حکومتی جمہوریت

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں بہتر ین نظام، جمہوریت طرز حکمرانی کاہے،پھر ہر ملک نے معاشرتی ،ثقافتی،مذہبی یاتاریخی اعتبار سے اپنی نظام جمہوریت لاگو کیاہوا ہے، دنیا کے دو بڑے اور ترقی یافتہ ممالک برطانیہ پارلیمانی جمہوریت اور امریکا میں صدارتی جمہوریت نافذ ہے۔پاکستان میں بھی پارلیمانی جمہوری نظام ہے لیکن یہ پارلیمانی جمہوری نظام برائے نام ہے ۔ زیادہ تر اس میں صدارتی اورآمریاتی کی جھلک نظر آتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک میں اب تک حقیقی جمہوری نظام کا نفاذ ممکن نہیں ہوا جس کی کئی وجوہات ہیں لیکن دو بڑ ی وجوہات ہمارے سامنے یہ ہیں کہ ملک میں زیادہ تر آمریت یعنی فوجی حکمران رہے جنہوں نے سیاست دانوں کے ساتھ مل کر اپنی جمہوری نظام کو نافذ کیا اس طرح دو بڑی پارٹیوں یعنی نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی جب حکومت آتی گئی تو انہوں نے وہی آمریت والا جمہوری نظام فالو کیا اور زیادہ تر فیصلے فرد واحد یعنی پارٹی سربراہ وزیراعظم کرتا رہا۔ ان جمہوری دور میں بھی پارلیمنٹ یا منتخب نمائندوں کو وہی اہمیت دی جو فوجی جمہوری حکومتوں میں ہوتی رہی۔ان جمہوری ادوار میں بھی پارلیمان کوکوئی اہمیت نہیں دی گئی ۔ سچ تو یہ ہے کہ آج کی طرح وزیراعظم یا ان کی کابینہ اپنے آپ کوپارلیمنٹ سے مبراسمجھتے رہیں ۔وزیراعظم پارلیمنٹ میں آنا یا ارکان اسمبلی کے سوالوں کاجواب دیناخلاف جمہوریت اور اپنی توہین سمجھتے ہیں۔اسلئے ملک میں جمہوری نظام مضبوط نہیں ہوپارہاہے۔یہ الزام غلط ہے کہ ملک میں زیادہ تر آمریت رہی ہے اور ملک میں جمہوری نظام کو پروان چڑھنے نہیں دیا جاتا۔ فوجی جرنیلوں کے دور میں بھی سیاسی لوگ ہی ہوا کرتے ہیں ، اسمبلی بھی موجود ہوتی رہی ہے۔ پرویز مشرف کادور ہمارے سامنے ہیں۔ پھر بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ ملک میں جمہوریت نہیں تھی ملک میں جمہوریت موجود تھی لیکن اس میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے بجائے دوسرے سیاستدان حصہ دار ہوتے رہے ۔میرا خیال ہے کہ اگر خالص آمریت یعنی جنرل کی حکومت ہوتی تو حالات ملک کے بہتر ہوتے جس طرح پرویزمشرف کے ابتدائی تین سال تھے۔پرویز مشرف کے ابتدائی تین سال عام آدمی کیلئے بہت بہتر تھے۔انہوں نے اپنے کابینہ میں اچھے پڑھے لکھے لوگوں کو رکھا تھا۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے آمریت کے دور بھی خالص نہیں رہے ہیں ،جو ڈکٹیٹر ملے ان میں بھی جمہوری محبت شامل تھی۔ اس لئے ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

اب ملک میں نون لیگ کی تیسری بار حکومت ہے جس میں انہوں نے تین سال پور ے کردیے‘ اپنا چوتھا بجٹ بھی پیش کیا لیکن ان تین سالوں اور چوتھے بجٹ میں عام آدمی یا جمہوریت کو کتنا فائدہ ہوا ؟، وفاقی وزرا اور وزیراعظم میاں نواز شریف نے پارلیمنٹ کو کتنی اہمیت دی ؟یہ سب ہمارے سامنے ہیں اور زیادہ تر عوام کو معلوم ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں آٹھ دس دفعہ آئے ہیں لیکن برطانیہ 85دفعہ گئے ہیں۔ان آٹھ دس دفعہ کے آنے میں بھی انہوں نے ممبران یا اپوزیشن کے ایک سوال کا جواب نہیں دیا اور نہ ہی کسی بڑے فیصلے پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا ہے۔ سچ تویہ ہے کہ ان کی طرز حکمرانی نے جمہوریت کو بدنام کیا اور عام آدمی کاجمہوریت سے اعتبار ختم ہوتا جارہاہے جوہماری بدقسمتی ہے۔اب پانامالیکس میں وزیراعظم کے خاندان کے کمپنیوں کے نام آنے کے بعد خود قوم کو وزیراعظم نے اپنی تقریر اور قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ پانامالیکس پر تحقیقات کیلئے میں اور میرا خاندان حاضر ہے ۔ عمران خان نے جب کہا کہ تحقیقات کا آغاز مجھ سے کیا جائے کہ میں نے پیسہ کیسے کمایا ہے ، کتنا ٹیکس دیا ہے ، کتنا پیسہ میرا باہر ممالک میں ہے ان سب کے بارے میں حکومت مجھ سے تحقیقات کرے جس کے لیے میں تیار ہوں۔عمران خان کے بیانات اور عوامی سوچ دیکھ کر وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا کہ تحقیقات مجھ سے شروع کی جائے میں تمام سوالوں کا جواب دو ں گا۔ ویسے اپوزیشن اور عمران خان نے کہا تھا کہ ہمارے چار سوالوں کے جواب دو کہ آپ نے ملک سے باہر پیسہ کیسے منتقل کیا ، اس پر کتنا ٹیکس دیا ، یہ پیسہ کہاں سے آیا اس کاریکارڈ کیا ہے ،ان سوالوں کا جواب وزیراعظم نے کہا کہ میں پارلیمنٹ میں نہیں بلکہ کمیشن کودوں گا جس کیلئے وزیراعظم نے پہلے خود چیف جسٹس کوٹی اوآرز بناکر خط لکھا جس کو چیف جسٹس نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ حکومتی منشا کے مطابق کمیشن بے اختیار ہوگا اورجس میں تحقیقات ممکن نہیں ہوسکتی ۔اس کے بعد اپوزیشن کے اصرار پر پارلیمانی کمیٹی ٹی او آرز کیلئے بنائی گئی جس کے تین ہفتوں میں آٹھ اجلاس بغیر کسی نتیجے پر پہنچ کرختم ہوئے۔ نون لیگ کی قیادت ویسے تو ملک میں جمہوری پسند ہے ۔ اپنے آ پ کو سب سے زیادہ جمہوری پسند کہنا بھی پسند کرتے ہیں لیکن ان کی طرز حکمرانی نے ثابت کردیا کہ ان تین سالوں میں انہوں نے جمہوریت کو کمزور کیا ، پارلیمنٹ کو بے اختیار بنایا ، پیپلزپارٹی کے دور میں پارلیمنٹ کی جو اہمیت دی وہ نون لیگ کی حکومت نے ختم کردی ۔ نون لیگ حکومت چاہتی ہے کہ جمہوریت ہماری مرضی اورمنشاء کے مطابق چلے ، ایک طرف وزیراعظم اعلان کرتے ہیں کہ تفتیش اور تحقیقارت مجھے سے شروع کی جائے لیکن جب تحقیقات کی بات آتی ہے توان کے نمائندے وزیراعظم کو تحقیقات سے بچانے کیلئے ایڑی چھوٹی کا زور لگاتے ہیں کہ وزیراعظم سے تحقیقات نہ ہوں باقی پورے ملک سے ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وزیراعظم پانامالیکس میں ملوث ہے ان کا پیسہ چوری اور کرپشن کا ہے جس کو بچانے کیلئے حکومت اپوزیشن کے ساتھ ٹی او آرز پر متفق نہیں ہوپائی ۔ اب عمران خان نے تو اعلان کردیا کہ ہم رمضان کے بعد ان کے خلاف سڑ کوں پر بھر پور احتجاج کریں گے‘ ان کی کرپشن کوبے نقاب کریں گے جبکہ دوسری اپویشن پارٹیاں بھی اپنی حکمت عملی پر غور کررہی ہے لیکن میراخیال ہے کہ عمران خان کے علاوہ باقی سب خاموش ہوجائیں گے اور یہ معاملہ دب جائے گا لیکن یہ بھی قوی امکان ہے کہ حکومت اس دفعہ کرپشن اورلوٹ مار کو بچانے میں کامیاب نہیں ہوپائے گی اور دوہزار اٹھارہ سے پہلے یعنی اگلے سال الیکشن کردیے جائیں گے۔

بہرکیف حکومت کی اس دوغلا پن کی وجہ سے جمہوریت کونقصان ہوا ، عام آدمی سیاست دانوں سے متنفر ہوتا جارہاہے۔ حکومتی جمہوریت سے ملک کانقصان ہر سطح پر ہورہا ہے جس طرح ان کی خارجہ اور داخلہ پالیسی ناکام ہے اسی طرح اب ان کی طرز حکمرانی نے جمہوریت کو بھی ناکام کیا جو پورے ملک کیلئے لمحہ فکریہ ہے لیکن اس کے باوجود عوام کا بھی فرض ہے کہ ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرنے اوران کی لوٹ مار کوروکنے اوراحتساب کے سامنے پیش کرنے کیلئے اپنی آواز بلند کرے جس سے ملک میں حقیقی جمہوریت کانفاذ ممکن ہوسکتا ہے۔
 
Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 204079 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More