اونٹ کے بیٹھنے کا انتظار

 پانامہ لیکس کی تحقیقات وغیرہ کے لئے بنائی جانے والی کمیٹی میں چوتھے اجلاس تک بھی ڈیڈ لاک ختم نہیں ہو سکا ۔ قوم پریشان ہے کہ پانامہ لیکس کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ حالانکہ پہلے کونسا کام ہے جو قوم سے پوچھ کر کیا جاتا ہے، یا جس میں عوام کی مرضی شامل ہوتی ہے۔ حکمران ہوں یا خفیہ ہاتھ ، ہر کام اپنی مرضی سے ہی کرتے ہیں۔ حکمرانوں کو کوئی میگا پراجیکٹس بنانے ہوں، یا کسی نے حکومتوں کے اندر تبدیلیاں لانی ہوں، سب کچھ ملکی مفاد میں عوام سے چھپا کر ہی کیا جاتا ہے۔ کمیٹی کا رخ کیوں نہیں بن رہا، کوئی راستہ سجھائی کیوں نہیں دے رہا، جزوی باتوں پر بحث و مباحثہ ہی کیوں جاری رہتا ہے؟ اس کی ایک اہم اور خاص وجہ یہ ہے کہ تحقیقات اس پارلیمانی کمیٹی کا کام ہے ہی نہیں۔ ان معزز ارکان کو کیا علم کہ معاملے کی تحقیق کیسے کرنی ہے؟ اس کام کے لئے تو عدالتِ عظمیٰ نے بھی کسی حد تک جواب دے دیا ہے۔ پہلے پہل جب وزیراعظم نے اپنے اوپر اچانک آپڑنے والی آفت کو ٹالنے کے لئے سپریم کورٹ کو کمیشن بنانے کا خط لکھا تو اس وقت بھی اپوزیشن کے خاص قانونی ماہر چوہدری اعتزاز احسن نے اصرار کے ساتھ کہا تھا کہ یہ کام عدالت کا نہیں، اس کے لئے عالمی سطح کے ماہرین کی ضرورت ہے، جو تحقیق کرکے کسی نتیجے پر پہنچیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ آخر یہ پارلیمانی کمیٹی کیا کرے گی، کونسی مہارتیں یا ذرائع ہیں جن کی مدد سے یہ لوگ تحقیق کریں گے؟

پارلیمانی کمیٹی یہ طے کرے گی کہ اس نے کیا کرنا ہے؟ کچھ کرنا بھی ہے یا نہیں؟ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ جب سرکار کے کسی کام کے لئے کمیٹی تشکیل دے دی جاتی ہے تو وہ کام ہمیشہ کے لئے کھٹائی میں پڑ جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹیوں کو ہی دیکھ لیجئے ، ارکان منتخب ہوتے ہیں، اجلاس ہوتے ہیں، ٹی اے ڈی اے بنتے ہیں، ایک معقول عرصے کے بعد سفارشات تیار ہوتی ہیں،( تاکہ تب تک کچھ جیب خرچ نکل سکے) ریکارڈ دیکھا جاسکتا ہے کہ ایسی سفارشات پر اتنا ہی عمل درآمد ہوتا ہے، جسے اونٹ کے منہ میں زیرا قرا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح جب حکومت پر کسی قسم کا اعتراض اٹھتا ہے تو حکومت اس کا فوری حل یہی نکالتی ہے کہ ایک عدد کمیٹی بنا دی جاتی ہے، جس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ بس سفارشات تیار کیا کرے ۔ کسی بھی کمیٹی کا قیام گویا ٹال مٹول کی پالیسی پر عمل درآمد کرنا ہوتا ہے۔ اب پانامہ لیکس پر بھی کمیٹی بن گئی ہے، اس کے چار اجلاس ہو چکے ہیں، کمیٹی نے اب تک ایک بات یہ طے کی ہے کہ کمیٹی کا کوئی سربراہ نہیں ہوگا۔ نہ جانے پروگرام کی ابتدا کون کروائے گا، معاملات کو کون سمیٹے گا، بحث کو آگے کون چلائے گا؟ شاید کسی کو کوارڈینیٹر کا نام دے دیا جائے گا۔

اس اہم ترین کمیٹی نے ایک اور فیصلہ یہ کیا ہے کہ یہ کسی نتیجے تک نہیں پہنچی، صرف ایک دوسرے پر اعتراضات اور احتجاج تک ہی معاملہ لٹکا ہواہے، خواجہ سعد رفیق کے جذبات کے خلاف اپوزیشن کے ارکان نے احتجاج کیا۔ کمیٹی نے یہ بھی طے کیا کہ عمران خان اور بلاول زرداری اس ٹی او آرز کے خلاف بیان دینے سے گریز کریں۔ ظاہر ہے کمیٹی کے ممبران نے اور کرنا بھی کیا تھا، سیاسی باتیں ہی کرسکتے ہیں، وہ انہوں نے کیں اور ابھی تک کر رہے ہیں، جس پانامہ پر اپوزیشن نے اور بعد ازاں حکومت نے بھی پورا ملک سر پر اٹھا لیا تھا، اب تک قوم کو یہی بتایا جارہا ہے کہ اس کے نتیجے میں بہت بڑی تبدیلی رونما ہو جائے گی، دریا کو کوزے میں بند کرنے کا محاورہ یہاں اپنی عملی شکل میں دکھائی دے رہا ہے، یعنی پورے ملک کا ہنگامہ اب اس کمیٹی کی میز تک محدود ہو کر رہ گیا ہے، اور کمیٹی کی کارکردگی بھی بس وہ جزوی اور سطحی مخالفانہ کاروائیوں تک محدود۔ اس کمیٹی نے ایک اور قابلِ ذکر کام بھی کیا ہے، وہ ہے اپنے وزیراعظم کے لئے دعائے صحت کا اہتمام۔ یہ کام ویسے تو پوری قوم نے کیا ہے، اس کی خبر بھی اسی انداز میں آئی ہے، یہ کمیٹی چونکہ اہم ہے، اس لئے دعا سمیت اس کا ہر عمل اہم ہے۔ قوم خاطر جمع رکھے، یہ کمیٹی بھی کسی نہ کسی نتیجے تک ضرور پہنچ جائے گی، بشرطیکہ کسی ایجنڈے کے تحت کام شروع کردے، فی الحال تو پوائنٹ سکورنگ اور گپ شپ ایجنڈا ہے، اس کا نتیجہ تاحال صرف ’’ڈیڈ لاک‘‘ کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔
 
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428869 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.