین،حسین شہید سہروردی اور نورالامین جیسے بنگالی رہنماؤں کی خدمات کا ہم نے کبھی اعتراف نہ کیا۔شائستہ اکرام اﷲ نے اپنی کتاب’’پردے سے پارلیمینٹ تک‘‘ میں بھی اس بات کا گلہ کیا ہے کہ حسین شہید سہروردی نے بنگالیوں کی ۵۴ فیصد آبادی کے باوجود ۵۰ فیصد مساوات کے اصول کے حق میں مہم چلا کر اپنی سیاسی ساکھ کو داؤ پر لگایا مگر پاکستان کے حکمرانوں نے کبھی ان کی اس خدمت کا اعتراف نہیں کیا۔بنگالیوں کو یہ گلہ بھی تھا کہ پاکستان کی مجموعی آمدنی کا ساٹھ فیصد حصہ مشرقی پاکستان سے حاصل ہوتا ہے مگر اس پر قومی آمدنی کا صرف ۲۰ فیصد خرچ ہوتا ہے۔اس کے برعکس مغربی پاکستان قومی آمدنی کا صرف چالیس فیصد کماتا ہے مگر کُل آمدنی کا پچھتر فیصد کھا جاتا ہے۔بنگالیوں کو یہ گلہ بھی تھا کہ فوج میں ان کی تعداد آبادی کے تناسب سے بہت کم ہے مگر ۲۸ جولائی ۱۹۶۹؁ء کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے صدر پاکستان جنرل یحیی خان نے ان کی اس شکایت کو رفع کرنے کے لئے افواج پاکستان میں بنگالیوں کی تعداد دو گنا کرنے کا اعلان کردیا۔سقوطِ ڈھاکہ کا دوسرا سبب ہندوستان کی مشرقی پاکستان میں مداخلت تھی۔قیام پاکستان کے وقت مشرقی پاکستان میں تقریبا ڈیڑھ کروڑ ہندو آباد تھے اور ان میں سے زیادہ تر تعلیم کے شعبے سے وابستہ تھے۔ان ہندو اساتذہ نے مشرقی پاکستان میں نفرت کے بیج بونے میں اہم کردار ادا کیا۔دو قومی نظریے کی مخالفت میں یہ ہندو پیش پیش تھے۔سکولوں میں انہوں نے قائد اعظم کی شخصیت کو نمایاں کرنے کی بجائے گاندھی کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو نمایاں کیا اور ہم اس پر آنکھیں بند کئے بیٹھے رہے۔سقوط ڈھاکہ کا تیسرا سبب اقتدارِ اعلی سے بنگال کی نمائندگی کا خاتمہ تھا۔قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد خواجہ ناظم الدین کو گورنر جنرل بنایا گیا مگر بعد ازاں انہیں وزیر اعظم کا قلمدان سونپ دیا گیا اور بالآخر محمد علی کو وزیر اعظم بناکر اقتدار اعلی سے بنگال کی نمائندگی ختم کر دی گئی۔سیاسی محاذ پر ایک اور خرابی اس وقت پیدا ہوئی جب مجیب الرحمن کو اگر تلہ سازش کیس کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔بعد ازاں شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات سامنے آ گئے اور اس نے یہاں تک کہ دیا کہ ’’میری پارٹی آئندہ انتخابات کو چھ نکات پر ریفرنڈم سمجھتی ہے۔‘‘وہ چھ نکات کیا تھے؟پہلا نکتہ یہ تھا کہ دستور میں قرار داد لاہور کی بنیاد پر پارلیمانی طرز حکومت کے مطابق پاکستان کا ایک ایسا وفاق قائم کیا جائے جس میں بالغ رائے دہی کے اصول پر براہ راست منتخب شدہ مجلس قانون ساز کو بالادستی حاصل ہو۔دوسرا نکتہ یہ تھا کی وفاقی حکومت صرف دفاع اور امور خارجہ کے شعبوں کا انتظام کرے گی۔باقی تمام شعبے وفاق میں شامل ریاستوں کے تحت ہونگے ۔تیسرا نکتہ دونوں بازوؤں میں کرنسی کے الگ الگ نظام کے متعلق تھا۔چوتھا نکتہ یہ تھا کہ محصولات کے نفاذ اور وصولی کا اختیار وفاقی یونٹوں کے پاس ہو گا۔پانچواں نکتہ دونوں بازوؤں کے لئے زر مبادلہ کا حساب علیحدہ کھاتوں میں رکھنے کے متعلق تھا اور چھٹا نکتہ مشرقی پاکستان کے لئے ایک نیم عسکری تنظیم کاقیام تھا۔ دسمبر ۱۹۷۰؁ء کے انتخابات میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں ۱۶۲ میں سے ۱۶۰ نشستیں جیت لیں۔دوسری طرف ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان میں ۱۳۸ میں سے ۸۱ نشستیں حاصل کیں۔اس طرح ملک نظریاتی طور پر دو حصوں میں بٹ گیا۔ذوالفقار علی بھٹو نے مرکز میں اقتدار کے حصول کی جنگ شروع کردی اور ناکامی کی صورت میں ’’ادھر ہم اُدھر تم ‘‘ کا نعرہ بلند کر دیا۔جنوری ۱۹۷۱؁ء کو صدر پاکستان جنرل یحیی بگڑتے حالات کو سہارا دینے ڈھاکہ پہنچے ۔مجیب الرحمن کے چھ نکات پر اتفاق بھی ہو گیامگر حالات کا رُخ کسی اور جانب تھا۔سقوط ڈھاکہ کا تیسرا سبب جنرل یحیی کی کمزور حکمت عملی اور فیصلہ سازی تھی۔جنرل یحیی اپنی خوش تدبیری سے صورت حال پر قابو پا سکتے تھے مگروہ اس تنازعے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے سے گریزاں رہے ۔۲۸ فروری ۱۹۷۱؁ء کو جنرل یحیی کی طرف سے حکم ملا کہ ۳ مارچ کو ہونے والا اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔اس حکم کے خلاف ڈھاکہ میں شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ساتھ ہی یکم مارچ کو مشرقی پاکستان میں فوج اتارنے کا عمل شروع ہو گیا اور وائس ایڈمرل ایس ایم احسن کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب خان نے مشرقی پاکستان کا چارج سنبھال لیا۔۲۶ مارچ کو آپریشن ’’سرچ لائٹ‘‘ شروع ہواجو ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱؁ء کو پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالنے پر ختم ہوا۔بریگیڈیئرصدیق سالک نے اپنی کتاب ’’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ میں اس دلخراش واقعے کا نقشہ کچھ یوں کھینچا’’مجمع کو بھارتی سپاہیوں نے روک رکھا تھا۔تقریب کے لئے تھوڑی سی جگہ خالی تھی جہاں ایک چھوٹی سی میزپربیٹھ کر لاکھوں بنگالیوں کے سامنے جنرل نیازی نے سقوطِ ڈھاکہ کی دستاویز پر دستخط کئے۔اس کے بعد انہوں نے اپنا ریوالور نکال کر جنرل اروڑہ کو پیش کیااور یوں سقوط ڈھاکہ پر آخری مہر ثبت کردی‘‘ ہماری سیاسی اور فوجی قیادت کے غیر جمہوری رویے نے ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔۹۰ہزار فوجی بھارت کی قید میں چلے گئے اور ہمارا ایک بازو کٹ گیا۔جغرافیائی طور پر دونوں بازو اک دوسرے سے سینکڑوں کلومیٹر دور تھے اور اب دونوں کے درمیان ایک نظریاتی خلیج حائل ہو چکی تھی۔یہاں میں خرم مراد کی خود نوشت ’’لمحات‘‘ سے ایک اقتباس شامل کررہا ہوں جو قارئین کے لئے دلچسبی کا باعث ہو گا ۔خرم مرادڈھاکہ میں جماعت اسلامی کے نائب امیر رہ چکے ہیں۔وہ لکھتے ہیں’’میں بھٹو کی اس بات کو بے وزن نہیں سجھتا کہ اکثریتی پارٹی عوامی لیگ اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان توڑنے کی قرارداد اسمبلی میں پیش کردیتی اور پھر کسی کے بس میں نہ ہوتا کہ وہ عوامی نمائندوں کے فیصلے کو قانونی طور پر روک سکے۔۲۵ مارچ کے آرمی ایکشن کے بعدکراچی آکربھٹو کا یہ بیان کہ پاکستان بچا لیا گیاکچھ غلط نہ تھا‘‘سابق امیر جماعت اسلامی کے اس سچ کا خمیازہ آج بھی جماعت اسلامی مشرقی پاکستان بھگت رہی ہے۔آئے دن جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کے رہنماؤں کو پھانسیاں دی جارہی ہیں۔ان کا قصور یہی تھا کہ ان کی سوچ دیگر بنگالیوں سے مختلف تھی۔آج بھی پاکستان تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے۔آج بھی ہمیں اسی دشمن کا سامنا ہے جوکبھی بلوچستان میں ہمارے سادہ لوح عوام کو ورغلانے میں مصروف ہے اور کبھی کراچی کی گلیوں اور سڑکوں کوخون آلود کر کے اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔لیکن خدا کا شکر ہے کہ اب کی بار ہم اس کی اس سازش کو پہلے سے جان چکے ہیں۔آج ہماری مسلح افواج اور عوام اس سازش کو ناکام بنانے کے لئے اکھٹے ہو چکے ہیں۔ہماری سیاسی قیادت بھی اپنی پوری توانائی سے اس کے خلاف سر گرمِ عمل ہے۔اﷲ ہمیں مزیدہمت عطا فرمائے تاکہ ہم دشمن کا اندرونی اور بیرونی محاذ پر ڈت کر مقابلہ کر سکیں۔ (آمین)
Khalid Mustafa
About the Author: Khalid Mustafa Read More Articles by Khalid Mustafa: 22 Articles with 51211 views Actual Name. Khalid Mehmood
Literary Name. Khalid Mustafa
Qualification. MA Urdu , MSc Mass Comm
Publications. شعری مجموعہ : خواب لہلہانے لگے
تحق
.. View More