دوسرا ’’قیدی‘‘ بجٹ

 وفاقی حکومت نے2016-17ء کادوسرا ’’قیدی‘‘ بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا ہے۔ بجٹ اجلاس کے موقع سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے تھے۔ پارلیمنٹ ہاؤس اور اطراف کے علاقوں میں پولیس کی اضافی نفری اور رینجرز بھی تعینات کی گئی تھی جبکہ بجٹ کی کاپیوں کو قیدیوں کی گاڑی میں رکھ کر پارلیمنٹ ہاؤس پہنچایا گیا۔، کھربوں روپے کابجٹ پیش کرنے والی حکومت بجٹ دستاویزات کو پارلیمنٹ تک پہنچانے کیلئے کوئی مخصوص گاڑی کا انتظام بھی نہ کر سکی۔ جمعہ کے روز اّئندہ مالی سال بجٹ کی دستاویزات کو ضلع کچہری میں خطرناک قیدیوں کو لے جانیوالی وین میں پارلیمنٹ ہاؤس تک پہنچایا گیا۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال بھی حکومت نے مالی سال 2015-16 بجٹ کی دستاویزات قیدیوں کیلئے مختص گاڑی میں لائی گئیں تھیں قیدیوں کی یہ وین وزارت خزانہ نے خصوصی طور پر اڈیالہ جیل سے منگوائیں۔2015-16ء کا بجٹ 40.9 کھرب روپے تھا جبکہ 2016-17ء کا بجٹ 43.9 کھرب روپے ہے۔ 3 کھرب کے اضافے سے گزشتہ برس کے مقابلے میں 7.3 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے قیام پر 2013-14ء میں پیش کئے گئے بجٹ میں پیپلز پارٹی کے 2012-13ء کے بجٹ کے مقابلے میں 24 فیصد کا بڑا اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی میں 2.8 فیصد کمی جو گزشتہ 10 سال میں سب سے کم ترین سطح پر ہے۔ فی کس آمدنی بڑھ کر 1561 ڈالر فی کس ہوجائیگی۔ مالی خسارہ گزشتہ مالی سال 4.3 فیصد 2016-17ء میں کم کرکے 3.8 فیصد کردیا جائیگا۔ 2016-17ء کے سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) کا مجموعی حجم 16 کھرب 75 ارب روپے ہے جس میں وفاقی ترقیاتی منصوبوں کا حجم 8 کھرب روپے صوبائی سالانہ ترقیاتی پروگرام کا حصہ 8 کھرب 75 ارب روپے ہے ، غیرملکی امداد کا حصہ ایک کھرب 43 ارب روپے ہے۔ 2016-17ء کیلئے سرکاری شعبے میں ترقیاتی پروگرام کے نمایاں نکات یہ ہیں:۔ ہوا بازی ڈویڑن کیلئے 4 ارب 69 کروڑ 52لاکھ روپے‘کابینہ ڈویڑن کیلئے 36 کروڑ 93 لاکھ روپے‘ پانی و بجلی ڈویڑن (شعبہ آب) کیلئے 31 ارب 71 کروڑ 63لاکھ‘ کیپیٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈویلپمنٹ ڈویڑن کیلئے ایک ارب 4 کروڑ 33 لاکھ‘ موسمیاتی تبدیلی ڈویڑن کیلئے ایک ارب دو کروڑ 70 لاکھ‘ کامرس ڈویڑن کیلئے79کروڑ 88لاکھ‘ مواصلات ڈویڑن (علاوہ این ایچ اے) کیلئے 5 ارب 28کروڑ 52 لاکھ‘ دفاع ڈویڑن کیلئے دو ارب52 کروڑ 66 لاکھ‘ دفاعی پیداوار ڈویڑن کیلئے 2 ارب 30کروڑ روپے‘ وفاقی تعلیم و پیشہ وارا نہ تربیت ڈویڑن کیلئے 2 ارب 20کروڑ 70 لاکھ‘ اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن کے لئے 13 کروڑ 65 لاکھ‘ فنانس ڈویڑن کیلئے 9 ارب 20 کروڑ 19 لاکھ‘خارجہ امور ڈویڑن کیلئے 50 کروڑ‘ ہائر ایجوکیشن کمیشن کیلئے 21 ارب 48 کروڑ 64 لاکھ‘ ہاؤسنگ و تعمیرات ڈویڑن کیلئے 6 ارب 55 کروڑ 41 لاکھ‘ انسانی حقوق ڈویڑن کے لئے 17 کروڑ روپے‘ صنعت و پیداوار ڈویڑن کے لئے 90 کروڑ 95 لاکھ‘ اطلاعات و نشریات ڈویڑن کیلئے 33 کروڑ 54 لاکھ‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کام ڈویڑن کیلئے ایک ارب 10 کروڑ 92 لاکھ‘ بین الصوبائی رابطہ ڈویڑن کیلئے 64 کروڑ 49 لاکھ‘ داخلہ ڈویڑن کیلئے 11 ارب 55 کروڑ 40 لاکھ‘ امور کشمیر و گلگت بلتستان ڈویڑن کیلئے 25 ارب 75 کروڑ‘ قانون و انصاف ڈویڑن کیلئے ایک ارب 50 کروڑ‘ انسداد منشیات ڈویڑن کیلئے 21 کروڑ 84 لاکھ‘ قومی غذائی تحفظ اور تحقیق ڈویڑن کیلئے ایک ارب 52 کروڑ‘ نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز و کوآرڈینیشن ڈویڑن کیلئے 24 ارب 95 کروڑ 11 لاکھ‘قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویڑن کے لئے 6 کروڑ 71 لاکھ‘پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کیلئے 27 ارب 56 کروڑ 4 لاکھ‘ پاکستان جوہری ریگولیٹری اتھارٹی کیلئے 27 کروڑ 10 لاکھ‘ پٹرولیم و قدرتی وسائل ڈویڑن کیلئے 58 ارب 74 ‘ پلاننگ، ڈویلپمنٹ اور اصلاحات ڈویڑن کے لئے 11 ارب 99 کروڑ 78 لاکھ‘ بندرگاہیں و جہاز رانی ڈویڑن کیلئے 12 ارب 82 کروڑ 51 لاکھ‘ ریلوے ڈویڑن کیلئے 41 ارب‘ مذہبی امور اور بین العقائد ہم آہنگی کے لئے 3 کروڑ 43 لاکھ‘ ریونیو ڈویڑن کیلئے 68 کروڑ 73 لاکھ‘ سائنس و ٹیکنالوجیکل ریسرچ ڈویڑن کیلئے ایک ارب 77 کروڑ 68 لاکھ‘ سپارکو کے لئے 2 ارب 50 کروڑ‘ ریاستیں و سرحدی علاقہ جات ڈویڑن کیلئے 22 ارب 30 کروڑ‘ شماریات ڈویڑن کیلئے 20 کروڑ‘ ٹیکسٹائل انڈسٹری ڈویڑن کیلئے 15 کروڑ روپے‘ کارپوریشنز کی مد میں واپڈا (پاور) کیلئے ایک کھرب 30 ارب‘نیشنل ہائی وے اتھارٹی کیلئے ایک کھرب 88 ارب‘پاک ایس ڈی جیز اور کمیونٹی ڈویلپمنٹ پروگرام کے لئے 20 ارب‘ سپیشل فیڈرل ڈویلپمنٹ پروگرام کیلئے 28 ارب‘ ایرا کیلئے 7 ارب‘ عارضی طور پر بے گھر ہونے والے افراد اور سکیورٹی میں اضافہ کے لئے خصوصی ترقیاتی پروگرام کے لئے ایک کھرب‘ وزیراعظم کے یوتھ اور ہنر مند پروگرام کے لئے 20 ارب‘ گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ فنڈ کے لئے 25 ارب‘ صوبوں کے لئے 8کھرب 75 ارب اوروفاق کے لئے 8 کھرب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ ،وزیراعظم محمد نواز شریف دل کے آپریشن کے باعث قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں شرکت نہ کر سکے اور انکی عدم موجودگی میں بجٹ پیش کیا گیا۔ اگرچہ ایوان میں حکومتی ارکان کی حاضری بھرپور تھی لیکن وزیراعظم کی عدم موجودگی کی وجہ سے حکومتی ارکان میں جوش و خروش نہیں پایا جاتا تھا۔ کبھی کبھی حکومتی ارکان ڈیسک بجا کر داد دیتے لیکن وفاقی وزیر خزانہ کو ڈیسک بجانے کی فرمائش کرنا پڑتی تھی۔اجلاس مقررہ وقت سے 17منٹ تاخیر سے شروع ہوا۔ خواجہ آصف، چوہدری نثار، سردار یوسف، شاہ محمود قریشی، فاروق ستار وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر شروع ہونے کے بعد ایوان میں پہنچے۔ وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر،پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان، جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سمیت متعدد اہم ارکان اسمبلی ایوان سے غیر حاضر تھے۔اپوزیشن جماعتوں نے وفاقی بجٹ 2016-17ء کو عوام دشمن قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور کہا کہ حکومت سے ایسے بجٹ کی ہی توقع تھی۔ خورشید شاہ نے کہا کہ بجٹ الفاظ کا گورکھ دھندا ہے، موجودہ حکومت نے کبھی عوام دوست بجٹ نہیں دیا، عوام کیلئے بجٹ میں کچھ بھی نہیں۔ شیخ رشید نے کہاکہ حساب کے ہیرپھیر میں اسحاق ڈار کا کوئی مقابل نہیں ہے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا حکومت نے فلاحی نہیں انتظامی بجٹ پیش کیا ہے جس کے تمام اندازے غلط اور فرضی ہیں۔ بجٹ بھی امیروں کا بجٹ ہے اور غریبوں پر ڈرون حملہ ہے، حکومت کی زرعی پالیسی کسانوں کو پولیس مقابلے میں مارنے کے مترادف ہے۔ عمران خان نے بجٹ پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ پاکستان کے پاس وسائل نہیں کیونکہ طاقتور ٹیکس چھپاتے ہیں۔ بجٹ سے متعلق حقائق عوام کے سامنے لاؤنگا۔ طاقتور لوگ کرپشن کا پیسہ منی لانڈرنگ کر کے باہر بھجواتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے مسلم لیگ ن کو ’’ناکام لیگ‘‘ قرار دیا ہے۔ حکومت پچھلے سال کی طرح اس سال بھی جی ڈی پی سمیت تمام اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ فاروق ستار نے کہا کہ بجٹ امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر بنانے کا ہتھکنڈہ ہے۔ روایتی بجٹ پیش کیا گیا۔ زرعی شعبے سے کھلواڑ ہوا ہے۔ طاہر القادری نے کہا کہ حکومت کے وسائل اپنے ہیں نہ پالیسیاں ، بجٹ سے کشکول کا سائز بڑا اور خودکشیوں میں اضافہ ہو گا۔ غریب کو سستی روٹی ،تعلیم ،صحت دینے اور غیر ملکی قرضوں سے نجات کا کوئی ٹھوس پلان شامل نہیں ہے۔ قبل ازیں اپوزیشن جماعتوں نے بجٹ سیشن میں معاشی اہداف کی ناکامی پر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ایپکا نے وفاقی بجٹ کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے بھی صوبائی حکومت کی طرح اپنا وعدہ وفا نہیں کیا اور بجٹ سے قبل کئے جانے والے وعدے پورے نہیں کئے۔ ایپکا کے صوبائی صدر حاجی ارشاد نے کہا دو جون کو وفاقی سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے کلرکوں کی قیادت سے جو وعدے کئے تھے وہ پورے نہیں کئے۔ حکومت تمام ایڈہاک ریلیف ضم کرے جبکہ ہاؤس رینٹ میں بھی بہت ناانصافی کی گئی ہے۔ حکومت ایپکا کے تمام مطالبات پورے کرے۔ جبکہ پنجاب سول سیکرٹریٹ ایمپلائز ایسوسی ایشن نے سرکاری ملازمین کی مہنگائی کے تناسب سے تنخواہیں نہ بڑھانے پربجٹ مسترد کر دیا ہے۔ ابھی تو بجٹ پیش کیا گیا ہے عوام کو ہر ماہ منی بجٹ بھگتنا پڑیگا۔ صوبائی حکومتیں جب اپنے بجٹ پیش کریں گی تو مہنگائی اس وقت اور زیادہ ہوجائیگی۔
Muhammad Shahid Mehmood
About the Author: Muhammad Shahid Mehmood Read More Articles by Muhammad Shahid Mehmood: 114 Articles with 70785 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.