اے اہلِ صفا مردودِ حرَم

 آخر کار بھارت کا دل، دہلی بھی جاگ اـٹھا۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے ہزاروں طلباء و طالبات، کنہیا کمار کی قیادت میں افضل گورو کے یوم شہادت پر بول اٹھے کہ ہندوستان کے عوام کے ضمیرکے اجتماعی اطمینان کے نام پر عدالتی قتل نہیں ہونا چاہئیے تھا۔ ان کا مؤقف تھاکہ بھارتی سماج کیلئے ایسی رسم تباہی لائے گی۔ کشمیر کے حوالے سے یہ صدا دہلی کے علاوہ ہندوستان کی دیگر یونیورسٹیوں میں بھی گونجی گویاکہ
؂ پا سباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

چند ماہ قبل بھی مذہبی اقلیّتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف مذہبی انتہا پسند تنظیموں کی کاروائی پر بھارت کی سول سوسائیٹی نے اپنے ضمیر کا کھل کر اظہار کیا اور قومی اعزاز حکومت کو واپس کر کے شعوری بیداری کا ثبوت دیاتھا۔ دہلی میں ہونے والا حالیہ واقعہ مسئلہ کشمیر سے جڑا ہوا ہے۔ کشمیری عوام کے حق خود ارادیت اور قومی آزادی کو کس طرح دو ملکوں کے درمیان علاقائی تنازعہ بنا یا گیا اور پھر گزشتہ 68سال سے اس پر کئی جنگیں لڑی گئیں۔ کشمیر کا قضیہ تو حل نہ ہوا نہ ہی کوئی ملک فتح کے شادیانے بجا سکالیکن حقیقت میں اگر کوئی ہارا تو وہ برِّصغیر کے غریب عوام تھے جن کے ملکی وسائل جنگوں کی نذر ہوتے رہے اور آج بھی ان کا مستقبل یرغمال بنا ہوا ہے یا وہ کشمیری جن کے 5لاکھ شہیدوں کے خون کا حساب دینے والا کوئی نہیں جن کا خون کشمیر سے نکلنے والے ان دریاؤں میں شامل ہوتاہے جو دریا برِّصغیر کے لہلہاتے کھیتوں کا سبب ہیں اور اس پیدا ہونے والے اناج میں کشمیریوں کے خون کی خوشبو بھی شامل ہوتی ہے۔

مسئلہ کشمیر پر جوں وتوں (Status Quo)کی اس پالیسی کو توڑنا دونوں ملکوں میں کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اسے عرصہ دراز سے برِّصغیر کے لوگوں میں ایک مخالفانہ جذباتی کیفیت قائم رکھنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ افضل گورو کی پھانسی پر نئی دہلی یونیورسٹی سے اٹھنے والی آواز کو ’غدّاری‘ قرار دیا گیا ہے لیکن غدّاری کی اس آواز نے پورے ہندوستان میں لاکھوں کی تعداد میں اور غدّار پیدا کر دیئے کہ ہزاروں نوجوانوں کے خلاف غدّاری کے مقدمات قائم ہوئے۔

سماجی شعور کے ارتقاء میں یہ ہوتا آیا ہے کہ ریاست کے مقتدر طبقات کے بنائے ہوئے بیانیئے سے جب بھی اختلاف رائے کی آواز اٹھی اسے غدّاری پر معمول کیا گیا۔ برّصغیر میں غدّاری کی تاریخ کے سنہرے لیکن المناک باب موجود ہیں۔1857؁ء میں انگریزی سامراج کے خلاف آزادی کے ہزاروں مجاہدوں کو برطانوی سامراج کا غدّار قرار دیکرتختہ دار پر لٹکایا گیااور اس تحریک آزادی کو ’غدّر‘ کا نام دیا گیا۔ جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر کی گولیوں کا نشانہ بننے والے بھی گولیاں کھانے سے پہلے غدّار ڈیکلئر کئے گئے۔ انگریزوں کے خلاف پنجاب میں رائے احمد کھرل اور بھگت سنگھ جیسے لا تعداد حریت پسند غدّاری کے الزام میں دار پر جھولے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد سب سے پہلے غدّاری کے الزام کی زد میں آنے والے اور پاکستانی ایجنٹ کہلا کر موت کے گھاٹ اترنے والے بھارتی قوم کے باپو مہاتما گاندھی تھے۔ افضل گورو ہو یا مقبول بٹ سب پر غدّاری کا مقدمہ چلا اور پھانسی گھاٹ کو رونق افروز کر گئے۔ مقبول اُدھر بھی غدّار تھے اِدھر بھی غدّاری کے الزام میں شاہی قلعہ لاہور میں تشدد کا شکار رہے۔

دنیا میں سب سے زیادہ غدّاری کی فیکٹریاں برِصغیر میں کام کر رہی ہیں کہ ان ملکوں کے مفاد پرست اور استحصالی مقتدر طبقات ، مخالف آوازوں پر غدّاری کا الزام لگا کر اپنی لوٹ مار کو نہ صر ف تحفظ فراہم کرتے ہیں بلکہ اٹھتی آوازوں کو خاموش کرنے کیلئے نہائت ہی مؤثر ہھتیار کے طور پر یہ حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔ دہلی میں بھی اٹھنے والی آواز سے بھارت کا کارپوریٹ طبقہ شدیدخوف محسوس کر رہا ہے۔ دونوں ملکوں میں نظام سرمایہ داری کا پھل کھانے والے اس کشیدگی کی فضا کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور برِّصغیر کے مسائل کو پر امن حل کی طرف نہیں جانے دیتے کہ لوگ جنگی خوف سے نکل کر ان کی لوٹ کھسوٹ کی طرف نہ سوچنا شروع کر دیں۔ برّ ِصغیر کے لوگوں کا خوشحال اور پر امن زندگی زندگی بسر کرنے، روٹی ، کپڑا ، مکان، تعلیم و صحت جیسے بنیادی انسانی حقوق کے حصول کا خواب کب پورا ہوگا؟ کب برّ ِصغیر کے افق پر حقیقی آزادی، امن و خوشحالی کا سورج طلوع ہوگا؟ بھارت میں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں خودکشیاں کرنے والے کِسّان اس استحصالی نظام سے کب چھٹکارا پائیں گے؟ پاکستان کے دیہاتوں،فٹ پاتھوں، اور تھر میں بھوک سے مرتے بچوں تک کب تک روٹی کا ٹکڑا پہنچے گا؟ جنگی چالوں کی وجہ سے کب تک برّ ِصغیر کے ڈیڑھ ارب انسان کیڑے مکوڑوں جیسی زندگی بسر کرنے پر مجبور رہیں گے اور خدا تعالیٰ کے عطا کردہ شرف انسانیت کے اعلیٰ اور بنیادی حق سے محروم رہیں گے۔کشمیر کی گلیوں میں کب تک معصوموں کا خون بہتا رہے گا؟

غدّاری کے تمغے بھارت میں بٹیں، پاکستان میں یا جموں و کشمیر میں، جب تک یہ تمغے حاصل کرنے والوں کی تعداد نہیں بڑھے گی، مسئلہ کشمیر کو بزنس بنانے والوں کی برّ ِصغیر کے امن پر اجارہ داری ختم نہیں ہوگی اور نہ ہی اس وقت تک مسئلہ کشمیر حل ہوگا۔ برّ ِصغیر کے دونوں ملکوں کے ان استحصالی طبقات کے چہروں سے وہ نقاب ہٹانے ہونگے جن کا بزنس انسانی خون کی ارزانی میں ہی ترقی کرتا ہے اور وہ لوگ بھی جو کشمیر میں بہنے والے معصوم بچوں کے مقدس خون کی سرخی اپنے چہروں پر سجا کر برّ ِصغیر کے لوگوں کو جنگی جنون اور جنگی خوف میں مبتلا کر کے استحصالی بالادست طبقات کے قومی لوٹ مار کے عمل میں بلا واسطہ یا بالواسطہ سہولت کار کے طور پر شامل ہیں۔ ’غدّار سازی‘ کی فیکٹریوں میں اضافہ اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ اب زمین میر و سلطان سے بیزار ہو رہی ہے اور قومی بیداری کا سورج طلوع ہی ہوا چاہتا ہے۔ یہ غدّار وہی لوگ ہیں جنہیں فیض احمد فیضؔ نے ’اہل صفا مردودِ حرم‘ کا نام دیا تھا۔ ان ’اہل صفا مردودِ حرم‘ کو ہمیشہ استحصالی طبقات نے غدّار کا نام دیا ہے۔ اگر 1857؁ء کی تحریک آزادی میں انگریزوں کے خلاف دار پر جھولنے والے غدّار تھے تو آج بھی دونوں ملکوں میں ان استحصالی طبقات اور سامراجی طبقات کے کارندوں کے خلاف آواز اٹھانے والے’غدّار‘ کہلاتے ہیں ۔ وہ وقت دور نہیں جب لوگ سرعام کہیں گے ہاں ہم غدّار ہیں، تمہارے نظام جبر کے، ہم غدّار ہیں تمہارے استحصالی نظام کے۔ہاں ہم غدّار ہیں تمہاری قائم کردہ طبقاتی تقسیم کے، ہم غدّار ہیں اس نظام زر کے جس نے اس ملک کے قومی وسائل کو چند ہاتھوں میں لوٹنے کیلئے مرتکز کر دیا ہے ہم غدّار ہیں اس نظام اور پالیسیوں کے جس نے ہمارے بچوں کو تعلیم اور صحت کے بنیادی حق سے محروم کر رکھا ہے۔ھم غدّار ہیں اُس نام نہاد میرٹ سسٹم کے جس میں مؤثر سفارش کے بغیر بھرتی کا تصّور نہیں ہے اور جس میں صاحب اقتدار کے رشتہ دار ہی میرٹ کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ برِّصغیر کے لوگوں کے اجتماعی شعور کی بیداری کا وقت آن پہنچا ہے۔ اگر اس اجتماعی شعوری بیداری کے لمحہء موجود کا ادراک کر لیا گیا تو نہ صرف کشمیر کا مسئلہ حل ہوگا بلکہ جموں وکشمیر کے عوام کے ساتھ ساتھ پورے برصغیر کے ڈیڑھ ارب لوگ بھی آزاد ہونگے اور امن و خوشحالی کا نیا سورج طلوع ہوتا ہوا دیکھیں گے۔ مشہور کشمیری شاعر غلام احمد مہجورؔ نے پیشن گوئی کی تھی کہ ایک دن آئے گا کہ کشمیر اہل مشرق کو بیدار کرے گا۔ کہیں مہجور کی پیشن گوئی پورا ہونے کا وقت تو نہیں آرہا؟ ،میرے خیال میں جموں وکشمیر کی آزادی بھی برّ ِصغیر کے عوام کے استحصالی طبقات سے حقیقی معاشرتی او معاشی آزادی سے مشروط ہے۔برّ ِصغیر کے لوگوں کے پیروں سے جب تک غلامی کی بیڑیاں نہیں ٹوٹیں گی کشمیر کی غلامی کی بیڑیاں اترنے کا خیال خواب ہی رہے گا۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ جن کیلئے فیض احمد فیض نے بہت عرصہ پہلے نعرۂ انا الحق اُٹھانے اور مسند پر بیٹھنے کی پیشن گوئی کی تھی۔ بتاؤ ناں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے اہلِ صفا مردودِ حرم!!!
Akram Sohail
About the Author: Akram Sohail Read More Articles by Akram Sohail: 15 Articles with 11747 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.