شیر آیا شیر آیا

 کسی بھی معاملے میں حد سے تجاوزکرنایعنی توازن کادامن ہاتھ سے چھوڑناشدیدنقصان پہنچاتا ہے ،حکمران جماعت نے میاں نوازشریف کے مبینہ آپریشن بارے جومعلومات دیں ان میں تضادات اورپیداہونیوالے شبہات سے انکار نہیں کیا جاسکتا اوریہ تضادات اورشبہات ارباب اقتدار کی ناقص منصوبہ بندی اوردروغ گوئی کاشاخسانہ ہیں۔وزیراعظم میاں نوازشریف اورحکمران خاندان کی ترجمان مریم نواز کئی اہم سرکاری اطلاعات اپنے ٹوئٹ کی مددسے بریک کرتی ہیں،اگر وفاقی وزیراطلاعات کے کرنیوالے کام مریم نوازنے کرنے ہیں تو پھرپرویز رشید کوکس کام کی تنخواہ دی جارہی ہے۔ مریم نوازکی سرکاری سرگرمیاں اوران کے پاس اختیارات آئین کی کسی شق کے تحت ہیں اس بات کاجواب تووزیراعظم یاوفاقی وزیراطلاعات بہترطورپردے سکتے ہیں۔مریم نوازکاایک حالیہ ٹوئٹ''شیرآیا ،شیرآیا'' اس وقت منظرعام پرآیا جس وقت میاں نوازشریف ہسپتال سے ڈسچارج ہوکر اپنے گھرروانہ ہورہے تھے، اس وقت میاں نوازشریف کاچہرہ کسی بیمارانسان کاچہرہ نہیں تھا۔مریم نوازکے ٹوئٹ شیرآیا شیرآیا سے مجھے ایک کہانی یادآگئی جس میں ایک گدڑیا گاؤں سے باہر بکریاں چرانے گیا تواس نے ''شیرآیا شیرآیا''کاشور مچادیا جس پرگاؤں کے لوگ اس کی مددکیلئے دوڑے چلے آئے لیکن وہاں دوردورتک کسی شیرکے آثار نہیں تھے جبکہ شریرگدڑیاانہیں بیوقوف بنانے پرالٹا قہقہے لگارہا تھا،چندروزبعد دوبارہ گدڑیا شیرآیا شیر آیا کاشورمچانے لگا لیکن اس بار واقعی شیرآگیا مگر گاؤں والے اس کی مددکیلئے نہیں آئے جبکہ شیرکوبھوک مٹانے کیلئے بکریوں کی بجائے گدڑیا پسندآگیا ۔اس کہانی میں ارباب اقتدارکیلئے بھی ایک پیغام ہے ،آپریشن آپریشن کاشورمچا نے سے اگر حقیقت میں بڑے آپریشن کاسامنا کرناپڑگیا توپھرکیا ہوگا اوراگریہ آپریشن دوقسم کے ہوئے تواس بارسیاسی دعا اورکسی نیم حکیم کی''دوا'' ان کے کسی کام نہیں آئے گی۔پاناما پیپرز کے ہوشرباانکشافات منظرعام پرآ نے سے احتساب یعنی آپریشن کے حق میں دباؤبڑھ رہا ہے۔اپنے حقوق سے محروم اورموروثی سیاست سے متنفر عوام کرپشن کیخلاف بے رحم آپریشن کے خواہاں ہیں،یہ ان کادیرینہ خواب ہے جو صرف دبنگ جنرل راحیل شریف کی تدبیر سے شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔جہاں قانون کی طاقت سے بروقت اورسخت احتساب نہیں ہوتاوہاں خونیں انقلاب کاامکان بڑھ جاتا ہے۔حکمران اشرافیہ شایداحتساب کاسامنا توکرلے مگرخونیں انقلاب کاسامنا کرنا اس کے بس کی بات نہیں۔کئی فلموں میں ولن کوجان بچانے کیلئے اپنی مرضی سے جیل جاتے ہوئے دیکھاگیا ہے۔مصیبت دستک دے کرنہیں آتی ،ناجائزاثاثوں کے مالکان زیادہ دیرتک قانون اورقوم کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتے ۔ جہاں ریاست ،سیاست ،معیشت اورمعاشرت بیمار ہووہاں کسی حکمران کی بیماری کوئی معنی نہیں رکھتی ۔حکمران خودتوعلاج کیلئے بیرون ملک چلے جاتے ہیں مگر پاکستان میں رائج نظام کوجس سرطان کاسامنا ہے اس کاآپریشن کون کرے گا۔حکمرانوں نے پاکستان کوایک موٹروے اوردوسری میٹرو کے سواکیا دیا ہے ،وہ تین دہائیوں میں ایک بھی ایسا جدید ہسپتال بنانے میں ناکام رہے جہاں کے ہیلتھ سسٹم پرانہیں اعتمادہواوروہاں ان کاعلاج ہوسکے ۔انہیں اپنے اتفاق ہسپتال کے ڈاکٹرز پربھی بھروسہ نہیں جہاں علاج کے نام پرشہریوں کی چمڑی اتاری جاتی ہے اورعام آدمی وہاں جانے کاتصور بھی نہیں کرسکتا ۔

میاں نوازشریف کسی پیچیدہ آپریشن کے مرحلے سے گزرے ہیں ،یہ ان کی شکل وصورت اورچال ڈھال کو دیکھ کرہرگزنہیں لگتا ۔مبینہ اوپن ہارٹ سرجری سے ایک روزقبل بھی وزیراعظم نے ویڈیولنک کی مددسے پاکستان میں اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کیا توانہیں دیکھ کرنہیں لگا کہ کل ان کے دل کاپیچیدہ آپریشن ہونا ہے ،آپریشن کے بعدمیاں نوازشریف کی جوتصویرریلیز کی گئی اس میں ان کے سرپربالوں کی کثرت سے بھی شکوک وشبہات کومزید تقویت ملی ۔ میاں نوازشریف کیلئے اجتماعی دعاکرناان کی جماعت کے کارکنان کاحق ہے مگر اچھاہوتا اگروہ ڈرون حملوں کے نتیجہ میں زخموں سے چُور چُورمادروطن کی سا لمیت ،انسانیت کے خدمت گزار عبدالستارایدھی کی صحت وتندرستی اوردرازی عمر جبکہ ضمیر کی قیدی ڈاکٹرفوزیہ کی فوری رہائی کیلئے بھی اپنااپنادست دعادرازکرتے ۔بابائے قوم محمدعلی جناح ؒ ،مادرملت فاطمہ جناح ؒ اورحضرت اقبال ؒ کی برسیاں خاموشی سے گزرجاتی ہیں مگران کے سیاسی وارث بلکہ قائداعظم ثانی ہونے کے دعویداروں کو بانیان پاکستان کے درجات کی بلندی کیلئے دعائیہ تقریبات منعقدکرنے کی توفیق نہیں ہوتی۔سانحہ پشاور کے معصوم زخمیوں کیلئے حکمران جماعت کے کارکنان کواجتماعی دعاکرنے کیلئے نہیں کہا گیاجبکہ میاں نوازشریف کی مبینہ بیماری کوغیرضروری اہمیت دی گئی جوایک سوالیہ نشان ہے ۔میاں نوازشریف کی عیادت کیلئے لندن کامہنگااورطویل سفر کرنے والے اپنے ساتھ والے گھر میں کسی بیمار کی تیمارداری نہیں کرتے ،اگران کاکوئی مفلس رشتہ دارانتقال کرجائے تووہ اس کی نمازجنازہ میں بھی شریک نہیں ہوتے ۔ پرویز مشرف کے دورآمریت میں مسلم لیگ (ن) لاہور کے سیکرٹری طلاعات کی حیثیت سے گرانقدرخدمات انجام دینے والے مرزاگلریز بیگ پچھلے دنوں شدید بیماری کے سبب لاہور کے ایک نجی ہسپتال میں کئی روزتک زیرعلاج رہے مگر حکمران جماعت کے عہدیداروں ،وزیروں اورارکان اسمبلی کو ان کی بیمارپرسی کاخیال نہیں آیا،بعدازاں انہیں ڈاکٹرز کے مشورے پربھارت لے جایا گیا جہاں ان کاآپریشن ہوا مگر کسی نے فون پربھی عیادت نہیں کی۔مریم نواز نے بھی اپنے پارٹی کارکن مرزاگلریز بیگ کی صحت وتندرستی کیلئے عوام سے دعا کرنے کیلئے نہیں کہا۔

جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے لہٰذاء حدسے زیادہ جھوٹ بولنااورشعبدہ بازی کامظاہرہ کرنا الٹا انسان کوزیادہ بڑی مصیبت میں ڈال سکتا ہے۔میاں نوازشریف کے آپریشن بارے سرکاری اطلاعات میں تضادات نے کئی سوالات کاجنم دیا ہے۔انسان اپنے ارادوں میں سوفیصدکامیاب ہوجائے یہ ضروری نہیں کیونکہ جس طرح انسان اپنے فائدے کیلئے ایک چال چلتا ہے تواس کے جواب میں سچااورسچائی کاحامی رب بھی ایک چال چلتا ہے اورظاہرہے اﷲ تعالیٰ کی چال کے مدمقابل کسی انسان کی دال نہیں گل سکتی۔حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا تھا ،''میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹ جانے سے اﷲ تعالیٰ کوپہچانا'' ۔میاں نوازشریف کوان کے مبینہ آپریشن کی بنیادپر ملنے والی ہمدردیاں عارضی ہیں کیونکہ اب معمولی دانائی کے حامل افراد کیلئے بھی سچائی تک رسائی آسان ہوگئی ہے۔تصویریں بولتی اورجھوٹ کابھانڈاپھوڑتی ہیں۔جس معاشرے میں جہالت ہووہاں ذہانت بھی ہوتی ہے اورجہالت کسی صورت ذہانت پرغلبہ نہیں پاسکتی ،میں سمجھتا ہوں جہالت کاوجود بادشاہت کی بنیاد ہے۔ظہوراسلام سے قبل بادشاہت کانظام تھا جبکہ اسلام نے انسانیت کو خلافت کانظام دیا،جمہوری نظام کااسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ اسلام کی ضد ہے۔اسلام تقویٰ اورکردار حامی ہے جبکہ جمہوریت میں'' لچے زیادہ اچے ''ہیں ۔اگرپاکستان میں سیاسی جہالت نہ ہوتی تو وطن عزیز میں جمہوریت کی آڑمیں بادشاہت کوتقویت نہ ملتی ۔

حکمرانوں کے غیر منتخب بچے کس بنیادپرآئینی اختیارات اورسرکاری مراعات استعمال کرتے ہیں ۔یوسف رضاگیلانی کے دوراقتدارمیں ان کی اہلیہ اوربیٹوں سمیت ان کے خاندان کاہرفردبراہ راست سرکاری اداروں میں مداخلت اوراحکامات صادر کرتاتھا،ان کی ''چِٹ ''پرکسی میرٹ کے بغیر شہریوں کوسرکاری نوکریاں ملتی تھیں ۔پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کے دورمیں ان کا صاحبزداہ مونس الٰہی ان کے آئینی اختیارات استعال کرتا تھاجبکہ صوبائی وزراء اورارکان اسمبلی پرویزالٰہی کے ساتھ ساتھ مونس الٰہی کی بھی خوشامدکیاکرتے تھے۔وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف بیرون ملک ہوں تواہم سرکاری اجلاس حمزہ شہباز کی صدارت میں منعقدہوتا ہے جبکہ ان میں چیف سیکرٹری پنجاب اورآئی جی پنجاب سمیت دوسرے اعلیٰ حکام بھی شریک ہوتے ہیں ۔میاں نوازشریف اندرون ملک ہوں یابیرون ملک وزیراعظم ہاؤس کے متعدد اہم امور پچھلے تین برسوں سے مریم نوازکے ہاتھوں میں ہیں،انہیں آئندہ وزیراعظم کیلئے تیارکیا جارہا ہے ۔ مریم نواز کی تربیت کیلئے اعلیٰ سرکاری آفیسر، اہلکاراورسرکاری وسائل ان کی دسترس میں ہیں ۔پنجاب کی سطح پر پرویزالٰہی کے جانے اورمیاں شہبازشریف کے اقتدارمیں آنے سے ایوان اقتدارمیں صرف چہرے بدلے ہیں مگر گورننس میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ،اب بھی اقتدار کے ایوانوں میں خوشامدکادوردورہ ہے ۔مگر پرویز الٰہی دورکاتحفہ 1122وہ زندہ حقیقت ہے جس کا انکار کیاجاسکتا ، پرویز الٰہی کواپنے دوراقتدارمیں 1122 کے حق میں سیمینارمنعقد کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی جس طرح میاں شہبازشریف نے اورنج ٹرین اورمیٹروبس کی پذیرائی کیلئے سیمینار زکاانعقادکیااورشہریوں کی منت سماجت کرکے انہیں شریک ہونے پرمجبورکیا گیا ۔کچھ حکمران وہ ہیں جن کی زبانیں چلتی ہیں اورکچھ وہ ہیں جن کاکام بولتا ہے۔پرویزالٰہی دورکا1122منصوبہ میاں شہبازشریف کے اورنج ٹرین اورمیٹروبس منصوبوں پربھاری ہے ۔1122طرز کامنصوبہ کسی تشہیر کامحتاج نہیں ہوتا بلکہ اس سے مستفیدہونیوالے اس کی اہمیت کے حق میں شہادت دیتے ہیں ۔
 
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126445 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.