دل25کا خود 66کے۔جانشین یا کچھ اور․․․․

میاں صاحب بائی پاس آپریشن الحمد اﷲ کامیاب رہا، پاکستانی قوم کی دعائیں ان کے ساتھ تھیں۔ چھوٹے میاں صاحب خیریت دریافت کرنے اور کامیاب آپریشن کی مبارک باد دینے لندن پہنچ گئے اور کہا کہ بھائی صاحب مبارک ہو آپ کا دل اب 25 کا ہوگیا ہے اس پر بڑے میاں صاحب نے کثر افسردگی میں جواب دیا کہ دل تو 25کا ہوگیا پر میں تو66کا ہوں۔ میاں صاحب دل کو تو جوان کیا جاسکتا ہے لیکن آپ کی عمر کو کم دنیا کی کوئی طاقت نہیں کرسکتی ۔ آپ کی عمر کا گراف تو اب اوپر کی جانب ہی رواں دواں رہے گا۔ یہ باتیں تو اپنی جگہ ازراہ مزاق کی ہیں لیکن میاں صاحب اب وہ والے میاں صاحب نہیں رہیں گے۔ عوامی جلسوں میں اچھل کود اب مشکل ہوجائے گی لیکن یہ سیاست کا بھوت انسان کو اتنی آسانی سے جانے والا نہیں پھر اقتدار کا نشہ کب جانے والا ہے۔

وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کی اوپن ہارٹ سرجری ہونے کے بعد قیاس آرائیاں شروع ہو چکی ہیں کہ میاں صاحب کو مکمل صحت مند ہونے میں تین سے چار ماہ لگ سگتے ہیں۔ ایسی صورت میں کیا ان ہاوس تبدیلی کے آسکتی ہے؟ چھوٹے میاں صاحب آپریشن کے بعد دوبارہ وزیر اعظم کی مزاج پرسی کرنے چلے گئے ہیں۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے کی اطلاع کے مطابق چھوٹے میاں صاحب یہ کہہ کر گئے ہیں کہ وہ بڑے میاں صاحب کو اس بات پر راضی کر کے ہی واپس لوٹیں گے کہ انہیں وقتی طور پر ہی سہی اپنا کوئی جانشین مقرر کردینا چاہیے۔ چھوٹے میاں صاحب اس مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں یقین سے کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔ مسلم لیگ نون کے ذمہ داران اس بات کی سختی سے تردید کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ اس قسم کی کوئی تجویز زیر غور نہیں۔ دوسری جانب چھوٹے میاں صاحب کے بیرون ملک روانہ ہوتے ہی پاکستان پیپلز پارٹی کے جوشیلے اور جوان چیرٔ مین بلاول بھٹو زرداری نے یہ بیان داغا کہ ’’چودھری نثار کسی صورت میاں نوز شریف کے جانشین کے طور پر قبول نہیں‘ ۔ گویا چودھری نثار بھی ایک امیدوار ہیں میاں صاحب کے جانشین ہونے کے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ چودھری نثار کی پارٹی میں بڑی تعداد کی سپورٹ حاصل ہے۔ متعدد وزراء اس معاملے پر خاموش تماشائی نظر آرہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ نون لیگ کا فارورڈ بلاک بن چکا ہے جسے چودھری نثار کی آشیرباد حاصل ہے۔ کچھ بھی ہو چودھری نثار نون لیگ میں مضبوط حیثیت کے مالک ہیں، اسٹیبلشمنٹ میں بھی ان کا اچھا اثر رسوخ ہے۔ موجودہ حکومت کی تشکیل کے وقت چودھری نثار پنجاب کی تخت نشینی کی خواہش رکھتے تھے لیکن چھوٹے میاں صاحب نے تخت لاہور سے دستبردار ہونے سے صاف انکار کردیا۔ مجبوراً چودھری نثار کو وزارت داخلہ کا قلم دان سونپا گیا۔ موجودہ حکومت کے تین سالہ دور میں چودھری صاحب کی دیگر اہم وزیروں سے ناراضگی ، حتیٰ کہ وزیر اعظم نواز شریف سے کئی کئی ماہ ملاقات نہ کرنا جیسے واقعات ان کی جانب سے طاقت اور اہمیت کا کھلا اظہار رہا ہے۔

جانشینی کے حوالے سے چھوٹے میاں صاحب خود بھی تو بھاری بھر کم امیدوار ہیں۔ وہ تخت لاہور میں اپنی کامیابی کی بنیاد پر تخت اسلام آباد پر متمکن ہونے کا موقع کیوں ہاتھ سے جانے دیں گے۔ اس کے لیے انہیں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنا ہوگا اس کے بغیر وہ اس منصب کے اہل نہیں۔ ایسا کرنے میں وقت بھی لگے گا اور اس دوران ان کی اپنی پارٹی میں پھوٹ پڑ سکتی ہے، اپوزیشن تو پہلے ہی پاناما لیکس پر حکومت کو چت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ جانشینی کے حوالے سے اور بھی امیدوار میدان میں ہیں ۔سمدھی جی بڑے میاں صاحب کے بہت بہ اعتماد وزیر ہیں۔ جب بھی کوئی آڑا وقت آیا اسحاق ڈار صاحب ہی حکومت کی جانب سے پیش پیش رہے ہیں اور اب بھی وہی پیش پیش ہیں۔ وزیراعظم جاتے جاتے انتظامی اختیارات انہیں ہی دے گئے ہیں۔ ویسے بھی ان کے پاس اہم وزارت ہے۔ کوئی اور وزیر میاں نواز شریف کے اس قدر قریب اور بہ اعتماد اور بہ صلاحیت نہیں۔ بیگم کلثوم نواز شریف صاحبہ کا نام بھی لیا جارہا ہے لیکن شاید وہ اس اہم ذمہ داری کے لیے اپنے آپ کو تیار نہ کر پائیں۔ویسے وہ آڑے وقت میں سیاست نشیب و فراز سے گزرچکی ہیں۔اگر وہ کسی مصلحت کے تحت تیار ہو بھی جاتی ہیں تو انہیں قومی اسمبلی کی مخصوص نشست پر الیکشن لڑنا ہوگا ، قانونی پہلو بھی آڑے آئیں گے ۔ ان تمام تر آپشن کے علاوہ ایک سب سے مضبوط ، بھاری بھرکم جانشین خود میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز ہوسکتی ہیں۔ نواز شریف اور مسلم لیگ نون کی جانب سے جس انداز سے مریم نواز کو سیاست کے میدان میں متعارف کرایا جارہا ہیں، سیاسی معاملات میں مریم نواز کو موقع دیا جارہا ہے ، اس کی گرومنگ کی جارہی ہے اس سے اندازہ یہ ہورہا ہے کہ میاں صاحب کو اپنے جانشین کے طور پر اپنی بیٹی مریم نواز میں وہ تمام تر خوبیاں دکھائی دے رہی ہیں ، بہ وجود اس کے کہ شریف خاندان کے کئی لوگ سیاست میں ہیں، شہباز شریف کا بیٹا حمزہ شہباز عملی سیاست میں اپوزیشن کو رکھ رکھ کر سنا رہا ہے۔ لیکن معاملہ جانشین کا آیا تو بڑوں بڑوں نے اپنا جانشین اپنے ہی اولاد کو بنا یا۔ کسی نے درست کہا کہ سیاست بے رحم ہوتی ہے۔ میں نے بہت عرصہ قبل اپنے کالم میں نون لیگ کی جانب سے مریم نواز کے وزیراعظم ہونے کا اشارہ کیا تھا کہ میاں صاحب اپنی بیٹی مریم کوخاندان کے تمام لوگوں پر فوقیت دیتے ہوئے پاکستان کے آئندہ کی وزیر اعظم کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ اگر انہوں نے اپنا کوئی جانشین بنا یا تو وہ صرف ان کی اپنی بیٹی مریم نواز ہی ہوگی۔

بھٹو خاندان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو کو جانشین بنا دیا گیا اس وقت بھٹو کے دونوں بیٹے حیات تھے۔ بے نظیر بھٹوجب تک اقتدار میں رہیں بھٹو کے اصل جانشین بھٹو جونیئر کو سین سے آوٹ ہی رکھا اور وہ اب تک عملی سیاست میں نہیں۔ بے نظیر کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری کا پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کر لینا، بلاول بھٹو کی کم عمری میں ہی جانشین بنا کر علمی سیاست میں اتار دینا ، اقتدار ، طاقت اور قوت کو اپنے ہاتھ سے باہر نہ جانے دینے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ سیاست کو بے رحم اسی لیے کہا گیا کہ سیاست میں اپنا اور اپنے قریب ترین کا مفاد عزیز ہوتا ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں میں ون مین شو ہے ۔جس نے سیاسی جماعت بنائی اس نے کبھی اپنا جانشین کسی دوسرے کو نہیں بنایا اول تو یہ نوبت ہی نہیں آئی، اگر نوبت آئی بھی تو باپ نے بیٹے یابیٹی کو،بھائی نے بھائی یا بہن کو، ہمارے سیاسی رہنماؤں کی نگاہ اس سے آگے نہیں جاتی۔ مسلم لیگ شخصیات میں تقسیم در تقسیم ہوتی ہوئی موجودہ مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ضیاء)، آل پاکستان مسلم لیگ، مسلم لیگ (ق)، پاکستان مسلم لیگ (ف) ، عوامی مسلم لیگ میں تقسیم ہوچکی ہے، جمعیت علماء اسلام (ف) اور جمعیت علماء اسلا (س)، جمعیت علمائے پاکستان بھی تقسیم ہوچکی ہے، یہی صورت حال پاکستان پیپلز پارٹی کی بھی ہے ،پاکستان پیپلز پارٹی (شہید بھٹو)، پاکستان پیپلز پارٹی (شیر پاؤ)، اے این پی دو حصوں میں منقسم ہے الغرض ہماری سیاسی جماعتیں شخصیات کے گرد گھومتی نظر آرہی ہیں، شخصیت فعال تو پارٹی سرگرم ، شخصیت غیر فعال تو مائنس ون فارمولا گردش کرنے لگتا ہے۔ الطاف حسین غیر فعال ہوئے ، وجہ صحت یا کچھ بھی ہو ، مائینس ون کی باتیں شروع، زرداری ملک سے باہر گئے ، محسوس ہوا کہ ان کا واپس آنا مشکل ہوگیا تو مائینس ون کی باتیں اور اب میاں صاحب دل عارضے میں مبتلا ہوئے ، پاناما لیکس اسکینڈل آیا تو مائینس ون کی باتیں شروع ہوجاتی ہے۔

ہاں تو میں بات میاں نواز شریف کے جانشین کی کررہا تھا۔ آپریشن سے قبل میاں صاحب نے جس کانفیڈینس ، بہادری، جواں مردی کا مظاہرہ دکھا یا، بائی پاس کے مریض کو آپریشن سے چوبیس گھنٹے قبل اسپتال میں داخل کر لیا جاتا ہے ، اسے اسٹریس نہ لینے، آرام کرنے، بی پی ، شوگر کو کنٹرول کرنے کے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ میاں صاحب کی بہادری اور ان کے ڈاکٹروں کی میاں صاحب کے لیے دریا دلی دیکھیں کہ میاں صاحب نے دو عدد اہم اجلاسوں کی ویڈیو لنک پر صدارت کی اور خوب خوب گفتگو کی۔ لوگ حیران و پریشان تھے کہ یہ کس قسم کا بائی پاس ہے کہ مریض بے خوف و خطر ، ڈاکٹر مریض کی تمام تر سرگرمیوں سے بے پروا۔ ایسا بائی پاس تو پہلے کبھی نہ دیکھا نہ سنا۔ ایک ہفتہ قبل جب وہ واپس پاکستان تشریف لائے ، اسمبلی سے خطاب کیا ، اس میں ان کو جو کامرانی نصیب ہوئی، اس نے گویا میاں صاحب کے اندر ایسا جوش اور ولولہ پیدا کردیا تھا کہ انہوں نے خیبر پختونخواہ کے دور دراز شہروں میں بڑے برے جلسوں میں تقریریں ہی نہیں کیں بلکہ ان جلسوں میں گویا میاں صاحب نے سرکش کے جوہر دیکھائے۔ ان کا چلانا، عمران خان کو خاص طور پر للکار نا، کوئی کہہ سکتا تھا کہ اس شخص کا چند دن بعد بائی پاس ہوگا۔ اس صورت حال کے پیش نظر سوشل میڈیا پر یہ تک کہہ دیا گیا کہ یہ سب ٹوپی ڈرامہ ہے، بائی پاس گویا مک مکا ہے، میچ فکس ہے، سارا کچھ پاناما لیکس سے توجہ ہٹانے اور مظلوم بن کربچ نکلنے کی باتیں ہیں۔

بے شمار لوگوں کے بائی پاس ہوچکے ہیں ، میں بھی اس مرحلے سے گزر چکا ہوں بائی پاس کی نوبت تو نہیں آئی البتہ انجو گرافی اور پھر انجو پلاسٹی ضرور ہوئی۔ اس کیفیت کو مجھ جیسے دل کے مریض بخوبی آپریشن سے پہلے کی صورت حال کو بہت اچھی طرح محسوس کرسکتے ہیں۔ میاں صاحب کاکیس غیر معمولی نوعیت کا ہے۔ وہ بہت زیادہ مضبوط اعصاب کے مالک ہیں، اگر واقعی ایسا ہے تو پھر انہیں اپنے جانشین کے انتخاب کی ضرورت پیش نہیں آئے گی، وہ بہت جلد ویڈیو لنک پر قوم سے مخاطب ہوں گے اور اپنی خیریت سے قوم کو مطلع فرمائیں گے۔ اﷲ تعالیٰ انہیں صحت کاملہ عطا فرمائے۔

 
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1281735 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More