بجٹ میں زراعت کا ذکر

جس حکومت کی توجہ ہروقت موٹرویز،ایکسپریس ویز،میٹروبسز،اورینج ٹرین،گرین بسز،ہوائی اڈے اور اسی قبیل کے دیگر بے شمار منصوبوں کی طرف ہو۔وہاں زراعت کا ذکر عجیب محسوس ہوتا ہے۔لیکن یہ ذکر تب ہوا جب زراعت سے متعلقہ ہر چیز لٹ چکی تھی۔سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا ہوا۔زراعت نے آگے تو کیا بڑھنا تھا۔وہاں تو Back gearلگا ہوا تھا۔اور پھر شرح نمو منفی ہوگئی۔یہ صورت حال پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوئی۔کپاس کی تو پیداوار ہی کم ہوگئی۔لاکھوں بیلز کی پیداوار میں کمی کے بعد مصنوعات درآمد کرنا پڑیں۔جس ملک کی کپاس کا پوری دنیا میں ایک نام تھا۔زراعت کی طرف نہ صوبائی حکومتوں کی توجہ اور مرکز کے پاس تو بہانہ ہے کہ ہمارا شعبہ ہی نہیں۔زراعت ہی ہماری ریڑھ کہ ہڈی ہے۔اگر یہ ہی صحت مند نہ ہو تو پورے جسم نے صحت مند تونہیں ہونا۔بلواسطہ اور بلاواسطہ پورے ملک کی لیبر کا سب سے بڑا حصہ اسی سے وابستہ ہے۔حکومت نے زرعی پیکج کا اعلان کچھ عرصہ پیشتر کیا تب مقامی حکومتوں کے الیکشن قریب تھے۔وہ پیکج سیاسی سمجھا گیا اور عدالت میں چیلنج کردیاگیا۔گزشتہ 3سال زراعت کی طرف کسی بھی مرکزی اور صوبائی حکومت کی توجہ نہ رہی۔نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ آلومال روڈ پر سورج کی گرمی میں سلگتے رہے۔چاول کی فصل کو بھی کسی نے نہیں پوچھا۔دھان کے کاشت کار اب آئندہ کے لئے سوچ رہے ہیں کہ کاشت کریں یانہ کریں۔جب کسی فصل کی قیمت اسکی لاگت سے بھی کم ہوجائے تو فوری طورپر حکومت توجہ کرتی ہے۔سپورٹ پرائس کا اعلان کرتی ہے۔تاکہ لاکھوں کسانوں کوتباہی سے بچایا جائے۔ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے اس سب سے بڑے اور سب سے اہم شعبے کی طرف توجہ ہی نہ دی۔اصل میں مرکزی اور پنجاب حکومت کی توجہ صرف موٹرویز اور میٹروبسوں کی افتتاحی تختیوں کی طرف رہی۔ان تختیوں کی افتتاحی تقریبات سے حکومتوں کو کافی سکون ملتا ہے۔مستقبل کی سیاسی کامیابیاں نظر آتی ہیں۔ان تختیوں کو کچھ لوگ ٹی۔وی پر دیکھ رہے ہوتے ہیں اور کچھ حضرات آتے جاتے دیکھتے رہتے ہیں۔پھر یہ تختیاں باربار اشتہارات میں دکھائی جاتی ہیں۔پروپیگنڈا اپنا اثر دکھاتا ہے۔ووٹ پکے ہوجاتے ہیں۔زراعت میں دلچسپی اس لئے نہیں ہے۔کہ وہ پورے ملک میں پھیلا ہوا شعبہ ہے۔اگر کھاد میں رعایت دینی ہے۔تو اسکی تختی کہاں اور کیسے لگ سکتی ہے۔کیونکہ رعائت توپورے ملک میں پھیلے ہوئے کھیتوں سے متعلق ہے۔ایسے ہی اگر ٹیوب ویل کی بجلی کے نرخ کم کرنے ہیں تو اس کی تختی کسی ایک ٹیوب ویل پر تو لگ نہیں سکتی۔یہی صورت حال زرعی ادویات اور زرعی آلات کی قیمتوں سے متعلق ہے۔جب زراعت کی گروتھ گزرے سال منفی ہوگئی تو یہ خطرے کی گھنٹی تھی۔حکومت کو مجبوراً کچھ کرنا پڑا۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو زراعت کو ہروقت نظر میں رکھنا چاہیئے۔زراعت سے ہی ہماری انڈسٹری وابستہ ہے۔ٹیکسٹائل کی صنعت جو زراعت سے جڑی ہوئی ہے۔وہاں بھی تباہی کے مناظر ہیں۔100 یونٹس تو مکمل طورپر بند ہوچکے ہیں اور باقی کئی بند ہونے کے قریب ہیں۔گنے کے کاشت کار بھی ہروقت شور ڈالتے رہتے ہیں۔انہیں بھی مناسب اور بروقت ادائیگی نہیں ہوتی۔پورے ملک میں پھیلے ہوئے کاشت کار بیچارے کوئی بڑا مظاہرہ بھی نہیں کرسکتے۔نہ انکی کوئی تنظیم ملکی سطح کی بن سکتی ہے۔زراعت میں جو تنظیمیں اخباروں میں نظر آتی ہیں وہ چند سوارکان پر مشتمل ہوتی ہیں۔دوردراز علاقوں میں کام کرتے اور ہروقت مصروف رہنے والے کاشت کار ان تنظیموں کے پروگراموں میں کیسے شرکت کرسکتے ہیں؟۔کاشت کاروں کا کام ہمہ وقتی ہے وہ شفٹوں میں بھی کام نہیں کرتے۔گزشتہ چند ماہ سے کاشت کاروں نے جو احتجاجی جلسے کئے وہ لاہور اور اسلام آباد کے قریبی کاشت کارتھے۔اگر کاشت کاروں کی کوئی تنظیم ہے بھی تو وہ صرف صوبائی سطح کی ہے۔ہر صوبے میں فصلیں بھی مختلف اور انکے مسائل بھی مختلف۔جب موجودہ بجٹ میں اسحاق ڈار زراعت کے لئے کچھ رعائتوں کا ذکر کررہے تھے تووہ داد کے مستحق تھے۔یہ فرما رہے تھے کہ ہم نے سب کچھ زراعت پر نچھاور کردیا۔لیکن ساتھ ہی انہیں وہ تباہی اور بربادی بھی واضح طورپر بتانی چاہیئے تھی جو ہمارے سب سے بڑے سیکٹر میں ہوچکی ہے۔ہمارا چاول جسکی دنیا میں بڑی طلب ہے۔حکومت اسکی برآمد کے لئے کوئی بڑا قدم نہیں اٹھا سکی۔اور کسانوں کو لوکل مارکیٹ سے کچھ بھی نہ ملا۔کپاس کی تو پیداوار ہی اتنی کم ہوگئی کہ وہ مقامی ضرورت بھی پورا نہ کرسکی۔3۔سال بعد آکر اب یوریا اور ڈی۔اے۔پی کھادوں کی قیمتوں میں400روپے اور300روپے فی بوری کی کمی کی گئی ہے۔نرخ مزید کم ہونا ضروری تھے۔زرعی آلات کی درآمد پر ڈیوٹی 5فیصد سے کم کرکے2۔فیصد کردی گئی ہے۔زرعی ادویات پر سیلز ٹیکس ختم کردیا گیا ہے۔ایسے ہی لائیو سٹاک اور پولٹری سے متعلقہ درآمدات کی ڈیوٹی بھی5۔فیصد سے2۔فیصد کردی گئی ہے۔جو کچھ رعائتیں ملیں انکی تعریف ضروری ہونی چاہیئے۔لیکن زراعت ایسا شعبہ ہے کہ اسکا انحصار قدرتی حالات پر ہوتا ہے۔یہ موافق ہونگے تو فصلیں اچھی اور موافق نہ ہوں تو فصلیں بہتر نہیں ہوتیں۔بارشیں کچھ فصلوں کوفائدہ پہنچا رہی ہوتی ہیں اور کچھ فصلوں کے لئے نقصان کا سبب بن رہی ہوتی ہیں۔ایسے ہی سیلاب کی شدت اگر کم ہوتو کھیتوں میں زرخیزی آتی ہے اور شدت اگر زیادہ ہوجائے تو کھڑی اور تیار فصلوں کوبرباد کردیتا ہے۔آندھیاں بھی فصلوں کے نقصان کاسبب بنتی ہیں۔زرعی فصلوں کے بیمہ کی سکیم تمام صوبوں میں شروع کرنا چاہیئے۔محکمہ زراعت ہروقت نظر رکھے اور کسانوں کی ضروریات پوری کرتا رہے۔ٹیوب ویلز کو بجلی بھی رعائتی نرخوں پر فراہم کرنے کا اعلان ہواہے۔اس سے بھی کسانوں کو فائدہ ہی ہوگا۔اگر موجودہ مسلم لیگی حکومت اپنے پہلے بجٹ سے ہی زراعت کی طرف توجہ رکھتی تو اب تک زراعت بہت آگے بڑھ چکی ہوتی۔تمام فصلوں بمعہ سبزیات کی سپورٹ پرائس کی طرف توجہ دینا ضروری ہے۔تاکہ آلو مال روڈ پر سلگتے نظر نہ آئیں۔زراعت کے لئے پانی کی دستیابی بنیادی مسٔلہ ہے۔فصلوں کو بروقت اور وافر پانی ملے گا تو پیداوار اچھی ہوگی۔ابھی تک تو یہی دیکھا جارہا ہے کہ سیلاب کے دنوں میں بے شمار پانی ضائع ہورہا ہے۔پانی کابڑا ذخیرہ دیامیر بھاشا ڈیم پر بننا ہے۔لیکن اسکی جھیل کا صرف ابتدائی کام شروع ہوا ہے۔موجودہ بجٹ میں صرف32۔ارب روپے ڈیم کے لئے رکھے گئے ہیں ۔گزشتہ سال ایک ارب روپے سے جھیل کے لئے زمین خریدی گئی ہے۔یہ پورا منصوبہ کم ازکم12سال بعد مکمل ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔دریائے سندھ پر صرف یہی ایک پانی کا بڑا ذخیرہ تعمیر ہونے جارہا ہے۔پانی کا کوئی اور ذخیرہ ابھی شروع ہی نہیں ہوا۔اﷲکرے کہ ظفرمحمود چئیرمین واپڈا کالا باغ ڈیم کے لئے تمام صوبوں کی رضامندی حاصل کرلیں۔انہوں نے اپنے مضامین کا ایک سلسلہ اخبارات میں شروع کیا ہے۔اگروہ یہ کام کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پاکستان کے محسن شمارہونگے۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ بجٹ میں زراعت کاذکر نہ صرف ہوا بلکہ بھر پور انداز سے ہوا۔ان رعائتوں میں آئندہ اضافہ ہونا ضروری ہے۔
Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 72 Articles with 49764 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.